تحریر: فیض اللہ فراق
ماں جس کی مامتا اپنائیت خلوص اور چاہت سے بهر پور ہوتی ہے.کائنات کے لاکهوں رنگوں میں "ماں” کا رنگ جدا منفرد اور دل نشین ہوتا ہے .ماں وہ ذائقہ ہے جس کے بعد کائنات کی ساری لذتیں خود بخود دم توڑ جاتی ہیں.ماں کے بغیر گهر قبرستان جبکہ ماں کی موجودگی زندگی کا احساس دلاتی ہے.ماں نہ ہو تو ویرانیاں اداسیاں اور تنہائیاں درو دیوار کو چاٹتی ہیں اور ماں ہو تو خوشیاں شادابیاں اور اور آبادیاں اپنے وجود کا سایہ ظاہر کرتی ہیں. سچائیوں کا مینارہ ماں ہوتی ہے اور دنیا میں حقیقی محبت کا عملی مظہر بهی ماں کا انمٹ رشتہ ہے جس کے باطن میں صرف خالص محبت’ بناوٹوں سے عاری خلوص اور چاہتوں سے بهرے گیت ہوتے ہیں ان مدهر گیتوں کے پس منظر میں اولاد کیلئے تڑپ’ بے چینی ‘ بے قراری اور وارفتگی کا عملی اظہار بهی کبهی کبهی دیکهنے کو بهی ملتا ہے. ایک ماں کیلئے دنیا میں اولاد سے بڑی اور قیمتی شے نہیں ہوتی ہے. اولاد ماں کیلئے کل کائنات اور زندگی کا مکمل اثاثہ ہوتا ہے. ماں اولاد کیلئے کسی بهی قربانی سے دریغ نہیں کرتی ‘ ماں کے نزدیک اولاد سے زندگی میں روشنی ‘ دنیا کی رونقیں اور عمر بهر کا سکهہ وابستہ ہے.ماں وہ ہستی ہے جس کی حرمت دنیا کے تمام مزاہب میں موجود ہے جس کا احترام انسان تو دور کی بات جانور بهی کرتے ہیں. کبهی پرندوں کو گهونسلا بناتے ہوئے دیکها ہوگا پرندے اپنے بچوں سے اس قدر پیار کا اظہار کرتے ہیں کہ جب تیز آندھی یا طوفان آجائے تو اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر بچوں کو پروں میں تهام لیتے ہیں گهونسلا تیز ہوا میں بٹ جاتا ہے مگر پرندے بچوں کو اپنے وجود کی خوشبو میں سمیٹنے میں مصروف رہتے ہیں خود تو درخت سے کٹ جاتے ہیں لیکن بچوں کو محفوظ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چهوڑتے اس عمل سے پرندوں کی مامتا کا پتہ لگتا ہے یا جب کوئی انسان پرندوں کے گهونسلا کے پاس جاتا ہے تو پرندے بچوں کو پروں میں تهام کر چیخ و پکار کرتے ہیں انسان تو اشرف المخلوقات ہے جو کائنات کے تمام مخلوق سے افضل جس کے پاس عقل سلیم بهی ہے سوچ بهی عمل و کردار بهی ہے آسمانی کتاب بهی۔ اور ہم مسلمان بهی ہیں ۔
اسلام میں ماں کی ایک خاص اہمیت اور فضیلت ہے اسلام کے نزدیک ماں کے قدموں تلے جنت ہے ‘ ماں کے چهاوں میں آسودگی ہے اور ماں سے دوری برخلاف اسلام ہے۔
مگر افسوس ہم ہر سال 13 مئی کو ماں کا دن تو مناتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے ہیں کہ کتنی مائیں اس ملک میں سسک سسک کر دم توڑ رہی ہیں’ کتنی ماوں کے گود اجاڑے جا رہے ہیں اور کتنی مائیں اپنے بیٹوں کے گهر میں بهی گهٹ گهٹ کر تنہائی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں’ وہ مائیں جو راتوں کی نیندیں’ دن کا سکهہ اور چین قربان کر کے ہم جیسے گندگی کے ڈهیر انسانوں کو صاف اور سجا کر رکهتی تهیں وہ مائیں جو اپنے زیور بیچ کر ہمیں تعلیم دلواتی رہیں آج کیوں وہ بیٹوں کی نظروں سے اوجھل ہیں؟ کیوں ایک اجنبی لڑکی ان پر حکم چلاتی ہے؟ کیوں بیٹوں کے پیار سے محروم ہیں؟
ہم مشرقی قوم دن بڑے مناتے ہیں لیکن عمل و کردار کی دنیا میں ہم صفر ہیں..آج کا دن ہمیں درس دیتا ہے کہ ہمیں اپنی ماں کے سامنے اس طرح پیش آئیں جس طرح اسلام نے ہمیں بتایا ہے. اگر ہم اپنی ماوں کو سکهہ نہ دے سکیں تو دکهہ دینے کا بهی ہمیں حق حاصل نہیں ہے.
دنیا کی تیز دهوپ میں سایا نہیں رہا
ماں تیرے بعد کوئی سہارا نہیں رہا
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button