کالمز

میری ڈائری کے اوراق سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابا جی، ذین العابدین ، کی پہلی برسی

میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں
حادثہ کیا تھا جسے دل نے بھلایا بھی نہیں

انہوں نے مفارقت کا   وہ داغ دیا جو صدیوں تک تڑپاتا رہے گا ۔   زبان سے مرحوم  کا لفظ   دل پر بھاری معلوم ہوتا ہے  کیوں کہ کچھ لوگ    اپنی زندگی میں ایک ایسا سماجی  سرمایہ  بنا چکے ہوتے ہیں کہ بظاہر تو دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں لیکن بہ باطن لوگوں کے دلوں میں سدا زندہ رہتے ہیں  ۔     ابا جی تو ابا جی تھے،   رشتے  میں  میری والدہ کے بھائی  تھے  لیکن محبت  میں  ماں سے  بالشت آگے ۔  محبتوں کا یہ پیکر پچھلے سال اور  آج کے دن   یعنی  ۳۱ مارچ کو  ہم سے جدا ہوگئے ۔  مجھے ایسا محسوس ہوا کہ سب کچھ لٹ گیا ۔لیکن مرنے والے کے ساتھ آج تک کون مرا ہے ۔ ہفتے میں نہیں تو  دو ہفتوں میں  ہماری  ٹیلیلفنک  گفتگو ضرور ہوتی ۔ ٹیلی فون ہمیشہ  اُن کی طرف سے آتا ۔  خیریت دریافت کرنے کے بعد  کوئی نہ کوئی کام ضرور دیتے۔  کام بھی ایسے کہ  انہیں انجام دینے کے بعد ایک اخلاقی سبق  ضرور ملتا ۔

ایک  دفعہ گلگت  میں کرفیو نافذ ہوا تو  اُنہیں معلوم ہوا کہ  انٹر نشنل یونیورسٹی  گلگت  میں چترال کی بچیاں پھنسی ہوئی ہیں لہذا  انہوں نے مجھے فون کرتے ہوئے بتایا کہ   یونیورسٹی میں محصور طالبات کے لئے انہوں نے سرکار سے رابطہ کیا ہوا ہے اور سرکار ہر صورت میں اُن طالبات کی مدد کرے گی ۔ مجھے پانچ رابطہ نمبر وں کا اپنے پاس اندراج کا  حکم دیا ۔  میں نے اُن پانچ  رابطہ نمبروں کا اپنی ڈائری میں اندراج کیا ۔دوسرے لمحے  انہی  نمبروں سے مجھے فون موصول ہوئے ۔  جن میں سے ایک  گلگت بلتسان کے چیف سکٹری کے دفتر   کا تھا ۔  چیف کے آفس سے  مجھے یقین دہانی کرائی گئی کہ   یونیورسٹی میں بوجہ  کرفیو محصور  بچیوں کے لئے نہ صرف خوراک کا بندوبست کیا گیا ہے بلکہ  کرفیو طول پکڑنے کی صورت میں  اُن کے لئے ہیلی کوپٹر کا بندوبست بھی کیا جائے گا ۔  انہی  رابطہ نمبروں میں سے ایک نمبر سے مجھے فون موصول ہوا  اور یقین دہانی کی گئی کہ  طلبات کے انخلا کے لئے  بس کا بھی انتظام کیا گیا ہے ۔اس دوران  اباجی  مجھ سے بار بار کام کی تفصیل لیتے رہے ۔ اور یوں ہم ن تمام طالبات کو ہاسٹل سے  بہ حفاظت  نکال کر  چترال پہنچانے میں کامیاب ہوئے ۔  چترال پہنچنے کے بعد مجھے دوبارہ فون کرتے ہوئےفرمایا  کہ یہ بات   صیغہ اخفا ٔ   میں رہے ۔ میں نے سوچا کہ ابا جی  اس کہاوت کا عملی نمونہ پیش کر رہے ہیں کہ ’’ نیکی کر دریا میں ڈال ‘‘یہ گلگت میں  اُس تاریخی  کرفیو کی بات ہے جب  یہاں  ایک مہینہ  مسلسل  کرفیو رہا اور سیینکڑوں لوگ ہوٹلوں اور  ہاسٹلوں میں خوراک کی عدم دستیابی کی وجہ سے دم توڑ گئے تھے ۔

یہ راز   آج  تک  پوشیدہ رہا  لیکن آج نہیں معلوم  یہ بات نوک قلم پہ کیوں آگئی ؟ شاید اس کی وجہ آپ کی یاد یں ہیں جو مٹائے نہیں مٹتیں اور بھلائے نہیں بھولتیں   ۔ مجھے آپ کی جس ادا نے سب سے زیادہ  متاثر کیا  وہ  آپ کی فطرت سے محبت تھی ۔

ہم ایک مرتبہ ایک ساتھ اسکردو جارہے تھے  آپ کی معیت میں  میری رفیقہ حیات میرا بیٹا نئیر علی میری بیٹی تاشفین شمس  ، ٖ ظفر اللہ پرواز بونی  ، سردار حسین شاہ  اور راقم  شامل تھے ۔  اسکردو جاتے ہوئے راستے کے کنارے  اللہ تعالی کے صفاتی نام  ِ مبارک پتھروں پر کندہ ہیں  آپ اس سفر میں گلگت سے لیکر اسکردو تک اللہ کے  صفاتی ناموں کو پڑھتے اور   سبحان اللہ اور الحمد للہ  کا ورد کرتے  رہے ۔  جاتے جاتے ہم سے تاکیداً کہنے لگے کہ  رب کاینات کے ان ناموں کو پڑھو اور ان ناموں کے مفاہیم اپنی زندگی میں ڈھونڈنے کی کوشش کرو   اور خوب سوچو کہ رب نے ہمیں کتنی بے شمار ایسی  نعمتوں سے نوازا ہے جن کی اگر کوئی  دنیاوی قیمت لگائی جائے تو ہم انہیں خریدنے کے کبھی بھی متحمل ہوں گے ۔

مجھے یاد ہے یہ بات انہوں نے تب کہی تھی  جب راستے میں پڑنے والے ایک گاؤں’’ ہوشے‘‘ کے فلک بوس پہاڑی چوٹیوں کے دامن سے  پیوست گلیشر  سے صاف و شفاف پانی جوئے شیر کی مانند  امنڈتا ، اُچھلتا  اور پتھروں سے سر پٹختا  ہوا   دریائے سندھ میں ضم ہورہا تھا ۔

ابا جی! اللہ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے۔ آمین

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button