کالمز

رویوں کی فتح

تحریر:  فیض اللہ فراق

کہتے ہیں کہ رویے کا بہترین اظہار ڈاکٹر کے علاج سے بہتر ہوتا ہے اور معاشرتی تراش خراش میں سماجی رویوں کا بڑا کردار ہوتا ہے ۔انسان فطری طور پر ہمشہ سے بہتر سے بہتر کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے اور انسانی سرشت میں موجود برتری کے احساس نے اجتماعی معاشرے کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ برتری کا یہ احساس حرص طمع اور لالچ کے کوکھ سے جنم لیتا ہے جو انسان کو ذہنی طور پر مفلوج کر کے رکھ دیتا ہے ۔ زندگی کے اس سفر میں قدم قدم پر عدم برداشت’دھونس دھاندلی بدتمیزی الزامات’ گالیاں’ بہتان اور ہوس کا عملی اظہار ہمیں دیکھنے کو مل رہا ہے جو کہ ایک اچھے معاشرے کیلئے کسی زہر سے کم نہیں ہے ۔ان تمام عوامل کے پس منظر میں کئی ایک محرکات پنہاں ہیں جن کا تدارک بہت ضروری ہے ۔معاشرے کی بڑھتی ہوئی فرسٹیشن اور محرومی کی ایک بڑھی وجہ حکمرانوں کا دہرا رویہ اور ظالمانہ طرز نظام ہے جس کے باطن میں سرمایہ داری’ ایلیٹ کلاس کی عیاشی ‘خاندانی دبدبہ اور لگژری لائف ہے۔ جس نظام میں غریبوں اور ناداروں کیلئے کچھ نہ ہو اور وڈیروں اور جاگیرداروں کیلئے سب کچھ میسر ہو پھر وہاں مختلف قسم کی کلاسیں وجود میں آتی ہیں۔جس نظام میں قانون طاقت ور کو تحفظ اور عام آدمی کیلئے لٹکتی تلوار بن جائے وہاں انسانیت اپنی بقا کیلئے محفوظ پناہ گاہیں ڈھونڈتی ہوئی پھرے گی۔جس معاشرے میں شہری بھوک افلاس سے خودسوزی کرنے پر مجبور ہو اور غریبوں کے ٹیکس پر چلنے والے چند خاندان دن رات کتوں کو انڈے کھلاتے ہوئے ان کے بال کنگھی کرنا اپنا بہترین مشغلہ تصور کرتے ہوں ‘ جس نظام میں ایک غریب علاج میسر نہ ہونے پر ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر دم توڑ رہا ہو جبکہ کتوں کیلئے پرائیوٹ ہسپتال کھلے ہوں ‘جس سماج میں غریب کا بچا دن بھر چوک چوراہوں میں کچرہ ڈھونڈتا ہوئے پھرتا ہو اور ایک مخصوص طبقہ اپنے بچوں کی تعلیم یورپ کے تعلیمی اداروں میں دلوانے میں عار محسوس نہ کریں پھر ایسے معاشرے میں تلخ رویے جنم لیتے ہیں اور عدم برداشت کا رجحان کھل کر سامنے اجاتا ہے ۔معاشرہ مختلف کلاسیں میں بٹ جاتا ہے اور کثیر تعداد افراد کمتری کے احساس سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ یہاں سے انانیت اور تشدد کا آغاز ہوجاتا ہے ۔ہر انسان خود کو دوسرے سے الگ اور جدا سمجھتا ہے اور عدم مساوات معاشرے میں اپنی جڑیں مضبوطی سے گاڑھ دیتا ہے اور اس طرز پر بننے والا سماج ظالم کہلاتا ہے پھر یہ تو معلوم ہے نا کہ معاشرہ کفر سے تو چل سکتا ہے مگر ظلم سے نہیں چل سکتا ایسے عالم میں الزام تراشیاں بہتان گالم گلوچ لڑائی جگڑا طوفان بدتمیزی ہمارے رویوں میں اجاتے ہیں۔اس موڑ پر ہم اپنے اقدار کو بھول جاتے ہیں روایات کا گلہ دباتے ہیں اور ہر کام کا انتقام خود لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ نظام ہمیں انصاف نہیں دے سکتا قانون ہمارا مدد نہیں کرسکتا حکومتیں ہماری پشت پناہی کی بجائے ظالموں اور وڈیروں کے ساتھ ک?ڑی ہو جاتی ہیں۔۔۔ پھر کہیں مشال خان کو ڈنڈوں اور گولیوں سے بوند دیا جاتا ہے تو کہیں جامعہ پنجاب سے لیکر قائداعظم تک علمی میراث کا مزاق اڑایا جاتا ہے ۔جن کے ہاتھوں میں قلم وقرطاس دے کر بھیجا جاتا ہے وہ اسے خنجر میں بدل دیتے ہیں۔ جنہیں علم کا وارث سمجھا جاتا ہے وہ جہالت کے علمبردار بن کر نکلتے ہیں۔شعور سوچ اور فکر کا قتل عام ہے ایسے میں کو بکو خوف چھایا ہوا ہے اور ہر انسان حیران و پریشان ہے کہ کہیں سے کوئی آندھی گولی کا نشانہ نہ بن جائے ۔ انسانوں کا ایک بھیڑ ہے اور شعور کا نماز جنازہ ادا کیا جا رہا ہے بے یقینی کی کیفیت ہے لاشعوری کی انتہا ہے ۔ اگر تعلیمی اداروں سے ہماری نوجوان نسل اس نوعیت کے ایٹم بم بن کر نکل رہے ہیں تو مجھ سمیت بہت سارے پاکستانی اپنے مستقبل سے خوف زدہ ہوجاتے ہیں لیکن میں پھر بھی پرامید ہوں کہ اگر اس ملک کے نظام کو عدل وانصاف کی پوشاک پہنا دی جائے تو یہاں کی مٹی بہت زرخیز ہے ۔ مجھے امید ہے کہ بہتر نظام کی تشکیل سے بہت سارے اعتزاز حسن پیدا ہو سکتے ہیں جو اپنی جان دے کر علم کی میراث کا دفاع کرتے ہیں’ مساوات کی فراہمی سے یہاں بیت ساری عرفہ کریم اپنے وجود کو قائم رکھ سکتی ہیں’ اگر ہم ٹیلنٹ کی ناقدری نہ کرے تو ڈاکٹر قدیر ڈاکٹر عبد اسلام پیدا ہو سکتے ہیں۔میری مٹی کا ہر پتھر وفا کا پیکر ہے ہر پہاڑ عظمت کی علامت ہے ہر صحرا کشادگی کا نشان ہے مگر میری تربیت کون کرے گا۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ملکر اس بوسیدہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں اور اپنے بچوں کو صرف چند کتابیں اور جدید آلات دے کر درسگاہیں نہ بھیجیں بلکہ ان کی تربیت بھی کریں۔اگر علم کے ساتھ تربیت کا عنصر شامل ہو تو دنیا کو فتح کرنے کیلئے ہتھیار نہیں چاہئے بلکہ پر ہم دنیا کو ہم رویوں سے فتح کر سکتے ہیں۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button