کالمز

یوم تحفظ جنگلی حیات اور جنگلات

تحریر: اسلم چلاسی

بڑے بزرگوں کا کہنا ہے کہ ایک زمانے میں جنگلات اور بلند و بالا پہاڑ انواع اقسام کے جنگلی حیات سےبھری رہتے تھے جس میں جنگلی بھیڑ، مارخور، بارہ سنگا اور ہرن کے علاوہ پہاڑی چیتا، ریچھ، شیر اور دیگر درجنوں اقسام کے چرند وپرندکی کثرت تھی۔ مگر وقت کے ساتھ جنگلات کے بے دریغ کٹائی اور اندھا دھند شکار سے نہ صرف ان جنگلی حیات کی تعداد میں کمی ہوئی ہے بلکہ بیشترجنگلی جانوروں کی نسل کشی ہو چکی ہے۔ ہمارے ہاں تو اس حوالے سے عوام بالکل نا بلد ہے کوئی روک تھام بھی نہیں ہے دن دھاڑے شکار ی شکار کرتے ہیں اور بڑے فخریہ انداز میں شکار کے احوال اس قدر دلچسپ انداز میں سناتے ہیں گویا اس کار خیر کی ترغیب دے رہے ہیں ۔ ایک شکاری شکار کر کے آتا ہے دوسرا شکاری فورًا اس کے پاس پہنچ کر جنگل کا سارا احوال معلوم کرتا ہے کہ فلاح پہاڑ کے دامن میں چھے جنگلی بھیڑ تھے جن میں سے دو میرے نشانے پر آئے چار بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے ان کا رخ جنوب کی طرف تھا شائد ان کا ٹھکانہ چوتھے پہاڑ کا تیسرا حصہ ہو سکتا ہے ان میں سے دو کالے رنگ کے تھے ایک تو اڑھائی سال کا تھا جس کے گردن پر تھوڑا سفیدی مائل نشان تھا مگر ایک لمے سینگ والا بھو را کلر کا اکڑابھیڑ تھا جس میں کم از کم دس کلو چربی اور ستر کلو گوشت یقینی ہے۔ اب پورا ایڈرس کے ساتھ نام نسل اور وزن کے مکمل معلومات لیکر مذکورہ جگہ پر بلکل انہی کی تلاش میں نکلتا ہے۔ خدا نخواستہ راستے میں جنگلی جانوروں کی کوئی اور ریوڑ کا سامنا ہوااور دوچار جانور ادھر گرا دی اس کا کوٹہ پورا ہو گیا تو واپسی کا رخ کرتا ہے اور بدقسمتی سے ساتھ میں ان جنگلی جانوروں کا بھی مکمل حساب کتاب رکھتا ہے جو اس سے بچ نکلنے میں کا میاب ہو گئے ہیں۔ اب وہ دوسروں کو بھی پورا احوال سناتا ہے جو اس سے خد سرزد ہوتا ہے اورساتھ میں پورا حلیہ اور تعداد ان سے بچنے والے جانوروں کا بھی بتا دیتا ہے اور پچھلے دفعہ دوسرے شکاری کا قصہ بھی پورا پورا سنا دیتا ہے کوئی اور شکاری پارٹی کسی اور جنگل اور پہاڑ کی کہانی سنا دیتی ہے۔ اس طرح ان شکاریوں کو جنگل اور پہاڑوں میں جتنے بھی جانور ہیں ان کی حلیہ اور تعداد بھی معلوم ہوتا ہے کس جنگل میں کس کھائے میں کتنے جنگلی حیات ہیں وہ دن کو کس چراگاہ کی طرف جاتے ہیں دن ڈھلتے کس طرف رخ کرتے ہیں اور کہاں کس ندی سے پانی پیتے ہیں شام کو کونسی جگہ کو جائے پناہ سمجھتے ہیں اور کس پہاڑی کے جنگلی جانور شکاری کے آہٹ سن کر کہاں جاینگے۔ یہ تمام معلومات ان لو گوں کو ازبر ہوتا ہے۔وہ آپس میں معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ کبھی دوچار شکاریوں کی ایک جماعت ہوتی ہے کبھی درجن بھر شکاری ایک ساتھ نکلتے ہیں اور پہاڑی یا جنگل کو گیھر لیتے ہیں اور اس قدر بیدردی سے شکار کرتے ہیں کہ ایک بھی جانور بچ نہیں پاتا، نر مادہ کا تمیز نہیں کرتے اور نہ ہی دودھ پلانے والے جانوروں پر کوئی رحم کرتے ہیں حتی کہ چند مہینوں کے چھوٹے چھوٹے جانوروں کا بھی شکار کرتے ہیں۔ گوشت نوش فرماتے ہیں۔ کھال میں بھوسہ بھر کے شو پیس کے طور پر بیٹھکوں کا زینت بنا دیتے ہیں یا اس سے بچھونہ بنا کر دیوان خانے کی فرش کو سجا دیتے ہیں ۔آج کل تو چیتے کے بچوں کو بھی معا فی نہیں ہے موسم بہار اور گرما کے درمیانی دنوں میں ٹولیوں کی شکل میں کئی جماعتیں چیتے کی بچوں کو پکڑنے کیلے جنگلات کا رخ کرتے ہیں جہاں چیتا سے ان کا سامنا ہوتا ہے شائید کوئی ایک ادھا اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہو جائے مگر اس طرح کی کامیابی کا اعلان عموماً نہیں ہوتا ہے بات کو پوشیدہ رکھتے ہیں کیو نکہ اس کو خریدنے والا ڈاون کنٹری میں لیے جاتا ہے اگر یہ بھید کھل گئی تو اس نایاب جانور کے ترسیل میں مشکلات پیدا ہوتے ہیں۔اس لیے شکاری پابند ہوتا ہے کہ کسی کو اس حوالے سے بلکل بھی خبر نہ ہو۔ البتہ ریچھ اور لومڑی کی تو خیر نہیں ہے ریچھ کے بچے پکڑے جانے کی خبریں آتی رہتی ہیں ان کے بولی لگانے کی اطلاعات بھی موصول ہوتے ہیں اگر بڑا ریچھ ہا تھ لگ گیا تو اس کی کھال اور چربی کے ساتھ کئی اعضاء مارکیٹ میں انتہائی غیر معمولی دام پر فروخت ہوتے ہیں ۔دوسری طرف لومڑی جیسے چالاک جانور بھی شکاریوں کے شر سے محفوظ نہیں ہے۔ اگر چہ یہ جانور بھی ریچھ کی طرح حرام ہے مگر اس کا دم اور کھال ساڑھے تین سے چار ہزار میں فروخت ہوتے ہیں اور ایک شکاری کنڈی کے زریعے مہینے میں دس سے پندرہ لومڑیوں کو با اسانی دبوچ لیتا ہے یہ کل ملا کہ چالیس سے پینتا لیس ہزار پر منتھ کا حساب بنتا ہے اس پر خرچہ بلکل بھی نہیں آتا ہے بس تھوڑا سا گوشت کا ٹکڑا کنڈی میں پھنسایا اور ویرانے میں رکھ دی تھوڑی دیر بعد گوشت سونگتی ہوئی لومڑی آکر جکڑ جاتی ہے اور اس قسم کے شکاری صرف لومڑی کے شکار پر اکتفا نہیں کرتے ہیں بلکہ سیزن کے لحا ظ سے پرندوں کا بھی شکار کرتے۔ بیس جون سے لیکر تیس جولائی تک یہ شکاری چکور کے بچوں کو اس وقت دھر لیتے ہیں جب وہ پیاس کی شتدت سے دریائے سندھ کا رخ کرتے ہیں۔ ہوتا یوں ہے کہ یہ پرندے قافلے کی شکل میں پانی کے تلاش میں جب نکلتے ہیں تو اپنے خو بصورت بولی میں اپنے موجودگی کا احساس دلاتے ہوئے پانی کی طرف پیشقدمی کرتے ہیں جس سے شکاری ان پرندوں کے تمام نقل و حرکت سے با خبر رہتا ہے اس موسم میں چکور اڑھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اسی سے فائدہ اٹھا کر گھات میں بیٹھا ہو ا ایک ایک شکاری دو دو درجن چکور کے بچوں کو پکڑتا ہے اور فی جوڑہ چار سے پانچ ہزار میں فروخت کرتا ہے یہ شکار تقریباً چالیس دن تک جاری رہتا ہے اور ہر قافلے میں ایک ہزار سے دو ہزار تک چکور ہوتے ہیں جن میں سے ستر فیصد پکڑے جاتے ہیں۔ دس فیصد روندے جاتے ہیں، دس فیصد پیاس تھکن یا زخمی ہونے کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ صرف دس فیصد جان بچا نے میں کا میاب ہوتے ہیں جو اگلے سال کیلے اپنا وجود بڑی مشکل سے برقرار رکھ سکتے ہیں۔ چو نکہ ان میں سے بھی بیشتر شکاریوں کے چھروں کا نشانہ بنتے ہیں۔

ایسی طرح پہا ڑی مرغ ،،جنگلی فاختے ،،مور،، مرغابی،، اور دیگر کئی قسم و نسل کے پرندے اسی طرح شکار ہوتے رہتے ہیں۔ ساتھ میں رہی سہی کسر جنگلات کے بے دریغ کٹائی نے پوری کردی ہے۔ چونکہ جنگلی حیات کا مسکن جنگل ہی ہوتا ہے جب جنگل ہی باقی نہ رہے توجنگلی حیات کیسے پھل پھول سکتے ہیں؟آج سے بیس سال قبل خصوصاً دیامر میں جو جنگلی حیات کثرت سے پائے جاتے تھے ان میں سے بیشتر کی نسل کشی ہو چکی ہے جس رفتار سے جنگل کا صفایا ہورہا ہے ٹھیک اسی رفتار سے جنگلی حیات بھی نا پید ہورہے ہیں جس کی بنیادی وجہ محکمہ جنگلات اور جنگلی حیات کے نام پر برائے نام ادارے محض مراعات کے حصولی تک کام کرتے رہے ہیں درست معنوں میں نیک نیتی سے اس قدرتی ماحول کی حفاظت کی جاتی تو یقیناًیہ نوبت نہیں آتا۔ آج جنگلات بھی موجود ہوتے اور جنگلی حیات کی نسل کشی بھی نہیں ہوتی۔ اس طرح علامتی طور پر چند لمحوں کیلے شعور اجاگر کرنے کے دعووں سے کچھ ہونے والا نہیں ہے۔ اس کیلے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ جنگلی حیات کیلے جنگل کا ہونا لازمی ہے اس لیے محکمہ جنگلات کو چا ہیے کہ جہاں قدرتی جنگلات ہیں وہاں پر سخت قوانین کا اطلاق کر کے ما فیاز کے خلاف کاروائی کریں خاص کر دیامر میں جنگلات کے قریب فارسٹ چک پوسٹ قائم کریں اور ایک مربوط نظام کے ساتھ سختی سے عملدرامد کریں جزاء و سزا کا کا اطلاق کریں اور ساتھ میں جنگلات کو اگانے کا سلسلہ بھی شروع کریں تو یقیناًاگلے بیس سالوں میں جنگلات اور جنگلی حیات بلکل محفوظ ہو جا ینگے۔

مجھے یقین ہے کہ موجودہ وزیر جنگلات جوکہ سابقہ وزیر جنگلات حاجی وکیل مرحوم کے چھوٹے بھائی ہے ٹھیک اپنے بھائی کے نقش قدم پر چل کر جنگلات کے تحفظ کو یقینی بناینگے اور ساتھ میں حاجی وکیل مرحوم کے اس عزم کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچا ینگے جو کہ انہوں نےاپنے رحلت سے قبل جنگلات فورس قائم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔خاص کر دیامر میں جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کیلے لوگوں کو شعور دینے کے ساتھ ساتھ مقامی تحفظ جنگلات کمیٹی کے ساتھ ملکر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ان ہی لوگوں کے تعاون سے مزید بہتر طریقے سے جنگلات اور جنگلی حیات کو تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button