محمد جاوید حیات
ماہ مئی کی سولہ تاریخ تھی ۔۔وادی بمبوریت میں کیلاش قوم کا مذہبی تہوار ’’چلم جوشٹ ‘‘ کا آخری دن تھا۔ سکول میں بچوں کی حاضری بہت کم تھی ۔۔سارے کیلاش بچے بچیاں چھٹی پر تھیں ۔۔حکومت کی طرف سے ان کواجازت تھی ۔۔میں اپنے پی ، ای ،ٹی استاد کے ساتھ گراونڈ میں کھڑا تھا ۔۔اٹھویں کے بچوں کو ڈرل سیکھا رہا تھا۔۔ایک نوجوان گیٹ سے اندر داخل ہوا ۔۔ہماری طرف دیکھے بغیر ان بچوں کی تصویریں کھینچنے لگے ۔۔یہ ایک اخلاقی کمزوری تھی ۔۔میرے خیال میں پاکستان کا وزیر اعظم بھی کسی سکول کے گیٹ کے اندر بے بغیر اجازت کے داخل نہیں ہوتا ۔۔اور نہ اپنا تعارف کرانے سے پہلے کوئی کام کرتا ہے ۔۔میں نے قریب جاکر اس جوان رغنا سے تعارف پوچھا ۔۔بھائی صاحب کیا آپ ہمارے سٹاف میں ہیں؟ ۔۔’’ہاں میں مانیٹرنگ والا ہوں ۔۔‘‘میں نے کہا ۔۔تو آپ آفس آئیں ۔۔میں اس کے ساتھ ایسا جا رہا تھا جیسا کوئی خوفنا ک جنرل کے پہلو میں سہما ہوا سپاہی ۔۔۔ہم دفتر میں داخل ہوئے ۔۔یہ پینٹ شرٹ میں تھے ۔۔ ۔۔الفاظ میں رعونت ۔۔استاد نام اس کی نظر میں ۔۔شاید نالائق مخلوق ۔۔کام سے غافل ۔۔وقت ضائع کرنے والا ۔۔اس سے خوفزادہ ۔۔یہی اس کی غفلت کا علاج۔۔میں سوچا کیا یہ کسی ’’استاد ‘‘ سے نہیں پڑھا ۔۔یا اسے اس طرح کیوں سمجھا یا گیا ہے کہ ڈیوٹی کے اندر کسی کا احترام نہ کرنا ۔۔میں عمر کے لحاظ سے اس کو ’’ژان ‘‘ کہہ کر مخاطب کرتا تو اس کو بہت ناگوار گذرتا ۔۔میرے نئے اسٹاف کے ساتھ اس کا تعارف ہوا ۔۔میں نے سکول کی صورت حال اس کو بتایا ۔۔ کہ سارے کیلاشی بچے بچیاں اپنا تہوار منا رے ہیں۔ ۔اور باقی کی حاضری کی رپورٹ لے کے دی ۔۔اس کو اس بات پہ’’ اعتماد ‘‘ نہیں تھاکہ میں اس کو درست رپورٹ دے رہا ہوں ۔۔اس نے بڑے رعونت سے کھڑے ہو کر کہا ۔۔کہ میں خود کلاسوں میں جا کربچوں کو گن گن کر حاضری چیک کروں گا ۔۔میں نے سوچا کہ اف۔۔یہ بد اعتمادی کی فضاء ۔۔یہ کسی پر اعتبار نہ کرنا ۔۔اف یہ شک ۔۔کچھ اساتذہ نے کچھ بچوں کو کلاسوں سے چھٹی دی تھی ۔۔حاضری میں فرق تھا ۔۔اب میں ایک نااہل انچارچ تھا ۔۔میرا دل ٹوٹ سا گیا تھا ۔۔میں کرچی کرچی ہوگیا تھا ۔۔ان لوگوں کو کیاسیکھا یاجا رہا ہے ۔۔کیا ان کوسمجھا یا جا رہا ہے کہ سارے اساتذہ نعوذبلاللہ نااہل ہیں ۔۔میں مانیٹرنگ کا بہت حمایتی ہوں میں نے ائی ،ایم ،یو پر ارٹیکل لکھا ۔۔یار دوستوں نے آڑھے ہاتھوں لیا ۔۔میں اپنے موقف سے ہٹا نہیں ۔۔میں نے اس کو اس حکومت کا کارنامہ قرار دیا ۔۔ اور دے رہا ہوں ۔۔لیکن یہ بے اعتمادی کیوں؟ ۔۔اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھئے ۔۔ڈی ، ایم او سید مظہر علی شاہ دورے پر ہیں ۔۔ایک وژنری آفیسر ہیں ۔۔ایک تجربہ کار ہیں ۔۔اسی انچارج کو کال کرتے ہیں ۔۔سر میں دورے پر ہوں ۔لیکن ڈیوٹی ٹائم کے دوران شاید آ پ کے سکو ل نہ آ سکوں اس لئے کہ تم ادھر ہو ۔۔مجھے اعتما دہے کہ آپ کا سٹاف حاضر ہو گا۔۔ کام میں منہمک ہوگا ۔۔سکول رن کر رہا ہوگا ۔۔محنت ہو رہی ہو گئی ۔۔مجھے کام چاہئے وہ ہو رہا ہوگا ۔۔میں سکول ٹا ئم کے بعد آونگا ۔۔اور کام نمٹا کے آونگا ۔۔جب کام نمٹا کے آتا ہے ۔۔تو مسائل کا پوچھتا ہے ۔۔بچوں کی ضروریات کا پوچھتا ہے ۔۔۔سکول میں معیار تعلیم کا پوچھتا ہے ۔۔سہولیات نہ ہونے کا پوچھتا ہے ۔۔اساتذہ کی تعداد کا پوچھتا ہے ۔۔ہر لفظ میں خلوص ہے ہر حرف میں اعتماد ہے ۔۔روشن مستقبل کی بات ہے ۔۔اصلاح کی بات ہے ۔۔میں سراپا سوال بن جاتا ہوں ۔۔کہ اگر اعتماد نہ کرنا تھا تو یہ آفیسر کیوں کر رہا ہے۔۔ اگر اعتماد کرنا تھا تو وہ ماتحت کیوں نہیں کرتا تھا ۔۔کیا ہم سب کرپٹ ہیں یا ایسا ہمیں سمجھا جاتا ہے ۔۔میں مانتا ہوں کہ میں مانٹرنگ والے کے انتظار میں ہوتا ہوں ۔۔جب وہ آکے جائے تو میں کام نہیں کرتا ۔۔میں مانتا ہوں کہ میں پڑھاتا نہیں ہوں ۔۔میں مانتا ہوں کہ مجھے کسی مانیٹرنگ والے کی طرح انگریزی نہیں آتی ۔۔میں مانتا ہوں میں برا ہوں ۔۔۔لیکن تم تو برے نہیں ہو ۔۔تم تو شرافت کو قتل نہ کرو تم تو ایک تعلیمی ادارے میں آتے ہو جہاں شرافت کا سبق پڑھا یا جاتا ہے ۔۔۔مانیٹرنگ کا تصور اسلام میں ہے ۔۔قانون اسلام کی شان و شوکت ہے ۔۔ڈیوٹی اور فرض منصبی میں خیانت کرنا اسلام کی رو سے سب سے بڑی خیا نت ہے ۔۔میں مانیٹرنگ کو زندہ باد کہتا ہوں ۔۔قوم کی تعمیر جس ادارے میں ہوتی ہے وہاں تو کسی صورت غفلت نہیں ہونی چاہیئے ۔۔ایک زندہ ،فعال ،شریف ، مخلص ،درد دل والا آفیسر یقیناًاپنے ماتختوں کو اس طرح تربیت دے گا کہ اپنے فرائض شرافت کے ساتھ انجام دینگے ۔۔اساتذہ اور ان میں خلیج نہ ہوگی وہ ایک دوسرے کی مدد کرینگے ۔۔دونوں ڈیوٹی کو فرض منصبی سمجھیں گے۔۔دونوں کا ایک مقصد ہوگا۔۔یہ ایک دوسرے کا حترام کریں گے ۔۔ایک دوسرے کو دیکھ کر ان کی آنکھیں چمک اٹھیں گی ۔۔ہر ایک کی اپنی اپنی حدود ہونگی ۔۔دایرۂ کار ہوگا۔۔اور اس کے اندر ہر ایک کار آمد ہو گا ۔۔ہماری قوم کے نوجواں آفیسرز قوم کی خدمت کر رہے ہیں ۔۔دکھ درد بانٹنا زندہ قوموں کی صفت ہوتی ہے ۔۔مجھے یاد ہے سید مظہر علی شاہ جب چترال میں ای اے سی تھے سوسوم میں سکول کے بچے برفانی تودے میں دب گئے ۔۔یہ موصوف اس برف میں کھڑے امدادی کاموں کی نگرانی کر رہے تھے ۔۔پر عزم لوگ قوم کے سرمائے ہوتے ہیں ۔۔قوم کا فرد فرد ایک دوسرے کا احترام کرنے لگے تب یہ قوم چٹان بن جاتی ہے ۔۔۔ہمیں توقع ہے کہ نیا ڈی ایم او صاحب چترال میں تعلیمی انقلاب لانے میں عظیم اساتذہ کے ساتھ مل کر کام کریں گے اور وہ خلیج پاٹ دینگے جو بچوں کی اس فوج ظفر موج اور اساتذہ کے درمیان ہے ۔۔تعلیم ہماری مجبوری ہے ۔۔اس کے بے غیر موجودہ دور کے تقاضوں پر پورا اتر نا ناممکن ہے ۔۔سوال ہے کہ کیا ہم تاریخ میں اپنا نام لکھوا سکتے ہیں ۔۔۔جواب ہاں میں بھی ہے نہیں میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button