سماجی رابطوں کی بھول بھلیوں میں الجھے رہنے والوں کاسردیوں کی بن بجلی راتوں نے قلم اور قرطاس سے پرانا رشتہ پھر سے جوڑہی دیا۔ جنوری کی بے نوری جب سر چڑھ کر اترانے لگی تو درجہ حرارت یوں ایڑھیوں اتر گئی حتی ٰکہ حرارت پیما کا پارہ بھی کنجوس کی مٹھی کی مانندبدرجہ اتم تھم کر رہ گیا۔ایک طرف بجلی کی غیر حاضری نیپتھر کے دیس کی خون جمادینے والی سردراتوں کو دیومالائی خدوخال میں ڈھال دیاتودوسری طرف سیاسی تھرمامیٹر بھی منفی درجہ شرارت سے لبریز ہوگیا۔ قلیل وقتی حافظے کے مریض نما عوام پھر سے سیخ پاہوگئے گویا کہ بجلی کی بندش اور بحران سے جیسے نابلد ہواورفراوانی بجلی اور رسد مسلسل کے بعد غیر ممکنہ و غیر متوقع حالات کا سامنا ہوا ہو۔ وہ بھول گئے کہ عہدحاضرکی طرح دورگزشتہ میں بھی سیاسی پینترے آزمانے والوں اور ذاتی انا اور منافرت کے داؤ پیچ استعمال کرنے والوں نے میں روشن گلیوں اور بند کمروں کے علاوہ شمع فروزاں تلے بھی عوام کو اندھیرے میں ہی رکھا ہے۔ اب ان باتوں سے کوئی یہ نرافال نہ نکال بیٹھے کہ ہمیں کسی سے بجلی ملی رہی ہے یا ہمارے سر کوئی ید بیضا موجود ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ،ہمارے ہاں بھی بلب اندھے اور سیل و سلک تارتار ہیں۔ ہم بھی نعمتِ عظیم کے حصول میں انہی احتجاج کنندگان کے محتاج رہندہ گانِ رعد و برق میں سے ہیں۔بجلی جب تک حسن میں تھی درباروں میں کنیزیں اور چاردیواریوں میں بیویاں سوسووولٹ جلتی تھیں۔تیل ، گھی اور چربی سے جلنے والے شمعدان ہمہ وقت روشن ہوتا تھا تو خون مزدور کے طفیل فروزاں فانوس کی حفاظت ہوا خودکرتی تھی ۔کہا جاتا ہے کہ ہتھنی کی چربی کے تیل سے درخشاں مشعلوں کو بجھانا بھی چھوٹے پھیپھڑے والے دربانوں کے بس کا روگ نہیں تھا۔ جب سے بجلی پانی اور ہوا جیسی سستی اور بے قدرے ذرائع سے بنے لگی ہے یہ بے مول و مایہ ہوگئی ہے۔ شبستان دیجور و کے پردے تلے غریب شہر کا دولت سرا بھی وزراء و امراء کی کوٹھیوں کی برابری پر اتر آئے۔گئے وقتوں میں حسن کی بجلی سے شعراء آشفتہ سران کا مشاعرہ چلاکرتا تھا آج کی جمہوری حکومت میں حزب اختلاف کے پہیئے چلتے ہیں۔ اقتدار و حاکمیت سے فارغ لوگ یوں گلے پھاڑ پھاڑ کر حالات حاضرہ پر تبصرے کرتے ہیں کہ جیسے ماضی کبھی حال رہا ہی نہیں ۔ انہیں حال پر بولتے ہوئے یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ آج جو حال ہے وہ انہی کا دیا ہوا مستقبل ہی تو ہے ۔احتجاج کی روایت رہی ہے کہ اس میں صرف مخالفین نے شرکت کرنی ہوتی ہے یا پھر منافرین نے ، اگر متاثرین نے کچھ بولنا ہوتا تو شاید خالص متاثرین شرکت کرتے۔ تقریر کرنے والوں میں صاحبان ایوان و اقتدار موجود ہو تو یہ تحریک زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہوسکتی ہے۔احتجاج اپنے اسلوبِ منتظمہ کے اعتبار سے ہمیشہ حزب اختلاف کا معترف ہی رہا ہے۔ جوشیلے مقررین مسئلے کا مسائل ، شازشوں ، نااہلیت حتیٰ کہ حکمرانوں کی نیک و بد تواریخ تولد تک سے رشتے جوڑ لیتے ہیں۔ بجلی کی ضرورت اور بجلی کی بہت ضرورت کے درمیان دو طبقے دیکھے گئے ہیں۔ بجلی کی ضرورت والا طبقہ بجلی خریدنا جانتاہے جبکہ بہت ضرورت والا طبقہ بجلی استعمال کرنا جانتا ہے ۔اپنے بجلی والوں کا کیا سناؤں، وہ بھی اس روش کے برعکس استشنیٰ کے فیوض سے بہرہ مند ہیں جیسے ہمارے ہاں صحت کے عملے کو صحت، تعلیم والوں کو تعلیم ،ذرائع آمدورفت والوں کو کرایے اور محافظوں کو چوری کی جیسی سہولتیں میسر ہیں۔ اگر نہیں کو کسانوں کو نہیں، صبح کو اپنا گندم بیچتے ہیں اور شام کو قطاردر قطار کھڑے ہوکر اسی کا آٹا خرید لاتے ہیں۔جن کو بھاؤ معلوم نہیں وہ خریدتے ہیں اور جو خرید نہیں سکتا وہی انہیں پکاکرکھلاتا ہے۔
بجلی بھی اب پہلے والی بجلی کہاں رہی ۔ مشینوں کی رشتہ داری میں منسلک اس معاشرے میں بجلی تو اب خون بن کر دوڑتی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اورابلاغ عامہ میں حدوں سے پرے نکلتی ترقی کے دور میں بجلی کو روشنی یا ایندھن سے زیادہ اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔ معاشرے کے ہرفرد کا دل و دماغ آج کل بجلی سے ہی چارج ہوتا ہے، سکول ہو یا ہسپتال، بنک ہو یا ڈاک خانہ ، ہوائی اڈہ ہو یا جوئے کا اڈہ بجلی کی آنکھ مچولی ان سب پر بجلی بن کر ہی گرتی ہے۔ طاقتور برقی مصارف استعمال کرنے والے، علی الخصوص بجلی کو بطور ایندھن استعمال کرنے پرحسب ضرورت پیداواری صلاحیت کے حصول تک مکمل پابندی لگائی جائے تو کوئی ہرج نہیں ۔بجلی نے تو اب انسانی بنیادی ضروریات میں روٹی اور کپڑے کے بعد اپنی جگہ مستحکم کرلی ہے یا پھر یوں کہیے کہ مکان بمعہ بجلی کو تیسری اہم پوزیشن حاصل ہوگئی ہے۔ احتجاجی جلسوں میں تقریر کرنے والے سیاسی نمائندوں کے گھروں میں نجی انتظامات تو موجود ہوتے ہیں ۔ مگر کاروباری ضرورت کے لئے اس کا استعمال کرنے والے اس کی لاگت کو قیمت فروخت میں شامل کرکے عوام کو اندھیرے میں رہنے کا صلہ بھی چکاتے نظرآتے ہیں۔ درایں اثنا ڈویژنل ہیڈکوارٹر کی نسبت دورافتادہ دیہاتوں میں صورتحال قدرے حوصلہ افزاء دیکھائی دیتے ہیں ۔ چند علاقوں کے خوش نصیب لوگوں کی آنکھیں کئی بار بند ہوکر کھلتی ہیں مگر ان کی روشنی نہیں جاتی۔ تولیدوافزائش کے بعد پن بجلی کی پیداواری صلاحیت میں ہمارا صوبہ ملک کے کسی بھی دوسرے صوبے سے پیچھے نہیں ۔ تاہم صرف ضلع سکردو کے طور پر شہر سکردو اور مضافات کے بارے میں سوچنا بھی درست نہیں ۔سکردو صرف سکردو نہیں، یہ ہر ضلعے پر اپناحق رکھتاہے۔ یقیناًبطور ڈویژنل ہیڈ کوارٹر اس کا ترقیاتی بجٹ دیگر ضلعوں کی نسبت قدرے زیادہ ہوگی لیکن حوصلہ افزاء حد تک زیادہ نہیں ۔ سکردومیں ہر دوسرے ضلعے کا حتی کہ گلگت، استور اور ہنزہ سے بھی لوگوں کی ایک کثیر تعداد رہائش پذیر ہے جو روزگارو حصول معاش کے علاوہ اشیائے صرف، توانائی اور آمدورفت کے اعتبار سے بھی سکردو شہر کے دامن گیر ہیں ۔اس لئے دیگر اضلاع کے نمائندوں کو بھی حلقہ یاراں کی خوشنودی کے خول سے نکل کر شہر سکردو کی ترقی و استحکام کی خاطر خوراک و توانائی کے منصوبے ضرور زیر غور لانے چاہیے۔دوسری طرف غیر سرکاری ترقیاتی تنظیموں کو بھی خوراک و توانائی میں سب سے زیادہ سکردو اور مضافات کی طرف خوب توجہ دینے اور غیرسرکاری ذرائع اور مخیر حضرات کو راغب کرنے کی ضرورت ہے۔ ادبا ، مفکرین اور علماء و مشائخ کو بھی بجلی نہ آنے پر تلخ نوائیوں کی زحمت اٹھانے کی بجائے اپنا اثرورسوخ استعمال کرنا چاہیئے۔ ذرائع ابلاغ کو بھی حکومت مخالف یا سرکاردوست جلسے جلوسوں کی طرح ماہرین کی رائے تلاش کر بحران کے حل سے متعلق تحقیق کرنے، شواہد اکھٹے کرنے اور مواقع کا شعور اجاگر کرنے کی طرف توجہ دلانا چاہیئے۔ جب یہ مسئلہ سب کا ہے تو اس کے حل میں بھی سب اپنا اپنا کردار ایمانداری اور ذمہ داری کے ساتھ ادا کریں تو یہ معاملہ اتنا گھمبیر نہیں کہ شہری ماحول کو متاثر کرنے کی نوبت آئے۔ حکومتی نمائندوں کو بھی چاہیئے کہ گزارہ گردی کی بجائے طویل المیعاد منصوبہ بندی کریں اور بجلی کو بطور بنیادی توانائی بغرض روشنی و اطلاعات کی حد تک فراوانی ممکن بنائی جائے۔ بین الصوبائی روابط بڑھائے جائیں ، ملکی و غیر ملکی سطح پر اثر ورسوخ بڑھایا جائے ، نجی شعبوں سے سرمایہ کاروں کو مدعو کیا جائے اور غیر سرکاری اداروں کی مدد اور تعاون حاصل کریں ۔مشیران ہی بہتر بتا سکتے ہیں کہ کیابرادر اسلامی ممالک سے بھی اس مد میں تعاون طلب کرنا بھی حاجت برآوری کا سبب بن سکتا ہے؟۔اکبرالوزراء سے زیادہ تابانی سے کون آشنا ہوسکتاہے۔ از بس کہ امیدقوی ہے کہ بہت جلد شہرسکردو میں تابانیاں لوٹ آئیں گی۔