کالمز

حکومت کے ظالمانہ اقدامات

از قلم : وزیر نعمان علی

ریاستی اداروں کو ہمیشہ ریاست کے مفادات اور ریاست کی مضبوطی کیلئے اپنی توانائیاں بروئے کار لانی چاہئیے اور عوامی مفاد کیلئے کیا جانے والا کام ہی ریاست کی مضبوطی کا ضا من ہے۔ اگر عوام کو اپنے مفادات کا تحفظ ریاستی اداروں کی جانب سے یقینی ہو تو عوام کا بھی اعتماد ان اداروں پر بڑھ جاتا ہے۔ بہت سار ے معاملات ہیں جس پر آواز اٹھانا اپنی قومی ذمہ داری سمجھتا ہوں اور شاید خاموش رہوں تو اندر ایک گھٹن کا غبار میری بے چینی کا سبب بنا رہے گا۔ حکومت پاکستان کے سرکاری موقف کے تناظر میں گلگت بلتستان ایک متنازعہ علاقہ ہے اور یہ خطہ مسلہ کشمیر کا ایک اہم فریق ہے۔ مگر ہمیشہ سے حکومت پاکستان کے اقدامات اس خطے کے حوالے سے ایسے رہے ہیں جس سے ان کے سرکاری موقف بابت متنازعہ حیثیت سے بہت تضاد اس طرح رہا ہے کہ حکومت پاکستان متنازعہ خطہ کیلئے دیئے جانے والے خصوصی حقوق دینے سے قاصر ہے۔ جب مارشل لاء نافذ ہوا تو آزاد کشمیر کو استشنا قرار دیا گیا اور گلگت بلتستان کو زون ای قرار دے کر مارشل لائی قوانین اس خطے پر نافذ کر دیئے گئے ۔ چلیں یہ تو ما ضی کی باتیں ہیں اس کو نہیں چھیڑتیں۔۔۔ حال پہ بات کرتے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے قوانین کی زد پہ میرا خوش قسمت خطہ بھی آیاہوا ہے ۔ اس پلان پر عمل درآمد اگراس کی حقیقی روح کے مطابق کیا جائے تو ریاست کی مضبو طی کیلئے معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ مگر یہاں پر سب الٹا ہی کیوں ہو رہا ہے؟ شیڈول فور کی تلوار کو غلط استعما ل کیوں کیا جا رہا ہے؟سیاسی ، سماجی کارکن، صحافی اور طالب علموں پر اس شیڈول کا نفاذ کیا معنیٰ رکھتا ہے ؟گزشتہ دنوں کچھ افراد کی لیسٹ شیڈول فور کیلئے صوبائی حکومت کی طرف سے بنائے جانے کا انکشاف ہوا ہے جو عنقریب وزارت داخلہ کو ارسال کر دی جائیں گی۔ شیڈول فور کی لسٹ دیکھ کر بہت سارے لوگوں کے اوسان ہی خطا ہو گئے ۔ مجھے سخت حیرت ہوئی کہ صوبائی حکومت کی پالیسیاں کون مرتب کر رہا ہے۔ انکی پالیسیاں خطے میں پائیدار امن و امان کی بحالی کیلئے کم اور انارکی پھیلانے کیلئے زیادہ نظر آ رہی ہیں۔ نہ جانے کیوں ارباب اختیار پاگل پن پر اتر آئے ہیں ۔ اس باولے پن میں ہر راہ چلتے کو کاٹا جا رہا ہے۔

شیڈول فورتھ میں شامل کیئے گئے ان افراد کو کون انصاف دلائے گا۔ بہتر مستقبل کے خواہاں سیاسی ، سماجی کارکنوں ۔ صحافی و طالب علموں کو اس تکلیف دہ جالے سے کون نجات دلائے گا؟نہ جانے کیوں حکومتی ادارے اپنی انتقام کی آگ بجانے کیلئے ان لوگوں کو کیوں بے گناہ تنگ کر رہی ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا ، مگر عوام کے اند رجو طوفان اٹھ رہا ہے اس کی سمجھ سب کوآ رہی ہے۔ چوک چوراہوں،گلی کوچوں اور سوشل میڈیا میں رد عمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس سے یہی لگتا ہے کہ نوجوان نسل با شعور ہو چکی ہے۔ وہ شاید ان مظالم میں خا موش نہ رہے۔ مظالم کے خلاف ہتھیلی پہ اپنی جان رکھ کر ظلم کے اس پہاڑ سے سر ٹکرانے کو تر جیح دے گی ۔ کیونکہ ظلم کی موت اس کو للکا رنے سے ہے۔

گزشتہ دنوں گلگت کی ضلعی انتظامیہ کی سر پرستی میں سکوار کھاری میں ایک اور ظالمانہ قدم اٹھا یا گیا۔ غریب لوگوں نے اپنی جمع پونجی سے وہا ں زمینیں خریدی اور سر چھپانے کیلئے آشیانہ بنایا۔ مگر ان کو مسمار کر نے کیلئے انتظامیہ وہاں پہنچ گئی۔ حکومت بہت افسوسناک اقدامات پر اتر آئی ہے ۔ دیگر صوبوں میں حکومتیں غریبوں کو مفت گھر تعمیر کر کے ان کے ہاتھ میں چابی تھماتی ہے۔ مگر افسوس ہماری حکومت غریبوں کو اُن کو اپنی کمائی سے بنائے ہوئے گھروں سے بے دخل کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ بلا شک ایسے اقدامات عوام دشمن پالیسیوں کا حصہ ہیں۔

مسلم لیگ نواز جب گلگت بلتستان میں اپوزیشن میں ہوا کرتی تھی تب سے میرٹ کی بالادستی کا نعرہ لگاتی رہی ۔ مگر جیسے ہی مسلم لیگ کو گلگت بلتستا ن کی حکومت ملی تو میرٹ کی بالادستی کا تقریباََ جنازہ نکلتا ہوا نظر آرہا ہے۔ مختلف محکموں میں اپنوں کو نوازنے کی پالیسیاں جاری ہیں۔ اس کی ایک واضح مثال محکمہ صحت استور میں ہونے والی تقرریاں ہیں۔ ان تقرریوں نے تو استوری عوام کو حیرت ذدہ کر دیا۔ محکمہ صحت کی آسامیوں پر ہونے والی تعیناتیاں پنجاب کے بلدیاتی الیکشن کے نتائج سے مماثلت رکھتی ہیں۔ پارلیمانی سیکریٹری نے تمام نشستیں صرف اپنے ہی گاؤں کے نام کر دیں۔ یہاں پر دو قسم کے قانون نظر آئے ۔ گو ریکوٹ ہسپتال میں دو تین سال کے عر صے سے کام کرنیوالے ملازمین کو ترجیحی بنیادوں پرتعینات کر دیا گیا۔ جب کہ ڈسٹر کٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال عیدگاہ میں عرصہ دس سال سے کام کرنے والے غریب ملازمین کو روزگار کے حصول کی اس دوڑ سے باہر کر دیا گیا۔

اب ان غریبوں کی کون شنوائی کریگا؟ ان کے لئے زنجیر عدل کون ہلائے گا؟ جب ملازمین کی فہرستیں ہی وزیرا علیٰ ہاوس لا کر فائنل کر دی جائیں تو حکومت سے انصاف کی کیا توقع رکھیں۔

رنج کیا ۔۔ ؟ تیرے بگڑنے پہ تو حیر ت بھی نہیں
میں نے امکان سبھی پیش نظر رکھے تھے

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button