کالمز

مظلوم عوام کی امید

   شیر جہان ساحلؔ

"”آپ کی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی پر ہم امریکی عوام کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ جہان آپ کے پہلے انتخاب کا بنیادی نکتہ غلامی کے خلاف مزاحمت تھی، وہاں آپ کی دوسری کامیابی کا فتح مند نعرہ جنگ غلامی کا خاتمہ بنا۔

امریکہ میں اس عظیم تصادم کے آغاز سے ہی یورپ کے محنت کش جبلی طور پر یہ محسوس کر رہے تھے کہ ان کے طبقے کا مقدر ستاروں والے (امریکی) پرچم سے جڑا ہے۔ علاقوں پر قبضے کی لڑائی جو کہ اس ہیبت ناک جنگ کا نکتہ آغاز بنی، کیا اس کا مقصد یہ فیصلہ کرنا نہیں تھا کہ بے پناہ وسعت کی حامل یہ کنواری دھرتی تارکین وطن کی محنت کی دلہن بنے گی یا پھر غلام ہانکنے والے دلالوں کے ہاتھوں پیشے پر بٹھائی جائے گی۔

جب تین لاکھ غلام مالکان اشرافیہ نے دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلح بغاوت کے پرچم پر "غلامی” کو ثبت کرنے کی جسارت کی، بلکل اسی جگہ پر جہاں بمشکل ایک صدی قبل ایک عظیم جمہوریہ کا نظریہ پہلی مرتبہ ابھرا تھا۔ جس جگہ سے انسانوں کے حقوق کا اعلامہ جاری ہواتھا اور جہاں سے اٹھاریویں صدی کے یورپی انقلاب کو پہلی تحریک ملی تھی۔ جب بعینہ اسی جگہ پر رد انقلاب نے ایک منعظم قسم کے کمال کے ساتھ "ان نظریات کو جو کہ پرانے آئین کی تشکیل کے وقت تسلیم کئے گئے تھے”، اترتے ہوئے منسوخ کیا اور غلامی کو ایک "مہربان ادارہ” ہونے کے ناطے بحال رکھا گیا۔ یہ درحقیقت "سرمائے کے محنت کے ساتھ تعلق” گمبیھر مسئلے کا وہی قدیم حل ہے، جس کی رو سے انسان کو ملکیت کے طور پر رکھنے کو "اس نئے نظام کی غیر انسانی بنیاد بنا دیا گیا ہے” ۔۔۔۔۔۔۔۔ تو کنفیڈریٹ اشرافیہ کے بالائی طبقات کے متعصب اتحاد کی یہ والی بھیانک تنبیہ دئیے جانے سے قبل ہی، کہ غلام مالکان کی بغاوت، محنت کے خلاف ملکیت کے مقدس جہاد کا نقارہ جنگ ہے، یورپ کے محنت کش طبقات فوراً ہی سجمھ گئے تھے کہ بحراوقیانوس کے اس پار ہونے والی اس عظیم لڑائی میں، مستقبل سے امیدیں لگائے محنت کشوں کی ماضی فتوحات بھی دائو پر لگ چکی ہیں۔ اسی لئے انہوں نے ہر جگہ کپاس کے بحران سے جنم لینے والی سختیاں صبر کے ساتھ جھیلیں، غلامی کی طرفداری میں، اپنے حکام کی مداخلتوں کی پرجوش انداز میں مخالفت کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یورپ کے بیشتر حصوں میں انہوں نے اس درست اور جائز کے لئے اپنے حصے کے خون کا نزرانہ بھی دیا۔

شمال کی حقیقی سیاسی قوت، محنت کشوں نے اپنی جمہوریہ کو غلامی کے چنگل میں پھنسنے دیا۔ انہوں نے سیاہ فام کے مقابلے میں، جس کو اس کی مرضی کے خلاف خریدا اور بیچا جانا تھا، سفید چمڑی والے محنت کش اپنے مالک کو چننے اور خود کو بیچنے کا حق مل جانے کو ہی اپنی سب سے بڑی مراعت سمجھ لیا۔ اس طرح سے وہ محنت حقیقی آزادی کے حصول سے محروم اور اپنے یورپی بھائیوں کی نجات کی جدجہد میں مدد کرنے میں ناکام رہے۔ لیکن ترقی کی راہ میں یہ رکاوٹ خانہ جنگی کے خونی سمندر میں غرق ہو چکی ہے۔

یورپ کے محنت کش یہ یقین رکھتے ہیں کہ جیسے امریکہ کی جنگ آزادی نے درمیانے طبقے کی ترقی کے نئے دور کی شروعات کی تھی، اسی طرح امریکہ کی غلامی مخالف جنگ ہی محنت کش طبقات کے لئے یہ فریضہ ادا کرے گی۔ یورپ کے محنت کشوں کے خیال میں یہ آنے والے عہد کا پیش خیمہ ہے کہ ایک غلام نسل کی آزادی اور مہذب دنیا کی تعمیر نو کی بے مثال جدجہد میں اپنے ملک کی قیادت کا فریضہ محنت کش طبقے کا ایک پرعزم سپوت ابراہام لنکن پر آن پڑا ہے””

یہ وہ خط تھا جسے کارل مارکس نے امریکی صدر ابراہام لنکن کے نام اس وقت لکھا تھا جب وہ بھاری اکثریت سے دوسری بار امریکہ کا صدر منتخب ہوا تھا۔ اس خط سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایک لیڈر دنیا میں جہان بھی ہو مظلوم انسانیت کی امیدیں اس کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں اور نااہل بندے کو اگر اقتدار مل جائے تو انسانیت کو وہ خطرات لائق ہوتی ہیں جو آج کل پاکستان سمیت مسلم امہ کو درپیش ہیں۔

چونکہ سر ابراہام لنکن غلامی کے خاتمے کے لئے جو اقدامات اٹھائے تھے ان سے اہلیاں یورپ بھی پر امید ہوئے تھے۔ مگر ہمارے نوجوانوں کو غلامی کے ایک ایسے جال میں پھنسایا جا رہا ہے جس سے نکلنا تقریباً مشکل ہے۔ اور نفرتوں کا ایک ایسا نظام بچایا گیا ہے جن کی بدولت ہم توہین انسانیت کے خلاف آواز اٹھانے کی بھی حوصلہ نہیں کر سکتے اور جال کا جو سب سے اہم پہلو ہے!! وہ ہے سیاست میں عقیدے کا بے دریغ استعمال!!!!۔۔۔۔۔۔ اور معصوم لوگوں کو اسطرح اندھیرے میں رکھا گیا ہے کہ جب کوئی سیکولر نظام کی بات کرتا ہے تو استغفراللہ کے نعرے بلند ہونے لگتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ لا دینیت کو عام کرنا چاہتے ہیں اور یہ ہمارے دین کے دشمن ہیں حالانکہ بہت سون کو تو سیکولرازم کا مطلب تک معلوم نہیں ہوتا۔ مگر عقدے کی تحفظ میں کود پڑتے ہیں کیونکہ دین کے ساتھ ان کا عشق ہوتا ہے اور یوں غلامی کا خاتمہ اس معاشرے میں تقریباً ناممکن نظر آتا ہے۔ اور اس معاملے میں اگر کوئی آواز اٹھانا بھی چاہے تو توہین کا الزام لگا کر اسے ایسی ذلت کی موت دی جاتی ہے کہ سوگوران دوست احباب کا انصاف کے لئے آواز اٹھانا تو دور کی بات! کھل کر ماتھم بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ اور ایسے معاشرے میں کون زندگی خطرے میں ڈال کر اس غلامی کے خلاف آواز اٹھائے گی۔ اور شاید ہمیں بھی ابراہام لنکن جیسا لیڈر کی تلاش شروع کرنی ہو گی جو اس اندھیرے سے ہمیں باہر نکال سکیں۔ اور ہم صرف دعا ہی کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں نیتون کو نیک بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

 

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button