وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے گذشتہ دنوں اپنے ایک خطاب میں بجا طور پر کہا تھا کہ گلگت بلتستان میں خواتین کے تشدد کو روکنے کے لئے قانون سازی کی جائے گی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کو اس مسلے کی سنگینی کا اندازہ ہو چکا ہے کہ ہمارے معاشرے کی آدھی آبادی پر مشتمل یہ طبقہ کس نوعیت کے مظالم کا شکار ہے۔ہمارے پاس ایسے بے شمار شواہد ہیں جن کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اب خواتین کے تشدد کے مسلے کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے ۔
حالیہ دنوں ایک مظلوم خاتون گلگت بلتستان کے ایک دور دراز علاقے سے پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کے گلگت میں واقع دفتر آئی تھی ۔ پچاس سال کے لگ بھگ عمر والی اس خاتون کو اس کے دوسرے شوہر نے طلاق دی تھی ۔ اس خاتون نے روتے ہوئے اپنی کہانی سنا دی۔ انہوں نے کہا کہ” میں اپنے پہلے شوہر سے طلاق لینے کے بعد باپ کے گھر میں تھی اس دوران ایک بڑی عمر والے شخص کا میرے لئے رشتہ آیا جن کی پہلی بیوی وفات پا چکی تھی۔مجھ یہ بتا یا گیا کہ ان کی پہلی بیوی سے دو بچے ہیں۔ میرے گھر والوں نے اس شخص سے میری شادی کرادی۔ شادی کے بعد پتا چلا کہ اس شخص کی پہلی بیوی سے آٹھ بچے ہیں۔ میں نے وہ جھوٹ قبول کیا اور پندرہ سالوں تک ان کے بچوں کو پالتی رہی۔ اس دوران میری اپنی بھی تین بچیاں پیدا ہوگئیں۔میں نے اپنی بچیوں کے ساتھ شوہر کی پچھلی بیوی کے آٹھ بچو ں کو بھی سنھبالا ۔ جب میرے شوہر کی پہلی بیوی کے بیٹے جوان ہوگئے تو انہوں نے مجھ پر بہانے بہانے سے جسمانی تشدد کرنا شروع کیا۔ یہ سلسلہ کٗی سالوں تک چلتا رہا یہاں تک کہ ان لڑکوں نے اپنے باپ کو دھمکی دی کہ وہ مجھ طلاق دے دیں۔ میرا شوہر بوڈھا تھا اور اپنے ظالم بیٹوں کے آگے بے بس تھا ۔ ان کے ظالم بیٹوں نے مجھ کچھ بتائے بغیر میر ے گاوں کی گاڈی میں مجھ بیٹھا کر میرے بھائیوں کے گھر پہنچا دیا اور وہاں پیغام بیج دیا کہ مجھ میر ے شوہر نے طلاق دی ہے۔ بعد میں گاؤں میں جرگہ بیٹھا تو میرے بھائیوں نے نام نہاد غیرت کے نام پر مجھ جر گہ کے سامنے جانے نہیں دیا جس کی وجہ سے جر گہ نے بھی طلاق کو برقرار رکھا اور میری تینوں معصوم بیٹیاں بھی مجھ نہیں دی گئیں۔ میری مصیبت یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ اب میرے بھائے مجھ نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں طلاق یافتہ ہونے کی وجہ سے میں قابل نفرت ہوں ۔ یہاں تک کہ میرے بھائیوں نے مجھ کہا کہ تم طلاق یافتہ ہو ، ایسے جینے سے مرنا بہتر ہے اس لئے تم خود کشی کرلو۔ میں بھائیوں کے اس رویے سے تنگ آکر کسی رشتہ دار کے گھر پناہ لینے پر مجبو ر ہوئی اور اب تک میں ایک رشتہ دار کے گھر میں پناہ لے کر بیٹھی ہوں۔ میں خوشی سے خود کشی کرتی مگر مجھ میری بیٹیوں پر ترس آ تا ہے ۔ وہ ظالم لوگ میری بیٹیوں کوقتل کریں گے ۔میں ان کو سنھبالنا چاہتی ہوں، کوئی مجھ میری بیٹیا ں دلا دے تو میں محنت کر کے ان کو پڑھا ونگی۔ میں ہر فورم پر گئی ہوں میری شنوائی نہیں ہوئی ۔ قانونی جنگ لڑنے کے لئے میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ میں نے سپریم اپیلٹ کورٹ گلگت بلتستان میں از خود نوٹس کے لئے درخواست دی ہے جو کہ دو ہفتوں سے زیر التوا ہے” ۔
یہ صرف ایک خاتون کی کہانی ہے ہمارے معاشرے میں ایسی ہزاروں کہانیاں ہیں۔ایسی کہانیوں میں خاتون بے بس، لاچار اور مجبور ہوتی ہے نہ وہ پوری طرح مر چکی ہوتی ہے اور نہ وہ پوری طرح زندہ ہوتی ہے۔ان مظلوم اور بے بس خواتین کی حقوق کی جب بھی بات کرو تو کہا جاتا ہے کہ یہ ہمارے معاشرے کا اہم مسلہ نہیں ہے ۔ عورتوں کے حقوق کی بات کرنا مغرب کا ایجنڈا ہے۔ ہمیں آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ عورت پر ظلم کرنا مشرق کی یا ہمارے مذہب کی کونسی خدمت ہے؟۔
اعدادوشمار کے مطابق گلگت بلتستان میں ۲۰۱۵ ء کے ایک سال میں پچاس کے قریب مرد وخواتین معمولی نوعیت کے معاملات میں غیرت کے نام پر قتل ہوئے ہیں جن میں اکثریت خواتین کی ہے۔ ۲۰۱۶ ء میں بھی اعدادوشما ر اس سے مختلف نہیں ہیں۔ سالانہ دس سے بیس خودکشیاں ہوتی ہیں جن میں اکثریت خواتین کی ہوتی ہے۔ ان واقعات کے پیچھے گھریلو تشدد کے عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔ہمارے ہاں گھریلوجھگڑوں اور تشدد کے بے شمار واقعات روزانہ کی بنیاد پر پیش آتے ہیں جن کا ڈیٹا رکھنے والا کوئی ادارہ نہیں ہے اور لوگ نام نہاد گھریلو عزت کے نام پر ایسے واقعات پولیس کے نوٹس میں بھی نہیں لاتے ہیں ۔ حالانکہ اس مقصد کے خواتین پولیس اسٹیشن بھی بنے ہوئے ہیں ۔اسی طرح تشدد کے ان واقعات کی وجہ سے طلاق اور خلع کے رجحان میں بھی تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔خواتین پر تشدد کے اس بڑھتے ہوئے رجحان سے بجائے کسی بہتری کے نئی نسل کی گھر یلو اور معاشرتی زندگی پر بھی انتہائی مضر اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ گذشتہ سال پنچا ب اسمبلی میں جب خواتین کے تشدد کے خلاف قانون منظور کیا گیا تو اس کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور یہ کہا گیا کہ اس بل کی وجہ سے گھر کا نظام ٹوٹ جائے گا۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ گھر کا نظام افراد خانہ کے باہمی احترام کے ختم ہونے اور تشدد کو فروغ ملنے سے ٹوٹ جاتا ہے۔ گھریلو جھگڑوں اورتشدد کو روکنے سے گھر کا نظام تو زیادہ بہتر ہوسکتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ گلگت بلتستان میں اس مسلے کی طرف تو جہ دی جائے ۔ اس ضمن میں علماء ، صحافی، شعراء، اساتذہ ، سول سوسائٹی اور حکومت کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔مگر حکومت کی زمہ داری ان سب سے زیادہ ہے ۔ ایک خاتون گھریلو تشدد، نام نہاد غیرت اور اہل خانہ کے ظلم و بر بریت کی وجہ سے اتنی بے بس ہو کہ اس کو خود کشی کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہ آئے تو اس کو پناہ اور تحفظ دینا حکومت ہی کی زمہ داری بنتی ہے ۔ یہ کام کوئی سول سوسائٹی کا ادارہ یا فرد نہیں کر سکتا۔ پچھلے سال ایک ایسی مظلوم لڑکی کو گلگت کی ایک سماجی کارکن خاتون نے پنا ہ دی تھی اس دوران ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے اس سماجی کارکن خاتون پر الزام لگا یا گیا کہ اس نے لڑکی کو اکسایا تھا۔یہی وجہ ہے کہ سماجی کارکن اب ایسے معاملات میں دلچسپی نہیں لیتے ہیں ۔لہذا اب یہ کام حکومت کو ہی کرنا پڑے گا۔ خواتین پولیس تھانوں میں اچھے کردار کی حامل خواتین پولیس تعینات کرنے کی ضرورت ہے اور ان تھانوں کا ماحول اتنا محفوظ ہو کہ ایک عام خاتون اپنا مسلہ لیکر وہاں جا سکے۔ کیونکہ یہ بات دیکھی گئی ہے کہ تھانوں میں تعینات خواتین عملہ اکثر اوقات مظلوم کی مدد کے حوالے سے قانون کے بنیادی فلسفے سے نابلد ہوتی ہیں اور و ہ مظلوم کا ساتھ دینے کی بجائے ملزمان کا ساتھ دیتی ہیں جس کی وجہ سے عام خواتین ان سے اچھے کی امید رکھنے کی بجا ئے ان سے خوف زدہ ہوتی ہیں۔ جو خواتین پولیس اچھی سوچ بوجھ رکھتی ہیں وہ بھی سماجی دباؤ کا شکار ہو جاتی ہیں اور اکثر قانونی تقاضوں کو پورے کئے بغیر مقدمے سے جان چھڑانے کی کوشش کرتی ہیں۔
ایسی خواتین جو گھر سے نکلنے سے بھی قاصر ہیں اور جن کے پاس قانونی چارہ جوئی کے لئے پیسے نہیں ہوتے ہیں ان کے لئے ہیلپ لائین بنائی جاسکتی ہے۔ شیلٹر ہوم کا قیام عمل میں لائے بغیر ان خواتین کو تحفظ نہیں دیا جا سکتا جو گھروں سے بے دخل کی جاتی ہیں یا جن کا کسی وجہ سے گھروں میں رہنا محال ہو جاتا ہے نتیجے کے طور پر وہ خودکشی کر جاتی ہیں۔ اکثر ایسے مقدمات دیکھے گئے ہیں جن میں عدالت کو مجبورا ایسی خواتین کو تحفظ دینے کی غرض سے ان کو تھانہ یا جیل بیج دیا جاتا ہے جن کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں جائیداد سے خواتین کو محروم رکھنا ایک عام سی بات سمجھی جاتی ہے ۔ بعض اوقات خواتین کو محض جائیداد سے محروم رکھنے کے لئے نام نہاد غیرت کے نام پر قتل یا زبردستی شادی کرادی جاتی ہے۔جو خواتین جائیداد سے بھی محروم ہوں اور ان کو گھر سے بھی بے دخل کیا جائے تو وہ اتنی بے بس ہو جاتی ہیں کہ ان کو یا تو ساری زندگی ظلم کی چکی میں پسنا ہوتا ہے یا خودکشی کرنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے پاس تیسرا راستہ نہیں ہوتا۔اس حوالے سے پنچاب اسمبلی میں پیش کئے گئے قانون میں بہت اچھے اقدامات تجویز کئے گئے ہیں ۔حکومت چاہے تو اس قانون میں متنازعہ امور کو نکال کر باقی قانونی مسودے کو ہمارے ماحول کے مطابق ضروری ترامیم کے بعد گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی سے منظور کرایاجاسکتا ہے ۔ورنہ اس کے علاوہ اس اہم سماجی مسلے کا پائیدار حل ممکن نہیں ہے۔ وزیر اعلیٰ کی طرف سے خواتین کے حقوق کے لئے اقدامات کے عزم کا اظہار خوش آئند ہے۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button