محمد جاوید حیات
میں بڑوں سے بہت ڈرتا ہوں ۔۔اس لئے ان سے بہت دور بھاگتا ہوں ۔۔اس کی ایک وجہ میرے نزدیک بڑائی کا معیار ہے ۔۔میں کبھی کسی کی دولت ،جائیداد،بڑی حویلی،بنک بیلنس وغیرہ سے اتنا متاثر نہیں ہوا جتنا اس کے اعلی اخلاق،روشن کردار اور مخلوق خدا سے محبت سے متاثر ہوا ۔۔میں بہت چھوٹا ہوں اس لئے بھی شکر ہے کہ کسی بڑے کے نزدیک جانے کا موقع نہیں ملتا ۔۔مجھے فخر موداتﷺ کی وہ حدیث پاک یاد آتی ہے کہ میری امت کا خوش قسمت فرد وہ ہے کہ نہ جس کا دنیا میں آنے کا سب کو پتہ ہوتا ہے اور نہ دنیا سے جانے کا ۔۔۔اور فرمانا کہ اے اللہ ۔۔مجھے دنیا سے غریب اٹھا اور قیامت میں غریبوں میں میرا حشر کر ۔۔۔۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ بڑے لوگ مخلوق خدا سے غافل ہوتے ہیں وہ اپنے آپ کو غریبوں سے بڑا کوئی مخلوق تصور کرتے ہیں ۔۔اس لئے ہم جیسوں کے نزدیک بڑائی کا کوئی اور معیار ہے ۔۔۔چترال کے شاہی خاندان کے کئی افراد کئی حوالوں سے اپنی یادیں چھوڑ گئے ہیں ۔۔ان میں سب سے مضبوط حوالے ان کے کردار ہیں ۔۔میں فرصت ملے تو شاہی گورستان جاتا ہوں ۔اور ہر آرام گاہ کے پاس کھڑ ے ہو کر وہ کتبے پڑھتا ہوں ۔۔اور انسان کا انجام ،دنیا کی بے ثباتی اور پھر اپنے انجام کو سوچتا رہتا ہوں ۔۔۔دنیا میں بھر پور زندگی گذار نا کچھ کچھ کے حصے میں آیا ہے ۔۔جس کے حصے میں آیا ہے وہ مر کر بھی زندہ رہا ہے ۔۔شہزادہ خوش آحمد الملک مرحوم کی زندگی کے کئی حوالے ہیں جو قلم اٹھا نے پہ مجبور کرتے ہیں کیونکہ آپ بڑائی کے اس معیار پر تھے جس میں کردار اور اخلاق کے حوالے ہوتے ہیں ۔۔چترال کے شاہی خاندان کے آخری چراغ جو ۹۷ بہاریں دیکھیں اور بھر پور دیکھی۔۔شاہی خاندان میں آنکھ کھولے ۔۔اعلی تعلیمی ادارے ڈیرہ ڈون میں تعلیم پائی ۔فضاؤں کے شاہین بنے ۔۔پھر میدانی فورس میں آئے ۔۔کئی مہمات سر کئے ۔۔قلم کے دھنی رہے ۔۔شاعری کی ۔۔اپنے گھر آنگن ، اپنی تہذیب ،اپنی ثقافت سے محبت کی ۔۔اپنے ہاتھوں سے کام کرنے کو اپنی جوانمردی کا معیار اور محنت کو کامیابی کی کنجی سمجھتا رہا ۔۔خود اپنے ہاتھوں سے پودے لگائے ۔ان کو سینچا۔تھانولے صاف کیا ۔۔اپنے بچوں کی بے مثال تربیت کی ۔۔ فطرت کا مطالعہ کیا ۔۔فطرت سے محبت کی ۔۔اپنے باغ کو اپنی زندگی جیسا رنگین بنایا ۔۔چترال کی قدرتی دولت جنگلات سے محبت کی ۔۔اس کی تہذیب کا دلدادہ رہا ۔۔خدشہ رہا کہ ٹنل کھلنے کے بعدیہ تہذیب مٹ نہ جائے ۔۔ مجھے آپ سے دو بار ملاقات کا شرف رہا ۔۔ایک ٹاون ہال چترال میں آپ کی تقریر سنی ایک بار آپکے گھر جانے کا اتفاق ہوا ۔۔دونوں بار مجھے اور ان کے درمیان بڑا فاصلہ رہا درمیان میں ’’بڑے ‘‘ لوگ تھے ۔۔دونوں بار میں ان کو روایتی شہزادگی سے ہٹ کر سوچا ۔۔ان میں وہ رغونت دیکھنے میں نہ آئی ۔۔ اپنی طویل نظم ’’گلائی گلایو جوابار ‘‘سے چند بند سنائے ۔۔خلوص ٹپکتا تھا اچھا لگا ۔۔ان کے پاس بیٹھ کر اپنا ئیت محسوس ہوتی تھی ۔۔اس کی ٹکسالی کھوار،شستہ روزمرے محاورے مزہ دیتے تھے ۔۔ وہ چترال کو اصلیت کے ساتھ محسوس کرتے تھے ۔۔وہ چترال کو ہر الودگی سے پاک رکھنا چاہتے تھے ۔۔وہ نہ زبان کی الودگی چاہتے تھے ۔نہ روایات کی ۔۔۔۔زندگی کا گہرا مطالعہ تھا ۔۔اس کی وفا اور انجام سے واقف تھے اپنا آخری آرام گاہ خود بنا چکے تھے یہ ایک انوکھا تجربہ اور عجیب احساس ہے ۔۔لوگ موت سے ڈرتے ہیں اس کو موت کا انتظار تھا ۔۔وہ موت و حیات دونوں کو ایک جیسے انجائی کر رہے تھے ۔۔مرد قلندروں کی طرح اس کی دوسری دنیا اس کی آنکھوں کے سامنے تھی یہ وہ حقیقت ہے جس سے زندگی کااصل لطف ملتا ہے ۔۔انھوں نے اللہ کی دنیا بہت دیکھی ۔۔تقریبا ادھی دنیا دیکھی ۔۔ان کو مطالعے کا شوق تھا ۔۔فارسی بہت آتی تھی ۔۔اس نشست میں دو چار فارسی شعر لہک لہک کے پڑھے ۔۔
صدف وار گوہر شناسان راز
دہن جز بہ لولو نہ کر دن باز
پھر فرمایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چو آہنگ رفتند کند جان پاک
چہ بر تخت مردن چہ بر روئے خاک
آپ کی موت کی خبر ملی تو یہ شعر بار بار زبان پہ آے ۔۔۔ڈاکٹر فیضی صاحب نے آپ کو ڈیرہ ڈون کا آخری طالب علم کہا ۔۔اس جملے میں کتنی داستانیں پوشیدہ ہیں ۔۔ماضی کے کتنے دریچے ہیں ۔۔ سر زمین چترال نے کیا کیا دور دیکھا ۔۔آج گھر آنگن میں تعلیم کے دروازے کھلے ہیں ۔۔آپ کاشاہی باغ فطرت سے آپ کی محبت کی یاد گا رہے ۔۔آپ کے فرزند ارجمند شہزادہ مسعود الملک جو ایس آر ایس پی کے سی ای او ہیں ۔۔دوسرے شہزادہ مقسود الملک جو سیاحت کا شوق رکھتے ہیں اور چترال سے کئی لوگوں کو بیرون ملک سیاحت پہ بیجے جا چکے ہیں ا۔۔دونوں اپنی روایتی شرافت کی وجہ سے مشہور ہیں ۔۔۹۷سال کی بھر پور زندگی گذار کر شاہی خاندان کایہ آخری چراغ بجھ گیا ۔۔مگر اپنے پیچھے روشنیاں چھوڑ گئے ۔۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ لائیم
تو نے وہ گنجہائے گران مایہ کیا کئے