تحریر : حاجی سرمیکی
سائنس اور ٹیکنالوجی کی جدید دنیا کا سپرپاور امریکہ نے اٹھارویں صدی کے اواخر میں ایک محقق کو صرف اس لئے اپنے کام سے روکا کہ اس کے تجربے کی کامیابی کی صورت میں ریاستی مفاد میں رازداری کے معاملات متاثر ہونے کا خدشہ تھا۔ وہ محقق مارکونی تھا ،جو تقریبا ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک لاسلکی ذرائع سے اپنی آواز کامیابی کے ساتھ بھیجنے میں کامیاب ہوچکا تھا ۔ علم دوستی اور اپنے کام سے عشق نے اسے وطن بدر ہونے پرمجبور کردیا۔ مارکونی کو اپنے وطن کے قوانین اس کی کامیابی کی راہ میں حائل نظر آرہے تھے۔ چنانچہ وہ برطانیہ سدھارچلا اور وہاں اپنی تجربہ گاہ کی بنیاد ڈالی۔ چونکہ بہت سارا کام پہلے ہی تکمیل پذیر تھا اس لئے اسے اس کاوش کو مزید آگے بڑھانے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ یوں انیسویں صدی کے پہلے عشرے میں ہی اس نے ریڈیائی لہروں پر لاسلکی پیغام رسانی کا کامیاب کارنامہ انجام دیا۔ علم دوست حضرات نے بہت جلد اس کامیابی کو مزید وسعت دی ۔ پہلے پہل اس کاوش کو نیٹ ورکنگ کی عدم موجود گی کی وجہ سے محدود پیمانے پر تدریسی معاونت کے طور پر کام میں لایا گیا۔ ۱۹۲۶ میں اسے خبررسانی کے ذریعے کے طور پر استعمال میں لایا گیا۔ اب مارکونی کی یہ ایجاد ریڈیو کے نام سے پہچانا جانے لگا۔
مشہورزمانہ میڈیا کمپنی بی بی سی نے پہلی دفعہ ریڈیو سے خبریں نشرکیں۔ جوں جوں وقت تندہی و سرعت کے ساتھ گزرنے لگا اور کئی کمروں پر مشتمل قوی ہیکل ریڈیو سمٹ کر کلائی گھڑی اور قلم کے ڈھکن تک میں سمٹ آیا۔ دنیا میں بہت تیزی سے منظور ومقبول ہوا۔ ہر کس و ناکس کی دسترس تک آپہنچا۔ خبروں اور تعلیم سے آگے بڑھ کر ریڈیو اپنے منافع و مقاصد سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانے لگا۔ ماہرین نے اس کے پروگراموں میں جدت اور وسعت پیدا کئے اور یوں یہ ارزاں، سہل اور دلچسپ ذریعہ ابلاغ دنیا کے کونے کونے تک پہنچ گیا۔
قیام پاکستان کے ساتھ ہی پاکستان میں سرکاری ریڈیو نے باقاعدہ کام کا آغاز کیا۔ قومی زبان کے علاوہ آج تک ریڈیو دس سے زیادہ علاقائی زبانوں کے اسٹیشنز سے بھی پروگرامز نشر کرتا ہے اور کل ملا کر ۲۳ سے زائد تسلیم شدہ زبانوں کے پروگرامز بھی مختلف سٹیشنوں سے نشر کرتا ہے۔ ٹیلی ویژن کی آمد تک ریڈیو ہی برقی ذرائع ابلاغ میں اپنی آواز کا جادو جگاتا رہا۔ تاہم ٹیلی ویژن نے انسانی سماعتوں کے ساتھ ساتھ نظروں پر بھی بہت جلد قابو کر لیا۔ ماہرین کے مطابق ٹی وی کے پروگراموں میں مناظر کی رنگینیوں نے متوجہ کرنے میں ریڈیو کی نسبت کئی گنا زیادہ تیزی کے ساتھ کامیابیاں سمیٹ لیں۔ یوں برقی ذرائع ابلاغ میں ریڈیو کو ثانوی درجے پر دھکیل دیا۔ تاہم ٹیلی ویژن کی نسبت ریڈیو کی چند منافع بخش ، غریب دوست اور کارگر خصوصیات کی وجہ سے اس کے استعمال اور اہمیت کو کسی طور ختم نہیں کرسکا۔ ریڈیو میں ٹیلی ویژن کی نسبت ترتیب، تدوین اور پیشکش کے مراحل بہت سہل اور کم وقت طلب ہونے کی وجہ سے اسے ٹیلی ویژن کی نسبت تیز ترین ذریعہ بھی تصورکیا جاتا ہے۔ بعض ناقدین کی رائے میں ریڈیو سننے والے ٹیلی ویژن دیکھنے والوں کی نسبت نشر شدہ مواد کو زیادہ دیرتک ذہن نشین رکھ سکتا ہے۔ ریڈیو ٹیلی ویژن کی نسبت سامع کو متوجہ رکھتا ہے اور ساتھ ساتھ اس کے تخیل کو جلابخشتا ہے۔ خیر ہمارا مقصد کسی بھی طور ان دونوں کا موزانہ کرکے کسی ایک کو کم یازیادہ اہم دکھانا نہیں ہے۔ ریڈیو پروگراموں نے جب شارٹ ویووز اور میڈیم وویوز کے بعد ایف ایم چینل متعارف کرایا تو ٹی وی کی نسبت یہ کم خرچ، کارگر اور وسیع لاسلکی ذریعہ گاڑیوں، موبائل فون اور ٹیلی ویژن کے اندر تک بھی سماگیا ۔
ریڈیو کے عالمی دن کے حوالے سے ہمیں اسلام آباد میں کسی نجی ایف ایم ریڈیو سنٹر کے دورے کا موقع ملا۔ جو کہ ہمیں اپنے ایک قلمی دوست، جو اب قلبی دوست بن چکے ہیں ، فداحسین کی وساطت سے میسرآیا۔ فداحسین تو خود ریڈیو کے شیدائی ہے ہی ، وہاں ہنزہ ، غذر اور دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والی باصلاحیت خواتین کو بھی اپنے کام میں مگن اور لگن میں بے پائیاں پایا۔ شومئی قسمت کہ ہم سنٹر کے روح رواں سے نہ مل پایا جس کا شوق ، لگن اور اپنے کام سے دیانتداری نہ صرف اس ادارے کو حاصل خاص سند سے نمائیاں تھی بلکہ ادارے کے نظام، انتظامی ڈھانچے اور جدید آلات سے بھی جھلک رہی تھی۔ لائیو شوز کا الگ، ریکارڈنگ کا الگ، موسیقی کے لئے الگ، تعلیم کے لئے الگ اور ٹیلی فونگ ریکارڈنگ یا اون لائن کال کی سہولت کے لئے الگ الگ سٹوڈیوز موجود تھے۔ ہر سٹوڈیو کا نظام پروگرام کی نوعیت کے اعتبار سے یکسر مختلف اور مکمل مزین تھا۔ پھر ایسے اداروں کی پیشکشیں کیوں نہ مقبول ہوں۔ یقین جانیئے کہ اس ادارے کے ہرہرفرد نے اس کی کامیابی میں بہت لگن سے کام کیا ہے جو ان کے چہروں پر سجی استقبالیہ مسکراہٹوں سے جھلک رہاتھا۔ ہم نے ریڈیو کی افادیت کے حوالے سے بظاہر چند باتیں کرنی تھی تاہم اس دوران ادارے کی ریکارڈ کی خاطر فوٹو گرافر نے دوران گفتگو تصویر بھی اتاری جو ریکارڈ کی اہمیت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
ہنزہ اورغذر سے تعلق رکھنے والی خواتین جو اپنے اپنے کام میں مگن تھیں ان سے مل کر فخر محسوس ہوا۔ البتہ فاطمہ اپنی صلاحیتوں کے حوالے سے لکھنے پڑھنے کی شوقین ہونے کا ذکر کر رہی تھی تاہم وقت کی کمی کی وجہ سے استفار مفصل طلب رہ گئی۔ ملک کے ہر چند ریڈیو سٹیشنوں خصوصا چند غیر سرکاری ایف ریڈیو سنٹرز میں جانے کا اتفاق ہوا ہے لیکن جتنا متاثر اس ادارے نے کیا وہ کسی اور نے نہیں۔ یہاں لفاظی سے قطع نظر آپ کی توجہ اس حقیقت کی جانب بھی مبذول کراوں کہ اس ادارے کی زیر نگرانی سکول نہ جاپانے والے بچوں، گھروں میں موجود توتلی عمر کی تتلیوں اور دکانوں یا بازاروں میں کام پر جانے والے چھوٹی عمر کے بڑے بچوں کی تدریس اور تربیت کے لئے کھیل کھیل میں پروگرامز پیش کئے جاتے ہیں اور انہیں اعلیٰ کارکردگی پر اول انعام سے بھی نوازا جاچکا ہے۔
ادارے کا سربراہ سرکاری ریڈیو کو خیرباد کہہ کر اپنا ریڈیو سنٹر قائم کرنے یقیناًاس لئے آئے تھے کہ ان کا خواب ریڈیو کو محض روزگار کر ذریعہ سمجھ کر گزارہ کرنا نہیں تھا اور اس بات سے بھی شاید وہ نفی نہ کرے کہ ان کی منشاء کے مطابق وہاں کام ہونا محال تھا ۔ خیر جس کا کام اسی کو ساجھے۔ دوران گفتگو یہ حقیقت بھی واضح ہوگئی کہ تدوین، ترتیب اورپیشکش کی الگ الگ اہمیت ہے ، کسی ایک ذہن سے ان تینوں کاکام بہت بہتر ہونا ممکن نہیں بہتر یہی ہے کہ ان میں سے ہرہر کام کے لئے الگ الگ مہارتوں، نفسیات اور اہلیت کے افراد موجود ہونے چاہیئے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں ایک ہی فرد رائٹر، ایڈیٹر اور پریزنٹر ہوتاہے۔ دوسری طرف ہر شعبے سے متعلق تکینکی مہارتوں کا فقدان اور پیشہ وارانہ تعلیم کی کمی بھی ریڈیو کو اپنے اوپر مرثیہ گوئی پرمجبور کردیتی ہے۔ اس سنٹر کے دورے کے بعد یہ حقیقت کھلی کہ ریڈیو عدم توجہی کی وجہ سے زبوں حالی کا شکار ہے وگرنہ اس شعبے میں وقت کے تقاضوں کے مطابق کام کرنے والے بھرپور منفعت حاصل کر رہے ہیں۔ ریڈیو پر بطور ملازم محض روزگارپر اکتفا کرکے اپنی زندگی بہتر گزارسکنے کے باوجود ایک فرد کی روایتی اور فرسودہ نظام سے بغاوت جہاں آج نہ صرف ریڈیو کی ساکھ بحال کر رہا ہے بلکہ سیاچن سے شمشال وچترال تک کے مردو زن کو روزگار کے مواقع فراہم کررہا ہے۔ حیرت ہوئی کہ ہم سے پہلے ہی حاجی ابراہیم ثنائی وزیر تعلیم گلگت بلتستان نے اس سنٹر کا تفصیلی دورہ کر لیا تھا اور انہوں نے اس کثیر المقاصد ریڈیو سنٹر کو گلگت بلتستان میں بھی متعارف کرانے کی یقین دہانی کرچکاتھا۔ اس صورت میں یقیناًگلگت بلتستان جیسے جغرافیائی طور پر ناقابل رسائی علاقے میں بھی ریڈیو دوبارہ اپنی سماعت بندی تازہ کرلے گا۔
یہاں موجود سرکاری ریڈیو سٹیشن کو اگر اسی خطوط پر استوار کرلیاگیا تو بعید نہیں کہ یہاں کے کثیرالصلاحیتہ فنکار، صداکار اور صحافی ریڈیو کے مطلوبہ مقاصد بحسن و خوبی حاصل کرپائیں گے۔ دوسری طرف زیادہ تر تفریحی پروگراموں پر انحصار کرنے والا واحد نجی ریڈیو چینل بھی دیگر شعبہ ہائے ابلاغ میں جدید تقاضوں کے مطابق پروگرام پیش کرکے اپنی مقبولیت میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں یقیناًفائدہ غریب عوام کو پہنچے گا جو جدید دور کی کیبل ٹی وی، اور ڈش انٹینا سے تادم تحریر نابلد ہیں ۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button