’’پانی نہ بجلی‘‘ کے وزیر مملکت عابد شیر علی اور وفاقی وزیر خواجہ آصف اپنی ہر تقریر میں خوشخبری دیتے ہیں کہ جن اضلاع میں بجلی بلوں کی 100فیصد ریکوری ہوگی ان اضلاع میں لوڈ شیڈنگ نہیں کی جائیگی۔مگر یہ خوشخبری جھوٹی ہے اورافطاری ،تراوے اور سحری میں لوڈ شیڈنگ نہ کرنے کے حکومتی دعوے بھی جھوٹے نکلے ۔اگر ملک کے دیگر حصوں میں لوڈشیڈنگ نہ کرنے کی خوشخبری درست ہے تو پھرعوام پر واضح کیا جائے کہ کیا ضلع چترال پاکستان کا حصہ ہے کہ نہیں؟چترال ٹاون میں بجلی بلوں کی ادائیگی اور ریکوری 100فیصد ہے۔اس کے باوجود چترال ٹاون میں روزانہ18گھنٹے غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔یہاں کے لوگ درگئی اور دیگر علاقوں کے صارفین کی طرح واپڈا کے دفتروں کو آگ نہیں لگاتے ٹرانسفارمروں کو نہیں جلاتے ،روزانہ 18گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کا عذاب برداشت کرلیتے ہیں۔اسلام آباد ،پشاور اور لاہور میں بھی بجلی کا بحران ہے۔وہاں لوڈشیڈنگ کا باقاعدہ شیڈول دیا گیا ہے۔رات دس بجے ایک گھنٹہ یا صبح چھ بجے ایک گھنٹہ باقی 23گھنٹے بجلی بلاتعطل فراہم کی جاتی ہے۔روزانہ ایک گھنٹے یا دو گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کے اوقات لوگوں کو معلوم ہیں۔وہ اپنی معمولات اس حساب سے پوری کرلیتے ہیں۔وہاں بجلی بلوں کی ادائیگی یا ریکوری 30فیصد سے بھی کم ہے۔چترال ٹاون میں بجلی کا مسئلہ گذشتہ چار سالوں سے بہت خراب ہے۔مسلم لیگ (ن) کی حکومت آنے سے پہلے عوامی مطالبے پر بجلی کی لوڈشیڈنگ کا شیڈول دیا جاتا تھا۔مقامی بجلی گھر سے دن کے وقت بازار،دفاتر اور ہسپتال کو بجلی دی جاتی تھی۔مسلم لیگ(ن) کی حکومت اور مقامی قیادت سے مایوس ہوکر چترال ٹاون کے عوام کی پاؤر کمیٹی نے سرحد رورل سپورٹ پروگرام کے چیف ایگزیکٹیو شہزادہ مسعود الملک سے رجوع کیا۔ایس آر ایس پی نے گولین میں دو میگاواٹ کا بجلی گھر ٹاون کے صارفین کے لئے تعمیر کیا۔یورپی یونین نے 33کروڑ روپے دیے اب بجلی گھر تیار ہے۔دومیگاواٹ بجلی موجود ہے۔مگر واپڈا بجلی گھر کو ہاتھ میں لینے سے انکاری ہے۔سارا بوجھ ایس آر ایس پی کے اوپر ڈالا جارہا ہے ،پیڈو کے حکام اپنی ٹرانسمیشن لائن دینے کے بعد وعدے سے مکر گئے ہیں۔اور ٹاون کو بجلی کی فراہمی میں قسم قسم کے بہانوں سے کام لیا جارہا ہے۔ضلع ناظم مغفرت شاہ نے ہائیڈرو پاؤر کے ایکسپرٹ انجینئر بشیر احمد،پاؤر کمیٹی کے اراکین،وی سی ناظمین،واپڈا حکام اور صحافیوں کو لیکرگولین میں دومیگاواٹ بجلی گھرکا دورہ کیا ۔توچار افسوسناک انکشافات ہوئے۔پہلا انکشاف یہ تھا کہ بجلی گھر کی مشینری میں خرابی ہے اس خرابی کو دور کرنے کے لئے چین سے انجینئر بلانے کی ضرورت ہے مشینری میں پتھر اور لوہے کے ٹکڑے آنے کے انکشافات ہوئے ہیں۔دوسرا بڑا انکشاف یہ تھا کہ ایس آر ایس پی نے گذشتہ دوسالوں میں پیڈو اور واپڈا کے ساتھ بجلی کی تقسیم کا معاہدہ نہیں کیا۔تیسرا بڑا انکشاف یہ تھا کہ بجلی گھر کو چلانے کے لئے ٹیکنیکل اسٹاف دستیاب نہیں ہے اور چوتھا حیرت انگیز انکشاف یہ تھا کہ پاؤر کمیٹی کا بجلی گھر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔اب تک یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ بجلی گھر پاؤر کمیٹی بنارہی ہے۔ان انکشافات کے بعد ضلع ناظم نے حکم دیا کہ دو دن بعد چترال ٹاون کو بجلی دیدی جائے۔دودن گذرگئے تیسرا دن بھی آیا۔بجلی نہیں آئی۔اب چترال ٹاون کے عوام،وکلاء اور کاروباری مراکز بازار ،ہسپتال اور دفاتر کے60ہزار صارفین کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ واپڈا کے ذریعے ٹاون کے صارفین کو بجلی فراہم کی جائے اگر لوڈ شیڈنگ کرناہے تو روزانہ ایک گھنٹے یا دو گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا باقاعدہ شیڈول دیدیا جائے۔ہرجگہ ہر کوئی اپنی مرضی کا مالک بناہوا ہے، شیڈول پر عمل درآمد نہیں کیا جارہا،انتظامیہ کی رٹ کو چلینج کیا جارہا ہے۔انتظامیہ بے بس ہوچکی ہے چترال کے منتخب نمائندے اور سیاسی نمائندے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھنچنے کے بجائے آپس میں مل بیٹھ کر ایس آر ایس پی دومیگاواٹ بجلی گھر کو سیاست سے پاک کرکے عوام کو سہولیات پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کریں اور نیشنل گرڈ سے چترال کو ملنے والی بجلی کی کم وولٹیج اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لئے بھی اپنا بھرپورکردار ادا کرے۔اگر ایسا نہ ہوا تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ،ضلعی حکومت،ایم این اے ،ایم پی ایز، واپڈا،ایس آر ایس پی اور پیڈو حکام چترال میں بھی درگئی جیسے حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔
Why your MNA don`t say it National Assembly?