کالمز

مبارک ہو، ہماری عمر بڑھ گئی ہے

تحریر :عارف نواز

گلگت بلتستان کی حکومت بھی دوسرے صوبوں کی طرح شروع سے ہی طرح طرح کے دعوے اور اعلانات کرتے ہوے آرہے ہیں۔ گلگت بلتستان کی حکومت پہلے دن سے عام آدمی کو ریلیف دینے اور کرپشن کو جڑ سے مٹانے کے عزم پر عمل پیرا ہے۔ ان کی مشہور زمانہ دعوے کرپشن مٹانے اور غربت کی شرح کو کم کرنے پر مخلصانہ اقدامات کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر پائیں بلکہ کئی سکینڈلز سامنے آگئے جو ان کی نااہلی کا واضح ثبوت ہے۔ افسوس صد افسوس ہر آئے روز سکردو گلگت روڈ پہ حادثات ہوتے ہیں اور بہت سے قیمتی جانیں ضائح ہو جاتے ہیں لیکن ہماری حکومت اس مسلے پر بھی سیاست کرنے سے باز نہیں آ رہے ہیں۔ اور وزیر اعلی حافظ الرحمن صاحب چاہے خواہ کتنا بھی مخلص کیوں نہ ہو لیکن ان کے مشیر حضرات صرف سیاسی مقاصد کے لئے ان کو مفت مشورے دیتے ہے۔ عام آدمی کی فلاح کے لئے کوئی قابل فخر مشاورت کرنے میں ناکام دیکھائی دیتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں جو سکینڈلز سامنے آئے ہے اور وہ لوگ کوئی ایسا کام بھی نہیں کر پائے تھے جس کو لے کے عوام ان کی تعریف کریں ۔ اس لئے عوام خاص کر نوجوان طبقے نے ان پر بہت زیادہ تنقید کی۔ اس طبقے کا منہ بند کرنے کے لئے ایک نئی چال چلایا جارہا ہے کیونکہ ابھی حال ہی میں سرکاری ملازمتوں کی بھرتیوں کی حد پہلے 32 سال تھی اب 35 سال کر دی ہے۔ سرکاری ملازمتوں پر عمر کی حد 35 سال کر نے کی گورنر گلگت بلتستان میر غضنفر علی خان نے منظوری دے دی ہے۔ سمری وزیر اعلی نے گورنر کو ارسال کر دی تھی انہوں نے اس پہ دستخط کر کے منظور ی دے دی ہے۔

اس اقدم کی سماجی اور خاص کر طلب علم اور نوجوان طبقے نے خیر مقدم کیا ہے کیونکہ اس طرح وہ طبقہ جو عمر زائد ہونے کی وجہ سے بے روزگار تھے ان کو بھی ایک امید کی کرن نظر آنے لگی ہے۔ اب ہر کوئی گورنمنٹ کی اس اقدام کی تعریف کرتے تھکتے نظر نہیں آرہے ہیں۔گورنمنٹ کی اس چال نے مات دے دی ہے کیونکہ وہ طبقہ جو ان پہ تنقید پہ تنقید کر رہا تھا وہ اب ان کی تعریف کرنے پر مجبور ہے۔ لیکن سرکاری ملازمتوں کی کہانی بھی سب کے سامنے ہے ۔
محسن نقوی نے کہا تھا۔
ہم نے سچ بولنے کی جرت کی
تیرے بارے میں اور کیا کہتے
غیرت جاں کی بات تھی ورنہ
ہم تیرے سامنے بھی چپ رہتے

میں مانتا ہوں بعض اوقات خاموشی بڑے بڑے دھکوں کا مداوا بھی بن جاتی ہے لیکن کوئی سچ کی طاقت سے بھی تو انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ منظر نامہ آپ کے اور میرے سامنے ہے ۔سرکاری ملازمتوں کی کہانی سب کے سامنے ہے۔

گلگت بلتستان کی گورنمنٹ کو چاہیے کہ اس سال جس طرح محکمہ تعلم نے ٹیچرز کی بھرتیاں نیشنل ٹیسٹنگ سروس کے ذریعے کیا بلکل اسی طرح اب کے بار جو بھی بھرتیاں ہوں ان کو بھی nts کے ذریعے کیا جائے تاکہ میرٹ پہ بھرتیاں ممکن ہوں۔ اگر اس بار بھی پچھلی روایات کو بر قرار رکھتے ہوئے میرٹ پہ بھرتیاں نہ ہوا تو اس اقدم کا یعنی صرف عمر کی حد کو بڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
اس لئے صوبائی حکومت کو میرٹ سسٹم کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کرنا چاہیے۔ جہاں سرکاری ملازمتوں کی بھرتیاں امیدوارں کی قابلیت اور صلاحیت کی بنا پر ہو نہ کہ ان کی سیاسی اثررسوخ کی بنا پہ۔ اب کے بار بھی وہ اپنی پرانی روش نہیں بدلی تو اس اقدم کی بھی کوئی ثمرات سامنے نہیں آنی ۔

اس لئے موجودہ ملکی اور صوبائی حالات کے تناظر میں تیزی سے گزرتے وقت کے ساتھ تیز مگر دیرپا اقدامات کی ضرورت ہے، لیکن وزیر اعلی اور ان کی ٹیم کے اقدامات میں تیزی مگر دیرپا دیکھنے میں نہیں آ رہی ۔ بنیادی سہولتوں کی فراہمی، غربت کی شرح کو کم کرنے اور اسے جڑ سے مٹانے کا واحد حل ہے۔موجودہ حکومت اپنے اقتدار کے ایک سال سے بھی زائد کا عرصہ مکمل کر چکی ہے او ر ان عرصوں میں حکومت نے غریب عوام کو مایوسی کے اندھے کنویں میں دھکیل دیا ہے جہاں سے نکلنا بہت مشکل ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ہماری حکومت آگے کے لئے کیا پالیسی اپناتے ہیں۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button