صفدرعلی صفدر
گزشتہ دنوں گلگت بلتستان کے ایک مقامی اخبار میں صوبائی وزیر ڈاکٹرمحمداقبال سے منسوب سُپرلیڈکی خبرنظروں سے گزری۔ جس میں وزیرموصوف کا کہنا تھا ’ہماری وہ حیثیت نہیں کہ بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی جائے۔‘ صوبائی وزیرکا یہ بیان سوشل میڈیا پر جنگل میں آگ لگنے کی مانند گردش میں رہی ۔ ایک طبقہ اس بیان کی حمایت اور دوسرامخالفت میں مورچہ زن رہا، مگرتوپوں کا رُخ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کی طرف ہی نظرآیا۔ وہ اس لئے کہ وزیرموصوف کا یہ بیان حکومت چین کی جانب سے حالیہ دنوں بیجنگ میں ’ون بیلٹ ون روڈ‘ کے موضوع پر منعقدہ دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس سے متعلق تھا، جس میں وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کی عدم شرکت عوامی حلقوں میں خاصازیربحث تھا۔
وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کو اس کانفرنس میں شرکت کی باضابطہ دعوت دینے یا نہ دینے کے حوالے سے کوئی ثبوت تودستیاب نہیں۔ البتہ حکومتی حلقے یہ کہتے ہوئے خودکو بری الذمہ قراردیتے رہے کہ گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ تواُن دنوں نہ صرف صوبے بلکہ ملک میں ہی موجودنہیں تھے تو کانفرنس میں شرکت کیسے ممکن ہوسکتی تھی۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ جن دنوں چین میں ’ون بیلٹ ون روڈ‘ کانفرنس منعقد ہورہی تھی ان دنوں وزیراعلیٰ گلگت بلتستان رُوم کے دورے پرتھے۔ لیکن یہ دورہ ’ون بیلٹ ون روڈ‘ کانفرنس میں حکومت گلگت بلتستان کی عدم نمائندگی کے جوازکے طورپر بالکل ناکافی ہے۔ وہ اس لحاظ سے کہ حکومت چین کی جانب سے اس قدرعالمی اہمیت کی کانفرنس کا انعقادمحض چندہفتوں یا دنوں میں توممکن نہی کہ کسی کوکانفرنس سے متعلق کانوں کان خبرنہ ہوئی ہو۔ اورکانفرنس میں مدعو130ملکوں اور70سے زائد بین الاقوامی اداروں کے نمائندوں کو بھی اتنی فرصت نہیں کہ وہ راتوں رات بیجنگ پہنچ جائے۔
ظاہری بات کانفرنس کی تیاریوں میں اچھا خاصا وقت صرف ہواہوگا اورمہمانوں کو اس کی پیشگی اطلاع دی جاچکی ہوگی۔ چنانچہ ایک ایسے خطے کے وزیراعلیٰ کو کانفرنس کی خبرنہ ہونا بھلا کیسے ممکن ہے جو نہ صرف کانفرنس کے میزبان ملک (چین) کا قریبی ہمسایہ اور چین پاکستان اقتصادی راہداری(سی پیک) کا گیٹ وے کہلاتا ہو۔ اور گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ اس قدرناعاقبت اندیش بھی نہیں کہ وہ چین کی جانب سے ’ون بیلٹ ون روڈ‘ کانفرنس کی دعوت کو ٹھکراکر ایک این جی اوکے خرچے پراٹلی کی سیرکوغنیمت جانیں۔
شاید حکومت چین کی جانب سے اس کانفرنس میں شرکت کے لئے وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کو انفرادی طورپر دعوت نہ دی گئی ہو اور اجتماعی دعوت نامے پروزیراعظم نے انہیں اپنی ٹیم کا حصہ بنانا مناسب نہ سمجھا ہو جس کی وجہ سے اس عالمی اہمیت کے حامل کانفرنس میں گلگت بلتستان کی نمائندگی نہ ہوسکی۔ بہرحال وجوہات جوبھی تھے نقصان گلگت بلتستان کا ہوا۔ ایسی صورتحال میں گلگت بلتستان کے صوبائی وزیرکا بیان بالکل مناسب اور حالات کے عین مطابق ہے کہ وفاقی حکمرانوں کے سامنے گلگت بلتستان کی کوئی حیثیت نہیں۔
بات یہاں گلگت بلتستان کے عوام یا علاقے کی نہیں بلکہ سیاستدانوں اور حکمرانوں کی ہے۔ کیونکہ خطہ گلگت بلتستان کی تاریخی وجغرافیائی حیثیت، قدرتی حسن، یہاں کی سیاحت، ثقافت، ماحول، رسم ورواج اور دھرتی کے سپوتوں کی بہادری اور شجاعت پر تو پوری دنیا رشک کرتی ہے۔ کسی کو کوئی شک ہے تو پاکستا ن کی تاریخ اٹھاکردیکھ سکتے ہیں کہ جو گلگت بلتستان کے باسیوں کے کارناموں سے بھری پڑی ہے۔ یہاں کے مردتوکیا خواتین نے بھی عالمی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواکر مملکت پاکستان کا سرفخرسے بلندکیا۔ اسی دھرتی کی بہادربیٹی ثمینہ بیگ کی مثال آپ سب کے سامنے ہے۔ اس کے علاوہ کوئی ایسا شعبہ نہیں جس میں گلگت بلتستان کے باسیوں نے عالمی سطح پراپنی صلاحیتوں کا لوہا نہیں منوایا ہو۔
البتہ کہیں پر کوئی کوتاہی رہ گئی ہے تووہ سیاسی میدان ہی ہے جس میں یہ خطہ اب بھی کسی فاتح کا محتاج ہے۔ اور قومی اور بین الاقوامی سطح کی کانفرنس میں شرکت کی دعوت نہ دینا یہاں کی سیاسی لیڈشپ اور حکومت وقت کی حیثیت کی عکاس ہے۔ جس پر خطے کی پوری قوم گزشتہ کئی دہائیوں سے ماتم کرنے کے باوجوداس حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
صوبائی وزیرنے کوئی غیرمعمولی بات ہرگزنہیں کی۔ انہوں نے تو وہی کہا جو ان کے علاقے کے حکمران اس کا عملی نمونہ ہیں۔ بظاہرتو یہ عوامی طاقت کے زریعے منتخب ہوکرعوامی فلاح وبہبودکے معاملات پر قانون سازی کرنے کے دعویدار ہیں۔ لیکن عملاًان کی حیثیت یہ ہے کہ ماتحت سکریٹری بھی ان کی بات سننے کو تیار نہیں۔ ان کی حیثیت کا اندازہ ان کے متعلقہ حلقوں میں واقع سڑکوں اور پلوں کی خستہ حالی، ہسپتالوں، سکولوں اورکالجوں کی بدحالی ، بیروزگاری کے طوفان اور معاشرتی ناہمواریوں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔
یہ صرف میں نہیں کہہ رہا بلکہ خود عوامی نمائندے قانون سازاسمبلی کے فورم پراپنی اس حیثیت کا رونا روتے رہتے ہیں۔ ان کی حیثیت یہ ہے کہ یہ لوگ ووٹ توعوامی مفادعامہ کے مسائل حل کرنے کی غرض سے لیتے ہیں مگرکام ذاتیات عامہ اور رشتہ وحیات کی خاطرکرنے کوترجیح دیتے ہیں۔ ان کی حیثیت پی ڈبلیو ڈی سے من پسندوں کو ٹھیکے دلوانے، ووٹروں اورسپورٹران کو تھانہ کچری کے چنگل سے نجات دلانے، ناپسندیدہ آفسران کے تبادلے کروانے اورسرکاری نوکریوں پربھرتیوں میں سفارشیں لڑوانے کی حد تک ہے۔
ان سب کاموں سے جب فرصت ملے تو وقت اور موقع کی مناسبت سے جھوٹے وعدوں اور دعوؤں کے زریعے عوامی جذبات کو ابھارنابھی ان کی حیثیت میں شامل ہے۔ ان کی اگرکوئی حیثیت ہوتی توگلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے تعین کا معاملہ کب کا حل ہوچکا ہوتا اور سات دہائیاں گزرجانے کے بعدبھی عوام آئین کے سایہ سے محروم نہ ہوچکے ہوتے۔ ان کی اپنی کوئی حیثیت نہیں تب ہی تو یہ شندورجیسے معمولی تنازعات کے حل کے لئے وفاق کے سامنے ہاتھ جوڑلیتے ہیں۔
گلگت بلتستان کے حکمرانوں اور عوامی نمائندوں کی یہی حیثیت دیکھ کرتووفاق انہیں کسی کھاتے کا نہیں سمجھتا۔اور جب کوئی اپنی اصل حیثیت دکھانے کی کوشش کریں توکبھی آکے تعین کا اعلان تو کبھی مالیاتی پیکیجزکی لالچ دلاکریہ بتانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ لوجی تم اورتمہاری حیثیت۔ فرض کریں گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ وزیراعظم کی ٹیم کے ساتھ چین جانے کے لئے ملک میں موجودنہیں تھے تو قائم مقام وزیراعلیٰ کیا گاجرمولی کاٹنے کے لئے تھا یا صوبائی کابینہ کے کسی اور وزیرکو یہ عقل کیوں نہیں آئی کہ جناب وزیراعلیٰ موجود نہیں تو کیا ہوا میں ہوں نا۔ لیکن بدقسمتی سے اقتدار کے نشے میں مست کسی وزیرکو یہ ہوش نہیں رہا اور جب کانفرنس اختتام پذیرہوئی تو کہنے لگے یہ ہماری حیثیت سے بالاترہے۔
انہیں تواس اہم کانفرنس میں نظراندازکرنے پرماتم کرکے وفاق سے یہ کہہ کر احتجاج کرنا چاہیے تھا کہ بھائی چین اگرتمہارا ہمسایہ ہے تو گلگت بلتستان کی وجہ سے ہے ۔ ہندوستان کاسی پیک پرشورشرابہ بھی اسی خطے کی وجہ سے ہے۔ دیگرتمام عالمی طاقتوں کی نظریں بھی اسی خطے پر لگیں ہوئی ہیں ۔ اس کے باوجود ہم نے ہمیشہ پاک چین دوستی زندہ باد کے نعرے لگائیں اور ہروقت سی پیک کی کامیابی کے لئے سربہ سُجودہوئے تو کم ازکم آپ بھی تو اپنی اداؤں پہ زراغورکریں۔
اگر گلگت بلتستان کی حکومت وفاق کو اپنی یہ حیثیت منوانے میں کامیاب ہوجاتی (جیسا کہ انہوں نے غیرملکی سیاحوں کے گلگت بلتستان جانے کے لئے این او سی کی شرط ختم کروانے کے سلسلے میں منوایا) تو پھروفاقی حکمران بھی آئندہ اس طرح کی غلطیاں کرنے سے پہلے دس بارسوچنے پر مجبورہوجاتے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں اس طرح کی کئی کانفرنسیں اور ہوتی رہیں گی اورخبرہونے تک سی پیک بھی مکمل ہوجائیگا مگرہم صرف اس بات پر اکتفاکرتے رہیں گے کہ ہماری وہ حیثیت نہیں کہ بین الاقوامی کانفرنس میں دعوت دی جائے۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button