چائینہ پاکستان اکنامک کوریڈور(سی پیک) کے حوالے سے مین اسٹریم اور سوشل میڈیا پر آئے روز نت نئی خبروں کی گردش کے بعد اب لفظ ’’سی پیک‘‘ کا شمارسوشل میڈیا کے ان روایتی الفاظ میں ہوچکا ہے، جن کے استعمال کو ہرصارف دانستہ یا نادانستہ طورپر اپنا ایک سماجی فریضہ سمجھتا ہے۔ جیسے خوشگوار پوسٹس پر کومنٹ میں نائس، اوسم، گریٹ، ویلڈن اور کسی ناخوشگوار واقعہ سے متعلق پوسٹ پر RIP ، سیڈ یا کسی بیمار کی آن لائن تیمارداری کے لئے گیٹ ویل سون وغیرہ۔۔
علاوہ ازیں فیس بک پر دوستوں کی خوشنودی کی خاطر آنکھیں بند کرکے ہر پوسٹ کو لائیک کرنا بھی صارفین کا ایک اہم مشغلہ بن چکا ہے۔ بعض اوقات ایسے پوسٹس کو بھی سینکڑوں میں لائیکس ملتے ہیں جن میں حالات کا تقاضا دکھ، افسوس ، ہمدردی اور ماتم کا ہوتا ہے۔
سی پیک کے ساتھ بھی کچھ اس طرح کا ہی المیہ ہے۔ سوشل میڈیا پر بہت سارے ایسے لوگ ہیں جواس منصوبے پر صرف بازاری زبان میں تنقید پراکتفا کرلیتے ہیں جنہیں سی پیک کے پس منظر کا کوئی علم نہیں ہوتا۔ جیسا کہ گزشتہ دنوں لاہورسے کچھ صاحبان نے مشہور پشاوری نسوار پر سی پیک نسوار کا اسٹیکر لگا کراپنے کاروبار کی تشہیر شروع کردی ۔ بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو صرف سی پیک کی خامیوں کی تلاش میں ہی اپنی توانائی صرف کردیتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں اس سے قبل میں خود بھی شامل تھا ، مگر میری تنقید کا محور سی پیک اورگلگت بلتستان کی حدتک ہی تھا اور مجموعی ٹھیکہ داری سے مبرا تھا۔
وہ اس لحاظ سے کہ گلگت بلتستان میری دھرتی ماں اور سی پیک کا دروازہ ہے۔ بقول عبدالحفیظ شاکر صاحب ’’ اس سرزمین کا قرض چکائے تو کس طرح‘‘ کے مجھے بھی سی پیک کے معاملے میں ابتدائی طورپر اپنی دھرتی کے ساتھ کچھ ناانصافی ہوتی نظر آرہی تھی اور اس ناانصافی کے خلاف قلمی جدوجہد اپنی سرزمین کا قرض چکانے کی میری ایک حقیر کوشش تھی۔ اگرچہ اس حوالے سے شائع ہونے والے میرے تنقیدی کالموں پر وقت کے حکمران اور سی پیک کے خیرخواہ خفا بھی ہوئے ہونگے مگر میں نے دھرتی ماں کا قرض چکانا ہی تھا ، ہے اور آئندہ بھی چکاتارہوں گا۔
سی پیک سے متعلق میری تحریروں پر بعض دوست احتیاط برتنے اور اس حساس موضوع کو نہ چھیڑنے کا مشورہ بھی دیتے رہے لیکن میں نے کسی کی نہ سنی۔ کیونکہ مجھے اندازہ تھا کہ میں نہ سی پیک دشمن عناصر کا آلہ کار ہوں نہ ہی کسی حکومت مخالف جماعت کا کارکن۔ میں توصرف اپنی دھرتی ماں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر انصاف کا متمنی تھا اور ہوں۔
اس سے قبل سی پیک کے تحت دونوں ممالک کے مابین دستخط ہونے والے منصوبوں کی دستاویزات اوراس حوالے سے انٹرنیٹ پر دستیاب مواد کا جائزہ لینے کے بعدمیں اپنے اس موقف پر قائم رہا کہ سی پیک میں گلگت بلتستان کا کوئی نام ونشان تک نہیں۔ یہ موقف نہ صرف میرا بلکہ مشاہد حسین سید جیسے لوگ بھی یہ خدشتہ ظاہر کررہے تھے کہ وفاقی حکمران حسب روایت اس بار بھی گلگت بلتستان کے عوام کو زبانی طورپر دلاسے دیکر اپنا کام تمام کریں گے۔
تاہم وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے گزشتہ دنوں چین میں سی پیک کی جوائنٹ کواپریشن کمیٹی (جے سی سی) کے چھٹے اجلاس میں شرکت سے واپسی پر سی پیک کے تحت گلگت بلتستان کو بھی کچھ فوائد ملنے کی نوید سنا دی۔ نوید سنا دی کہا تو کچھ لوگ پھر تنقید پر اتر آئیں گے کہ اس نے ایک سیاستدان کی باتوں کو سچائی سے تعبیر کردیا لیکن بات ایسی نہیں۔ سیاستدانوں کی کہی ہوئی زبانی باتوں پریقین رکھنے کا میں خودبھی قائل نہیں مگر تحریری دستاویزات پر مجھے بہت حدتک یقین ہے۔
وزیراعلیٰ کے ساتھ اس نشت میں انہوں نے گفتگو کے آغاز سے قبل چھٹے جے سی سی اجلاس کے منٹس تھما دئیے جن پرباضابطہ طورپر دونوں ممالک کے نمائندوں کے دستخط بھی موجود تھے۔ منٹس کے اندر سی پیک سے متعلق بہت سی باتوں اور فیصلوں کا ذکرموجود تھا ۔ چونکہ ہمارا فوکس گلگت بلتستان تھا تو منٹس کے اندر ہم نے گلگت بلتستان کو ہی کھنگالنا شروع کردیا۔ جس پر معلوم ہوا کہ چھٹے جے سی سی اجلاس میں گلگت بلتستان کی تعمیروترقی کے حوالے سے خاصی پیش رفت ہوئی ہے۔
جن منصوبوں کا منٹس کے اندر ذکرموجود ہے ان میں عالم پل کے قریب سکردو روڈ پرمقپون داس کے مقام پرسی پیک کے تحت اکنامک زون کا قیام، شاہراہ قراقرم کے متبادل راستے کے طورپر گلگت تا چترال سڑک کی جدید طرزتعمیر، ضلع غذرکی تحصیل پھنڈر میں اسیّ میگاواٹ ہائیڈروپاور منصوبہ، دیامربھاشا ڈیم کی تعمیرمیں مالی معاونت، رائیکوٹ سے تھاکوٹ تک شاہراہ ریشم کی ازسرنو تعمیرکے منصوبے شامل تھے۔
بعد آزاں سی ایم صاحب نے اپنی بریفنگ میں اس پیش رفت کا تفصلاً ذکرکرتے ہوئے سی پیک کے معاملے میں صوبائی حکومت کو حدف تنقید بنانے والی سیاسی جماعتوں پر خوب برس پڑے ۔ جسے اگلے روز کے اخبارات میں شہ سرخیوں میں جگہ ملنے پر فیس بکی دانشوروں نے نہ صرف اسے جھوٹ کا پلندہ قراردیا بلکہ حکومت کے ساتھ ساتھ مقامی صحافیوں کو بھی مختلف القابات سے نوازنے میں دیر نہیں کردی۔ حالانکہ ان لوگوں کو حقائق جانے بغیر تنقید کا راستہ اختیارکرنے کی بجائے حکومتی ذمہ داران یا اس بریفنگ میں شریک کسی صحافی سے وہ منٹس اٹھاکر نہ صرف وفاقی سطح پر بلکہ چینی حکام سے بھی ان کی تصدیق کروانے کا خیال آجاتا تو ان کے شکوک وشبہات کا کوئی مناسب حل نکل آتا۔ ایسا نہ کرکے راتوں رات سی پیک کے ثمرات سے مستفید ہونے کا خواب دیکھنے کے چکر میں حکومت یا صحافیوں پر تنقید مہذب معاشرے کا خاصہ نہیں۔
بلا شبہ وقتی طور پر تو وہ منصوبے صرف کاغذوں کی حد تک ہی ہیں اور ان پر عملدرآمدکے لئے ابھی کافی وقت درکار ہے۔ ایسی صورتحال میں اپوزیشن جماعتوں اورعوام کو حکومتی کارکردگی پر اس وقت تک اعتبار نہیں آسکتا جب تک کہ کسی منصوبے پر عملی کام ہوتا ہوا نظر نہ آتا ہو۔ اس سلسلے میں صوبائی حکومت خاص طورپر وزیراعلیٰ گلگت بلتستان جو جے سی سی کے ممبر بھی ہیں، کو فالو اپ میٹنگس میں پھرتی کا مظاہرہ کرنا لازمی ہے۔ جب تک حکومتی سطح پر فالو اپ کا بہترین نظام نہیں اپنایا جائیگا، یہ منصوبے کا