بلاگز

خیال سے ملاقات۔۔۔۔۔تحریریں

تحریر: حمایت خیال

تحریریں اچھی ھوتی ہیں …اگر مناسب موقع محل پہ مناسب الفاظ کو تراش کے لکھا جائے. آج کی گفتگو بھی تحریروں سے منسلک ھے. یہ تحریریں ھمارے معاشرے کو بھیانک چہرہ بنا کر پیش کر رھی ھیں.

آج میرا پیپر تھا. پیپر ختم ھو چکا تھا. ڈاکٹر ساجد صاحب کوئز پیپر لینے چلے گئے..ان کی واپسی میں تاخیر ھوئی. پیپر چونکہ ختم ھو چکا تھا سو اسلئے میز پہ لکھے گئے فارمولوں اور ان کی تشریح پہ نظر گئی. میں چونک سا گیا. پھر احساس ھوا کہ کاش پیپر سے پہلے ھی میز کو توجہ سے پڑھتا.. اس میز پہ کوئی ایسی جگہ خالی موجود نہ تھی. میز اور کرسی میں اس قدر مواد لکھا گیا تھا جو کم از کم ایک سمسٹر کا کورس کے برابر ھوتا ھے.

پھر دیواروں کی جانب دیکھا تو وھاں تاریخ رقم کرنے والے طالبعلموں نے اپنے نام لکھے تھے. دیوار پہ جگہ جگہ مختلف پارٹیوں کے بھی نام تھے. واپسی پہ یہی سوچتا رھا ھم کہاں جارھے ہیں. .؟ روڑ کے آس پاس کی عمارتوں میں سیاسی نعرے، مذہبی جنون اور کئی ایسے مراکز کا پتہ بھی مل گیا جو بے اولادی، بیروزگاری، مردوانہ کمزوری، گھریلو تنازعات اور دیگر مشکلات میں گرے ھوئے لوگوں کو، ان کے مسائل سے نجات دلا سکتے ہیں.

میں نے خیال سے پوچھا کہ کیا یہ کام غلط نہیں ہیں..؟

نہیں .. تم کسی چیز کو غلط یا صحیح ثابت نہیں کر سکتے. اگر مناسب جگہ پہ لکھی جائیں تو بہتر ہیں..لیکن مہذب قومیں اس طرح کے کاموں سے احتیاط کرتی ہیں. ھم دنیا کے سامنے اپنے آپ کو اس قدر غیر مہذب دکھلانے پہ تلے ھوئے ہیں. ھم جہاں سے گزرتے ہیں نشانی چھوڑ جاتے ہیں… اپنی غلطیوں پہ نادم ھونے کے بجائے ھم فخر محسوس کرتے ہیں. میں یہ وثوق سے کہہ نہیں سکتا کہ مہذب قوموں سے ھماراتعلق رھا ھوگا.. اگر ھمارے آباء اجداد اگر مہذب تھے تو ارتقا اس قدر جلد کیسے آیا. شکل و صورت سے کہیں نہ کہیں ھمارا تعلق حضرت انسان سے ھے. انسانوں جیسی آنکھیں، انسانوں جیسے کان، ناک غرض دیکھنے میں ایک کامل انسان کی خوبیاں موجود ہیں. مگر یہ پردہ اس وقت ہٹتا ھے جب ھمارے اندر موجود انسان منظر عام پہ آ جاتا ھے. وہ اس طرح کہ، ھمارے معاشرے میں کوئی ایسی دیوار نہیں موجود جس پہ کوئی نہ کوئی ادھورا جملہ لکھا نہ گیا ھو. ھمارے بچے اپنے لڑکپن ھی سے در و دیوار سے اس قدر علم سے مستفد ھوتے ہیں کہ انہیں باقی ماندہ زندگی میں حق و باطل میں تمیز کرنے کی ضرورت نہیں ھوتی. بچے کلاس اول پاس کرنے سے پہلے سیکھ جاتے ہیں کہ کس دیوار پہ کیا لکھنا ھے. افسوس یہ بھی ھے کہ ھمارے بڑے منع بھی نہیں کرتے.. اس کے کئی ایک وجوھات ہیں.
۱- اول یہ کہ ان کا بیٹا ھمسائے کی دیوار میلی کر رھا ھے. تاکہ ھمسائے کے بنگلے کی دیوار اور ان کی دیوار کی شکل ایک جیسی ھوتی ھے..
۲- دوئم .. کچھ والدین اس لئے بھی مطمئن ہیں کہ ان کے بچے اسلامی نعرے در و دیوار پہ لکھ کے اسلام کا جھنڈا بلند کر رھے ہیں.
۳- ان میں طلباء کا ایک ایسا گروہ بھی شامل ھے جو اپنی کتابیں اور نوٹس بچاتے ہیں. کلاس کی کرسیوں اور دیواروں پہ لکھتے ہیں. تاکہ مسقبل (امتحان) میں کام آئیں. ایسے بچے دور اندیش ھوتے ہیں.
۴- اب پہلے زمانے کی طرح مناظرے، مناقبے، مباحثے نہیں ھوتے. ایک دوسرے کے نظریات کو شکست فاش دینے کیلئے در و دیوار سے کام لے رہے ہیں. انہی دیواروں کی چاکنک ھی کسی شخص کو مسلمان اور کافر بنا رھی ہیں.. یہی منصف کا کام کر رھی ہیں.. یہی دیواریں ایک علاقے پہ کسی کو حق قرار دے رہی ہیں تو کسی اور علاقے میں باطل ٹھرا رھی ہیں..

ھم کبھی فارغ نہیں رھتے.. جہاں جاتے ہیں کم از کم اپنا نام لکھ لیتے ہیں. کہیں لمبے سفر پہ نکلو گے تو یہ بات آپ پہ عیاں ھوگی. کراچی سے اسلام آباد .. گلگت بلتستان … بلوچستان .. خیبر پختونخوا غرض پاکستان میں کہیں بھی چلے جاؤ ایسے بے شمار جگہے مل جائیں گے … کہیں واش روم کی دیواریں، بس کی سیٹیں، ٹرین کے کیبن، پلیٹ فارمز، بس اسٹاپ ایسی تحریروں سے محفوظ نہیں…
یار حمایت..! جس معاشرے میں پس پردہ ،پس دیوار لوگ محفوظ نہیں. اس معاشرے میں آپ کو حق نہیں کہ در دیوار کی سلامتی چاھو.. پہلے پس در و دیوار میں رہنے والے کی حفاظت کرو. اپنے ھی گھر میں بچوں کو سکھاؤ، دوستوں سے شیئر کرو. پھر ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب پس در ودیوار کیساتھ ساتھ دیواریں بھی صاف شفاف ںظر آئیں گی.

صفائی نصف ایمان ھے. اذھان کی صفائی (کسی کا برا نہ سوچنا، پاکدامنی) اور معاشرے کی صفائی کے بعد تم کہہ سکتے ھو ..

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button