مالاکنڈ، دیر، سوات اور بعد ازاں بلوچستان کے قبائلی علاقوں میں انگریز نے جس سخت ترین اور پوشیدہ دشمن کو زیر کرنا تھا اس کے لئے وہ سر عام کوڑے برسانے والی پالیسی کو کسی صورت اپنانے کی غلطی نہیں کر سکتا تھا ۔ در اصل قبائلی ر سم و رواج اور بہت بڑے ہدف کی تکمیل کے لئے لازم تھا کہ وہ دل و دماغ جیتنا شروع کرے اور اس کے ساتھ ہی عوامی نبض پہ ہاتھ رکھ کے ان کی پل پل کی خبر رکھے۔ یہ کام وہ باقاعدہ تھانے بنا کر یا یکمشت ضابطہ فوجداری نافذ کر کے نہیں کر سکتا تھا ۔ لہٰذا اس نے قبائل میں ہی سے کچھ نمائندوں کو اپنے اپنے علاقوں کا ذمہ دار بنایا اور ان ہی کے علاقوں سے ہر شاخ کے افراد کو نیم سرکاری فوجی صورت دے کر لیویز فورس کی بنیاد 1859میں مالاکنڈ میں اور 1883میں بلوچستان کے قبائلی علاقے ژوب میں رکھی ۔انگریز اپنے پولیٹیکل ایجنٹ اور ڈپٹی کمشنر کے ذریعے جس وسیع و عریض نظام کو سات سمندر پار بیٹھ کر کامیابی سے چلا رہا تھا وہ در اصل اسی کمیونٹی پولیسنگ کے ذریعے ممکن تھا۔ ایک علاقے کا مکمل انتظام جہاں ڈپٹی کمشنر کے پاس بذریعہ لیویز تھا وہاں اس کے کل پرزے تحصیلدار،عملہ مال و دیگر، بذریعہ لیویز ہی اس اختیار و اقتدار کو عملی جامہ پہنا رہے تھے۔ اس قدر قانون کی عملداری کی مثالیں دور حاضر میں ملنا نا ممکن ہیں۔ قابل غور امر یہ ہے کہ آخر اس عملداری کی بنیاد کس ستون پر قائم تھی۔ وہ کون سا خاص مہرہ تھا جو کہ دور حاضر میں معدوم ہوتا چلا جا رہا ہے اور حکومتی عملداری کو بھی ساتھ ہی گھٹا تا جا رہا ہے ۔ اسی مہرہ کا ادراک آمدہ الفاظ میں پیش خدمت ہے ۔
کمیونٹی پولیسنگ کے اصول کے تحت لیویز کا اپنا خفیہ معلومات و اطلاعات کا ایک ایسا مربوط و منظم نظام پایا جاتا ہے کہ جو کسی رسمی تربیت یا عرف عام میں جانے پہچانے قواعد سے بالا و مختلف ہے ۔علاقائی و مقامی تشخص کے حامل یہ افراد روزمرہ امور میں عوام الناس کی تمام خوشی غمی ، رسم و رواج اور دیگر نجی تقاریب میں شمولیت کے علاوہ ، معاشرے کے ہر فرد سے اس قدر قریب ہوتے ہیں اور اس طرح سے گھلے ملے ہوتے ہیں کہ انہیں کسی بھی پیش رفت کا اندازہ قبل از وقت ہو جاتا ہے ۔اور یہ در اصل انتہائی غیر محسوس انٹیلی جنس ہے ، جس میں اس پیش رفت کے اصل محرکات اور اس کے مستقبل کی پیش بینی بھی بہ آسانی ممکن ہو جاتی ہے ۔یہاں تک کہ کارروائی کا وقت بھی اسی مخبری کی تعمیل کے تحت متعین کیا جا سکتا ہے ۔
علاقائی یا قبائلی ذمہ داری کا دوسرا سنہری اصول موجودہ دور میں محلہ جاتی اور نمبرداری نظام کی صورت میں کار گر ہے۔ چونکہ ڈپٹی کمشنر ز کی زیرنگرانی نمبر دار حضرات کی نشا ۃ ثانیہ کے بعد اب ان کو مزید مفید و بار آور ثابت کرنے کے لئے انہیں لیویز کے اس نظام کا حصہ بنانا لازمی ہے تا کہ وہ لیویز کی سربراہی میں محلہ جاتی کمیٹیوں کی ماہانہ کارکردگی ڈپٹی کمشنرز تک پہنچا دیں ۔اور محلہ کی سطح پر ہونے والی ہر پیش رفت کا جائزہ بھی ضلعی سربراہ کے مد نظر رہے۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں کے علاوہ گلگت بلتستان کے قبائلی خدو خال بھی اسی فورس اور سرکاری عملداری کے متقاضی ہیں۔ یہی وجہ ہے کی مہاراجہ کے ادوار سے اس کے مختلف علاقوں کے کنٹرول کو لیویز ہی نے سنبھالا اور دور جدید تک اس کی صورت غذر ،چلاس اور ہنزہ وغیرہ کے اضلاع میں نظر آتی ہے۔ قبائلی نوعیت کے ان علاقوں کی بہترین ،موئثر انٹیلی جنس اور ڈپٹی کمشنر کے دست و بازو مضبوط کرنے کے لئے ان کی کار کردگی اور فعالیت کو بروے کار لانا از بس ناگزیر ہے۔ خاص طور پر پاکستان چائنہ اقتصادی راہداری کے پس منظر میں عوامی انٹیلی جنس کا کردار ہر چند بڑھ جاتا ہے ۔اور اس طرح روزمرہ کے جرائم پر کڑی نظر رکھنے کے علاوہ حکومتی عملداری یا رٹ کی مضبوطی کو سر براہ ضلع بحسن خوبی سر انجام دے سکے گا۔ کمیونٹی پولیسنگ کا یہ نظام دنیا کے مہذب ترین ممالک یا یوں کہیے جمہوریت و موجودہ نظام کی کوکھ کے پاس احسن طریقے سے ابھی تک جاری و ساری ہے ۔ شہری و دیہی ترقی کے با وجود وہ اس نظام کی افادیت کے پیش نظر اسے چلا رہے ہیں اور اس سے پوری طرح مستفید ہو رہے ہیں ۔برطانیہ کے دیہی علاقوں میں شیریف کا نظام اور شہری علاقوں میں پولیس کا دائرہ کار اسی امر کی غمازی ہے ۔محلہ جاتی انٹیلی جنس ، دیہی سطح کی معلومات ، عدالتی سمنات کی تعمیل ، ڈپٹی کمشنر یا منتخب میئر کے احکامات کی تعمیل و تکمیل اور سب سے بڑھ کر میونسپل کے امور میں مقامی حکومت کی دست گیری و تعاون اسی فورس کا کام ہوتا ہے ۔نا جائز تجاوزات کی بروقت روک تھام ، حکومتی املاک پر قبضہ سے بچاو اور روزمرہ بازار کے نرخوں پر کڑی نظر رکھنا اور مجسٹریٹ کے احکامات کو بجا لانا ، ایسے تمام عوامل ہیں جن سے نہ صرف یہ کہ ایک طرف عوامی اور منتخب حکومتی رٹ مضبوط ہوتی ہے بلکہ دوسری طرف عوام الناس کو بنیادی لازمی سہولیات ان کی دہلیز پر میسر آتی ہیں ۔ لیویز کا یہ نظام مندرجہ بالا امور کے علاوہ ڈپٹی کمشنر اور اس کے دفتر کے ساتھ ساتھ عوام الناس اور حکومت کے بیچ تار کا کام دیتا ہے ۔ معاملات کو بسا اوقات علاقائی نبض کے زیر انگشت رکھتے ہوئے غیر رسمی انداز سے نمٹانے کے لئے یہی فورس اپنا اثرو رسوخ استعمال کرتی ہے اور بعض ایسے معاہدات و معاملات کے سلجھاو کا باعث بنتی ہے کہ جو موجودہ رسمی نظام سے طے پانا باعث زحمت بن سکتے ہوں ۔
اس نظام کی اسی افادیت کے پیش نظر صوبہ بلوچستان میں انتہائی نا گفتہ بہ حالات والے اضلاع میں اس فورس کی تجدید و ترویج کی گئی اور دور رس اور مثبت ترین نتائج سمیٹے گئے ۔ان اضلاع میں دہشت زدہ خضدار ، کوہلو ،مشکے آواران و ڈیرہ بگٹی شامل ہیں ۔ڈپٹی کمشنرز کو مقامی انٹیلی جنس کا سربراہ بذریعہ کمیونٹی پولیس بناتے ہوئے ان تمام ناسوروں تک بغرض علاج رسائی پا لی گئی جو کہ رسمی طریقوں سے نا قابل گرفت سمجھے جاتے تھے اور باوجود وسائل کے ضیاع کے ان کا انسداد مشکل تھا۔
گلگت بلتستان کے تناظر میں حکومتی عملداری ،ڈپٹی کمشنرز کی اصل افادیت ، میونسپل معاملات کی ادائیگی،عوام الناس کی کار سرکار سے آشنائی ،منتخب نمائندوں کے عوامی احکامات کی تعمیل و تکمیل ، کمیونٹی انٹیلی جنس ،تجاوزات ، زمینی معاملات ،کلکٹر کی گرفت کو مضبوطی دینے کے علاوہ دیگر ایسے بے شمار امور ہیں جن کی روح اور ثمرات سے عوام تب ہی مستفید ہو سکتی ہے جب ڈپٹی کمشنرز اس اہم کل پرزے سے لیس ہوں ۔جب بلوچستان کا بتیس اضلاع پر مشتمل ،تین لاکھ سینتالیس ہزار ایک سو نوے کلو میٹرز کا علاقہ ،فاٹا کی سات ایجنسیوں اور چھ فرنٹیر علاقوں کا ستائیس ہزار دو سو بیس مربع کلو میٹرز کا مشکل ترین علاقہ ایسی قبائلی حکمت عملی سے کنٹرول کیا جا چکا ہے اور حکومتی اہم ترین اہل کار یعنی ڈپٹی کمشنر اور پولیٹیکل ایجینٹ کے ذریعے دل و دماغ جیتنے کی پالیسی پر گامزن ہوا جاتا ہے تو اس میں کوئی امر مانع نہیں کہ لیویز کی استعداد کار کو دفتر ڈپٹی کمشنر کی مضبوطی کا اہم جزو بنایا جائے ۔
کمیونٹی پولیس کا کام فوجداری سے زیادہ دیوانی مقدمات پر نظر رکھ کر سربراہ ضلع کو مطلع کرنا ہوتا ہے تا کہ ان کی بر وقت بیخ کنی ہو ، اور بعد ازاں یہی دیوانی مقدمات و معاملات فوجداری مقدمات ،قتل و غارت گری کا باعث بنتے ہیں ۔بر وقت سد باب کے لئے سر براہ ضلع ایسے تمام اقدامات اٹھاتا ہے جو اس کی نظر میں مناسب بر موقع ہوں ۔اور ایسے مفاہمت کے ذرائع تلاش کر لیتا ہے کہ جن کے استعمال سے معاشرتی و قبائلی بگاڑ کو حفظ ما تقدم کے اصولوں ہی سے روکا جا سکتا ہے ۔لہٰذا زمینی حقائق اور بدلتے حالات و واقعات کے پیش نظر سربراہان اضلاع کو ایسے اسلحہ سے مسلح کرنا دور اندیشی اور مصلحت بینی کا ثبوت ہو گا او ریوں عوام الناس کی کمیونٹی سطح پر شمولیت امن و امان کی ضامن ہونے کے علاوہ اپنے آپ کو سرکاری مشینری کا جزو لازم بھی تصور کریں گے جس کے اثرات کسی سے پنہاں نہ ہوں گے ۔
گلگت بلتستان کی سطح پر لیویز کا مجوزہ بل ، گلگت بلتستان محکمہ انسداد و بچاو قدرتی آفات ، کے لئے نعمت غیر متبرقہ ثابت ہو گا ۔ اس بل کے تحت لیویز کی یہ فورس بوقت ضرورت ضلعی محکمہ انسداد و بچاو قدرتی آفات، کی دست و بازو ہو گی اور اس کے زیر اثر کام کرے گی ۔یعنی کم خرچ بالا نشیں کے مصداق ڈپٹی کمشنرز یا با لفاظ دیگر ضلعی محکمہ انسداد و بچاو قدرتی آفات، اپنی پوری انسانی قوت کے ساتھ منظم طریقے سے بچاو، ریلیف اور امداد کا کام کرے گی جو کہ کسی بھی ملک کے لیے پہلی مثال ہو گی اور بلا شبہ قابل تقلید ہو گی ۔آفت زدہ علاقوں کا تخمینہ لگانے ، عوام الناس میں امدادی سامان کی تقسیم ، منظم طریقہ کار سے مستحقین کی خیمہ بستیوں کا قیام وغیرہ بھی ان کے فرائض میں شامل ہو گا ، جس سے خطہ گلگت بلتستان ، جو کہ ہمیشہ ایسے مراحل سے گذرتا ہے ،فورس کی بہترین صلاحیتو ں سے مستفید ہونے کے علاوہ امددی کاموں میں منصفانہ انداز و تقسیم سے بھی محظوظ ہو گا ۔قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے ان تمام مراحل میں یہ فورس ضلعی محکمہ انسداد و بچاو قدرتی آفات کا ساتھ دے گی جن میں عوام کو بر وقت مطلع کرنا ، مخصوص علاقہ جات کا انخلاء کروانا ، مخصوص راستوں کو دوران آفت بند کرنا یا کھولنا ،مساجد سے حادثات کے اعلانات کرنا ، متاثرین کی فہرستوں کی ترتیب و تیاری میں ضلعی محکمہ انسداد و بچاو قدرتی آفات کی مدد کرنا وغیرہ شامل ہے ۔ انہی خطوط پر کام کرتے ہوئے زمانہ امن میں یہ فورس علاقائی اور محلہ جاتی سطح پر عوامی سروے کرنے کے ساتھ ساتھ تمام عوام کے کوائف بھی جمع کرتی رہے گی جن کی بنیاد پر بعد ازاں امدادی سامان کی تقسیم اور زمینی ، جانی و مالی نقصانات کا معاوضہ بھی بہم پہنچایا جاے گا ۔
قصہ مختصر یہ کہ محکمہ داخلہ ، ڈپٹی کمشنرز اور با لخصوص مقامی حکومتوں کے اختیارات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے لیویز فورس کو بطور میونسپل فورس ،کمیونٹی پولیس یا سول ایدمنسٹریشن فورس کسی بھی نام سے نافذ و مضبوط کیا جائے تو یہ ریاست کی کامیابی و عملداری گردانی جائے گی ۔
پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔