کالمز

شاہراہ ریشم سے سی پیک تک

اب ہم شاہراہ قراقرم سے بہت آگے نکل چکے ہیں اور اب سلک روٹ ون روڈ ون یبلٹ تک بات پہنچ گئی ہے۔ موجودہ شاہراہ قراقرم جسے شاہراہ ریشم بھی کہا جاتا ہے کیا واقعی یہی اصل شاہراہ ریشم ہے؟ جی نہیں یہ اصل شاہراہ ریشم نہیں۔ چلیں ماضی کی طرف جھانکتے ہیں اور اسے جھانکے بغیر سلک روٹ ون روڈ ون یبلٹ کو سمجھنا نہ صرف محال ہے بلکہ لا حاصل ہے۔ سلک روٹ کی اصطلاح سب سے پہلے جرمنی کے جغرافیہ دان فرڈی نندوانریکتھوفن نے۱ٹھارہ ہ سو ستتر میں استعمال کیا ۔ چین سے تجارتی راستے تاجکستان کے راستے سے ایران اور عرب دنیا کی طرف جانے والے راستوں کو کہا جاتا ہے ۔ اور اسی راستے پر مارکو پولو نے سفر کیا اور شائد اس نے بھی اس تجارتی راستے کو سلک روٹ کے لفظ سے ہی یاد کیا ہے اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت چین کی سب سے بڑی برآمد وہاں کا ریشم تھا اور اسی تجارت نےچین ،مصر،میسوپوٹیمیا(عراق)فارس (ایران)برصغیر اور روم کی تہزیبوں کی نشوونما میں اہم کردار ادا کیا اور جدید دنیا کی بنیاد رکھی ۔ان ملکوں کے درمیاں تجارت کے ان ہی راستوں کو سلک روٹ کا نام دیا گی۔ یہ بات ذہن نشین کرنے والی ہے کہ گلگت بلتستان کے جس راستے پر شاہراہ قراقرم بنائی گئی ہے یہ بھی اسی سلک روٹ کا حصہ ہے اسی لئے کبھی کبھار اسے شاہرہ ریشم کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ یہاں یہ بھی ذکرکرنا مناسب معلوم ہوگا کہ موجودہ شاہرہ قراقرم پرانے وقتوں کے شاہراہ قراقرم یا شاہراہ ریشم سے بہت مختلف ہے پہلے وقتوں میں یہ شاہراہ ہنزہ سے ہوتے ہوئے ہسپر گلیشئیر نگر سے گزرتی تھی اور اسی راستے تجارت ہوا کرتی تھی۔ بحر الحا ل جس راستے پر شاہراہِ قراقرم بنائی گئی ہے، یہ بھی ایک تجارتی راستہ رہا ہے، لیکن اصل اور بڑی شاہراہِ ریشم وہی والی ہے جس پہ مارکو پولو نے سفر کیا تھا۔اس قدیم تجارتی شاہراہ کی کئی شاخیں تھیں۔ شمالی چین کے تجارتی مراکز سے مغرب کی سمت جاتے ہوئے روایتی سلک روڈ سطح مرتفع تبت کو نظرانداز کرتا ہوا شمالی اور جنوبی راستوں میں تقسیم ہوجاتا تھا ،شمالی راستہ چین کے صوبے گانسو سے گزرتا تھا اور مزید تیں راستوں میں تقسیم ہوجاتا تھا اور یہ تمام راستے وادی فرغانہ میں باہم مل جاتے تھےاور پھر مغرب کی جانب صحرائے قراقرم سے گزر کر مرو کی جانب بڑھتے،سلک روڈ کی جنوبی شاخ ایک ہی راستے پر مشتمل تھی جو شمالی ہندوستان سے گزر کر ترکستان اور خراسان کے علاقوں سے ہوتا ہوا پہلے میسوپوٹیمیا اور پھر اناطولیہ (ترکی) میں داخل ہوتا تھایہ جنوب کے مزید حصوں تک پھیلا ہواتھا جنوبی سمت یہ چیبن میں سی چوان بیسن کو عبور کرتا ہوا بلند پہاڑوں سے گزرتا مشرقی ہندوستان تک پہنچتا تھا اغلب خیال ہے کہ اسی راستے کو قدیم ٹی روٹ یونی چائے کا راستہ بھی کہا جاتاتھا اس کے بعد یہ راستہ مغرب کی جانب مڑ جاتااور دریائے برہم پتر اور دریائے گنگا کے ساتھ سفر کرتا ہوا ورانسی (بنارس) کی مغربی سمت موجودہ گرانڈٹرنک روڈ (جی ٹی روڈ)سے مل جاتاتھا اس کے بعد یہی راستہ شمالی پاکستان سے گزرتا اور کوہ ہندوکش کے اوپر سے ہوتا ہوا مرو کے قریب شمالی رستے سے جا ملتا اس کے بعد یہ مشترکہ راستہ شمالی ایران کے پہاڑوں سے ہوتا ہوا مغرب کی سمت اختیار کرتا اور صحرائے شام کے شمالی کنارے پر لیونٹ پہنچتا ، ہیاں سے تجارتی جہاز باقائدگی سے بحیرہ روم عبور کرکے اٹلی جاتےجبکہ خشکی کا راستہ ترکی اور جنوب کی سمت افریقہ نکل جاتے۔سلک روڈ کا ایک اور قدیم راستہ چین کے صوبے ژن جیانگ سے الماتے آتا تھا ۔چنانچہ 1994 میں الماتے(قزاقستان)اور ارومقی(ژن جیانگ ) کے درمیان بین القوامی معیار کی ریلوے لائن بچھا کے اسے بحال کر دیا گیا۔ ایک ہزار چھ سو سال پرانا تجارتی راستہ شاہراہ ریشم اب ایک نیا نام ون روڈ ون بلٹ کا روپ دھار رہا ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button