کالمز

اے ٹی آر طیارے میں ایک اذیت ناک سفر۔۔۔شاید ہم نے کالے بکرے کا صدقہ نہیں دیا

گلگت سے اسلام آباد کے لئے قومی ائیر لائن(پی آئی اے) کی فلائٹ تھی۔ شیڈول کے مطابق صبح پونے نوبجے گلگت سے پروازکی روانگی تھی ۔ پی آئی اے قوانین کے تحت ہم نے جہازکی روانگی سے کم ازکم ایک گھنٹہ قبل ائیرپورٹ پر اپنی آمدکو یقینی بنانا تھا، تاہم ماضی کے ایک تلخ تجربے کو مدنظررکھتے ہوئے میں تو تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ پہلے ہی ائیرپورٹ پر حاضرہوچکا تھا۔

تجربہ کچھ یوں رہا تھا کہ گزشتہ برس کسی میٹنگ کے سلسلے میں اسلام آباد جانا تھا۔ فضائی سفرکے لئے ٹکٹ کے سلسلے میں پی آئی اے کال سنٹرپر رابطہ کرنے پر متعلقہ تاریخ کی سیٹ کی عدم دستیابی کو جواز بنایا گیا۔ جانا ضروری تھا اسی لئے کسی دوست کے مشورے پر کمیشن ایجنٹ کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ ادھر ادھر کرنے سے ایجنٹ کا نمبرہاتھ لگ گیا۔ نمبرملاکرمسئلہ بیان کرنے پر دوٹوک الفاظ میں جواب ملا ٹکٹ کا کوئی ایشونہیں بس آپ دوہزارروپے اضافی کمیشن کا بندوبست کرلیں۔ بہرحال دوہزارروپے کمیشن کے عوض کنفرم ٹکٹ لیکر صبح خوشی خوشی گھرسے ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہوا۔

ائیرپورٹ پہنچتے ہی بورڈنگ پاس کے لئے کاونٹرپر حاضر ہوا تو سامنے سے ایک صاحب نے جھاڑ پلانا شروع کردیا۔ بولے تمہیں پرواز کی روانگی سے ایک گھنٹہ قبل ائیرپورٹ پر حاضرہونا تھا جب کہ تم پندرہ منٹ کی تاخیرسے پہنچے ہو۔ وہ دیکھو اوپر گھڑی میں کیا ٹائم ہورہا ہے۔ میں نے تاخیر سے آمدپر صاحب سے معذرت کی تو جواب دیا اب معذرت کا کوئی فائدہ نہیں۔ تمہاری بکنگ کینسل کرکے سیٹ کسی اور کے نام کنفرم کردی گئی ہے۔ میں حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگا تو بولے جناب آپ یہاں سے سائیڈ ہوکرسکینڈ فلائٹ میں ٹرائی مارلیں۔ابھی کچھ نہیں ہوسکتایہی کھڑے ہوکر اپنا اور ہماراٹائم ضائع مت کیجئے۔

اسی اثناء ایک خاتون پریشانی کی حالت میں کاونٹرپر نمودارہوکربورڈنگ پاس کے لئے اپنا ٹکٹ آگے پیش کردیا۔ سامنے سے کاونٹرپر موجودصاحب نے خاتون کو بھی وہی مشورے دینا شروع کردیا جو چندلمحے قبل مجھے دئیے تھے۔ خاتون نے سیٹ کی منسوخی کی خبرسن کر فوراً رونا دھونا شروع کردیا کہ انہوں نے تو ہرحال میں آج اسلام آباد پہنچنا ہے۔ انہوں نے بھی میری طرح کاونٹرپر تعینات عملہ کی کسی حدتک منت سماجت کی مگر کسی کو بھی ان کی مجبوری کا احساس نہیں ہوا۔ یوں تھوڑی دیربعدپہلی پرواز روانگی کے لئے تیارہوئی اور میں اور وہ خاتون وہی کے وہی رہ گئے۔

جہاز کی روانگی کے بعد ہم دونوں پریشانی کے عالم میں سیکنڈ فلائٹ میں سیٹ حاصل کرنے کے چکروں میں ادھر ادھرپھرتے رہے۔ گھوم پھرکے بالآخر ائیرپورٹ منیجر کے دفترڈیرے ڈال دئیے اور سیکنڈ فلائٹ میں سیٹ کے حصول کے لئے ان کی منت سماجت شروع کردی۔ کافی دیرانتظارکے بعد بتایا گیا کہ سیکنڈ فلائٹ میں آپ دونوں کے لئے گنجائش ہوگی لیکن آپ لوگوں کو تین ہزارروپے اضافی اداکرنے ہونگے۔ ہمیں اسلام آباد جانا ازحد ضروری تھا تو بحالت مجبوری تین ہزارروپے کاونٹرپر اداکرکے سکینڈ فلائٹ کے لئے بورڈنگ پاس حاصل کرنے کے بعد تھوڑا سکون نصیب ہوا۔ روانگی کے لئے جہازکے اندرجانے کے بعدمعلوم ہوا کہ اسی فلائٹ میں آٹھ سیٹیں اب بھی خالی پڑی تھیں۔

یہ حال ہے ہماری قومی ائیرلائن کا۔ نعرہ ’ باکمال لوگ، لاجواب سروس ‘ کا اور کام ہمیشہ بے کمال اور نکمے لوگوں کا۔

پی آئی اے حکام کی اسی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہی اس بار میں پرواز روانگی سے ڈیڑھ گھنٹہ قبل ائیرپورٹ پر حاضر تھا۔ کاونٹر سے بورڈنگ پاس حاصل کرنے کے بعد انتظارگاہ میں بیٹھے تھے کہ تھوڑی میں اسلام آباد سے آنے والی پرواز لینڈ کرگئی۔ مسافراترکر ٹرمینل کی طرف روانہ ہوئے، پیچھے سے فلائٹ کا عملہ بھی باہر نکل آنے لگا۔ ہم اس انتظار میں تھے کہ شائد فلائٹ کا عملہ ایک کپ چائے پینے کے بعدجہاز لیکرواپس روانہ ہوگا ، اتنے میں مائیک پر اطلاع دی گئی کہ بینظیربھٹو انٹرنیشنل ائیرپورٹ 23مارچ کی تیاریوں کے سلسلے میں مصروف ہونے کے سبب گلگت سے اسلام آباد کی پرواز پی کے 608گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی ہے۔ انتظار اور تکلیف کے لئے مسافروں سے معذرت خواہ ہیں۔

واہ جی واہ۔۔ یہ رہی پی آئی اے کی لاجواب سروس جہاں ایک مسافر کے پندرہ منٹ دیرسے آنے کو جوازبناکر سیٹ کی منسوخی تو وہاں ایک کی فلائٹ سوا دوگھنٹے کی تاخیرپر درجنوں مسافروں سے صرف معذرت۔ اس کے علاوہ باکمال لوگوں کی لاجواب سروس میں اور کچھ نہیں۔ ائیرپورٹ پر طویل انتظارمیں بیٹھے مسافروں کے لئے نہ چائے پانی کا اہتمام نہ انٹرنٹ سروس کی فراہمی نہ انتظامیہ کی جانب سے شائستہ سلوک ۔

فلائٹ کی تاخیر سے تھوڑی بعد پتہ چلا کہ پائلٹ سمیت جہاز کا عملہ برف سے لطف اندوزہونے کے لئے سیاحتی مقام نلترکی جانب روانہ ہوا۔ آخرکار گیارہ بجے پرواز روانگی کے لئے تیا رہوئی ۔ تمام مسافراپنی اپنی سیٹوں پر براجماں ہوئے تو ہم بھی جہاز کے اندرداخل ہوگئے۔ جہاز کے داخلی دروازے سے ہی ہم نے خالی سیٹوں کی گنتی شروع کردی اور فرنٹ تک نظارہ کرنے پر معلوم ہوا کہ اس مرتبہ گیارہ سیٹیں خالی پڑی تھیں۔ جبکہ کئی مسافرٹکٹ کی کنفرمیشن نہ ہونے کے باعث ائیرپورٹ پر چانس پر سیٹ اویل کرنے کے چکروں میں دربدرکی ٹھوکریں کھانے پر مجبورتھے۔

سفرکی ابتداء میں ہی مسافروں کو سخت جھٹکے لگنا شروع ہوئے تو تسلی دینے کے لئے ہدایات دی گئیں کہ موسم کی خرابی اور جہازکے راستے بادل آنے سے مسافروں کو جھٹکے لگ رہے ہیں، براہ مہربانی حفاظتی بلٹ باندھ لیجئے۔ ادھے سفرتک پی آئی اے کی روایتی ریفریشمنٹ کا انتظارکیا مگرہرطرف خاموشی چھائی نظرآئی، پھر گھنٹی بجاپانی اور اخبارکی ڈیمانڈکردی۔ پانی تو مل گیا وہی ایک ہی قسم کا جو ہرجگہ دستیاب ہے مگر اخباروہ تھمادیا گیا جس کا وجودبھی عنقریب ختم ہونے کو ہے۔

میں نے ائیرہوسٹس سے اپنا پسندیدہ اخبارکی فرمائش کی توبتانے لگی سوری اس کے علاوہ اور کوئی اخباردستیاب نہیں۔ اللہ اللہ خیرسے جہازکے اسلام آباد کے حدودمیں داخل ہونے پر اطلاع دی گئی کہ ائیرپورٹ پر جہاز کی لینڈنگ کے لئے جگہ دستیاب نہیں لہذا ہمیں کچھ دیر ہوامیں ہی چکرکاٹنے ہونگے۔ آدھے گھنٹے سے زائد وقت اسلام آبادکا فضائی جائزہ لینے کے بعد ہم نے بخیروآفیت بینظیربھٹو انٹرنیشل ائیرپورٹ پر لینڈ کردیا تو دل کی دھڑکنیں آہستہ آہستہ کم ہونے لگیں۔

یہ حال ہے ہماری قومی ائیرلائن کا جس کا نعرہ مسافروں کو قلیل مدت میں سکون کی سفری سہولیات مہیا کرنا ہے جبکہ عملی طورپر مسافروں کو وہ ازیت دی جارہی ہے جس کاشاہراہ قراقرم پر سفرکے دوران بھی توقع نہیں کی جاسکتی۔

گلگت بلتستان کے مسافروں کے لئے پی آئی اے میں اس طرح کا ازیت ناک سفرکوئی نئی بات نہیں۔ یہ ازیت اس وقت سے ہی ہے جب سے اس علاقے کے لئے اے ٹی آر طیاروں کی سروس شروع کردی گئی ہے۔ اس ازیت سے غالباً ان علاقوں کے لوگ بھی گزرتے ہونگے جہاں کے لئے اے ٹی آرسروس چلائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ لوگ بھی اس ازیت ناک سفرسے گزرتے ہونگے جو سیزن میں سیروسیاحت کی ٖغرض سے گلگت بلتستان کا رخ کرلیتے ہیں۔ یہ سب خیربات ان لوگوں کی کرے جوبیمار ہیں ، ضعیف العمر ہیںیا ایمرجنسی میں ہیں۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کو اے ٹی آر کے ان کھٹارہ طیاروں سے نجات دلانے کے لئے صوبائی حکومت کی جانب سے کوئی اقدامات کئے گئے نہ ہی وفاقی حکومت نے اس مسئلے کے حل کے لئے کوئی سنجیدہ اقدامات اٹھائے۔ گلگت بلتستان کے لئے جدید ٖفضائی سروس کی فراہمی وفاقی سطح پر حکومت میں ہرآنے والی جماعت کا اولین نعرہ تو ہوتا ہے۔ لیکن اپنا مقصد حاصل ہونے کے بعدعوامی مسئلے کے حل کے لئے عملی اقدامات اٹھانے کے لئے کوئی تیارنہیں ہوتا۔

یہی نعرہ گلگت بلتستان کے گزشتہ انتخابات کے دوران پاکستان کے موجودہ وزیراعظم میاں محمدنواز شریف نے بھی لگایا تھا کہ ان کی جماعت گلگت ائیرپورٹ کو انٹرنیشنل ائیرپورٹ کا درجہ دیکر یہاں کے عوام کے لئے بہترین فضائی سہولیات فراہم کریگی ۔ مگر وہ دن آج کا دن ان کی مرکزی وصوبائی حکومتوں نے دوبارہ سے اس مسئلے کی جانب توجہ دینے کا گو ارہ تک نہیں کیا۔

گلگت بلتستان میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حکومتی وزراء اور خودوزیراعلیٰ زبانی طورپر اپنی تقریروں میںیہاں کے عوام کو پی آئی اے کے کمیشن ایجنڈوں سے نجات دلانے اور فضائی سروس میں بہتری لانے کا دعویٰ تو کرتے ہیں ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پی آئی اے کی جانب سے یہاں کے لئے پہلے سے چلانے والی پروازوں میں بھی کمی کردی گئی ہے اور ٹکٹ کنفرمیشن کے لئے غریبوں سے کمیشن کی وصولی کا دھندہ جوں کا توں ہے۔ نہ جانے کب گلگت کے عوام کو اے ٹی آر طیاروں سے چھٹکارہ حاصل ہوگا۔ تاہم عوام کی امید کی آخری کرن اب پاکستان آرمی اور حکومت چین سے وابسطہ ہوکررہ گئی ہے کہ شاید سی پیک کے تحت اس مسئلے کا کوئی مستقل حل نکالا جاسکے۔

ائیرپورٹ سے ہوٹل کی جانب چلتے چلتے یہ خیال بھی آیا کہ پی آئی اے کے اے ٹی آر طیارے میں اس قدرازیت ناک سفرکی ایک وجہ کہیں یہ تونہیں بنی کہ ہم نے ملتان کی طرح گلگت ائیرپورٹ پر روانگی سے قبل کالے بکرے کا صدقہ نہیں دیا تھا۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button