شیرجہان ساحلؔ
ڈینس او کیف شہر سینٹ جانز ( جوکہ نیوفاؤنڈلینڈاینڈ لیبرے ڈارصوبے کا دارلخلافہ ہے) کا میئر(Mayor) ہے ۔ ڈینس او کیف ۲۰۰۵ ء میں ڈپٹی میئراور ۲۰۰۸ ء کے میئر کے ضمنی الیکشن میں اور اس کے بعد ۲۰۱۳ء کے میئر کے جنرل الیکشن میں سٹی کونسل کے میئر منتخب ہوئے اور اب تک آفس میں بطور میئر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ ڈینس او کیف دوسری بار عہدہ سنبھالنے کے بعد یعنی ۲۰۱۳ء میں میئر کے ایڈوائزی کمیٹی کے لئے ایک منصوبہ تجویز کیا جس کا مقصد جرائم میں کمی لانے کیلئے اقدامات کرنا تھا۔ اور یہ تجویز سٹی کونسل کے اجلاس میں زیر بحث لایا گیا۔ واضح رہے کہ منعظم معاشرون میں سٹی پولیس سٹی میئر کو جواب دہ ہوتا ہے اور پولیس کارکردگی رپورٹ سے لیکر شہریون کے جان و مال کے تحفظ کا جائزے تک سٹی پولیس سے سٹی میئر ہی واضاحت طلب کر سکتا ہے مگر یہ صرف مملکت خداداد ، قلعہ اسلام، شہدون کے لہو سے معرض وجود میں لایا گیا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہی ممکن ہے کہ جہان ایک ایس ایچ او بھی غفلت کا مرتکب ہو تو ملک کے وزیر عظم یا پھر صوبے کے وزیر اعلی کو نوٹس لینا پڑتا ہے کیونکہ یہان سیاست صرف کرسی اور پاور کے لئے کیا جاتا ہے مگر مغرب کے کافر ملکوں میں سیاست کا مقصد منعظم معاشرے کی تشکیل ہے۔ موضوع کی طرف آتے ہیں، اجلاس کے بعد شیلاغ او لیری (Sheilagh O’Leary) جوکہ ۲۰۱۳ ء کے الیکشن میں حصہ لی تھی اور 41.66% ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر تھی، نے یہ محسوس کیا کہ میئر کی تجویز کردہ پلان جوناتھن گیلگے (Jonathan Galgay) ” جوکہ سٹی کونسل کا ایک امیدوارہے” کے پلان سے مماثلت رکھتا ہے اور یہ ممکن ہے کہ میئر ڈینس او کیف سیاسی موقع پرست بن کر جوناتھن کے پلان کو اپنابناکر کمیٹی کے سپرد کیا ہوخاتون ممبر او لیری نے دلیل دی کہ یہ پلان شہر کے مفاد میں ہے اور میں اس کمیٹی کو سپورٹ کرونگی مگر شرط یہ ہے کہ جوناتھن کو یہ کریڈٹ دینا چائیے کیونکہ یہ اسی کا پلان ہے۔ اس کے بعد یہ معاملہ اخبارات تک پہنچ گیا اس پر ٹاک شوز ہوئے آرٹیکلز لکھے گئے اور میئر ڈینس او کیف کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
انجام کیا ہوا یہ ہمارا ایشو نہیں ہے مگر ایسے واقعات کو ہمارے معاشرے معاشرے کی تناظر سے اگر جائے تو دل خو ن کے آنسو رونے پر مجبور ہوتاہے۔ کیونکہ پچھلے دنون جب چترال کے لئے پی۔ٹی۔سی۔ایل فائبر آپٹک سروس کا افتتاح پشاور میں کیا گیا۔ افتتاحی تقریب پی۔ٹی۔سی۔ایل ہاؤس پشاور میں منعقد ہوا جس میں چترال سے تعلق رکھنے والا سابق تحصل ناظم اور معروف سوشل ورکر جناب سرتاج آحمد خان ،پی۔ٹی۔سی۔ایل کے جنرل منیجرنیٹ ورک جناب سید خلیل خان اور سینئر منیجراپریشن نیٹ ورک جناب سراج آفریدی وغیرہ شامل تھے۔ فائبر آپٹک کے افتتاح کے بعد چترال میں انٹرنیٹ کی سپیڈ بہتر ہوگی اور جدید علم کی میں درپیش ایک بڑی روکاوٹ ضرور دور ہوگی اور یہ چترال کے تمام افراد اور بلخصوص علم دوست طبقے کے لئے ایک بہت ہی اچھی خبر ہے ۔
اس کے بعد چترال کے اخبارات میں یہ خبر چھپی سرتاج احمد خان نے پی ۔ٹی۔سی۔ ایل کے آفیشلز کے ساتھ ملکر چترال کے لئے فائبر آپٹک کا افتتاح کردیا تو دوسری طرف ایم ۔این۔اے چترال جناب افتخارالدین صاحب کی جانب سے یہ بیاں سامنے آیا کہ وہ ایگزیکٹیو وائس پریزڈنٹ پی۔ٹی۔سی۔ایل جناب شاہد محمود کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ وہ ایک مہینہ پہلے یعنی ۲۴ فروری ۲۰۱۷ ء کو ٹیلیفون کرکے چترال اور دروش میں پی۔ٹی۔سی۔ایل براڈبینڈ اور فائبرآپٹک سروس کا آغاز کر دیا جس کے لئے میں اپنی اور چترال کے عوام کی طرف سے موصوف کا شکریہ ادا کرتا ہوں وغیرہ وغیرہ۔
اب سوال یہ ہے کہ ایم۔این۔اے صاحب اگر ۲۴ فروری کو ہی افتتاح کیا گیا اور آپ کو انفارم بھی کیا گیا تو یہ آپ پر لازم تھا کہ آپ اس دن متعلقہ لوگون کا شکریہ ادا کرتے اور اپنی موجودگی میں ہی افتتاحی تقریب منعقد کرتے ۔ یہ آپ کو زیب بھی دیتا اور تضادات سے بھی بچ جاتے۔اور جب ۲۴ فروری کو انجام پذیر ہونے والے کام کا ۱۴ مارچ کو شکریہ کیا جائے تو یہ کھلا تضاد کی زمرے میں آتا ہے۔ اور اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایم۔این ۔اے صاحب سیاسی موقع پرستی کا مرتکب ہوچکے ہیں۔ مگر کیا کہا جائے اس معاشرے کا یہاں تو اخلاقیات کوئی معنی نہیں رکھتے ۔ ایک تو وہ کافر معاشرے ہیں جہان کسی سے معمولی غلطی سرزد ہو تو اس کے خلاف آواز اٹھائی جاتی ہے مانا کہ وہ کافر ہیں مگر اخلاقیات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔ اور دوسری طرف ہم مسلمان ہیں اور اس ہستی کے پیروکار ہیں جو اخلاق کے اعلی مرتبے پر فائز تھے اور کافر بھی اس کے اخلاق کی مثال پیش کیا کرتے تھے مگر ہم امت !!! ۔۔۔ ہم صرف نام کے مسلمان ہیں اور آئے روز ہم کتنے ناحق کام کرتے ہیں کوئی نکتہ چینی نہیں ہوتا۔ اور ایسے معاشرے میں ایم۔این۔اے صاحب کو اس کے رفقاء کی طرف سے داد ملنا کوئی حیرت کی بات نہیں۔ یہاں دیکھتے ہی دیکھتے کتنے مظلومون کی دنیا اجاڑ دی جاتی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا تو ایم۔این۔اے کی اس معمولی نہایت ہی معمولی حق تلافی پر کون آواز اٹھاتا ہے۔ کیونکہ ہمارے لئے سیاسی موقع پرستی کوئی معنی نہیں رکھتا۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button