سیاحت

ضلع استور کی وادی چورت ۔۔۔سیاحوں کی جنت

تحریر: امیرجان حقانی

آپ استور ہیڈکوارٹر سے پندرہ بیس کلومیٹر کا سفرطے کرکے سیاحوں کی جنت وادی چورت پہنچ سکتے ہیں۔ اگر آپ کا سفر گلگت شہر سے ہوگا تو آپ دوتقریبا دو سو کلومیٹر کا سفر طے کرکے چورت کے آخری گاوں روپل تک پہنچ سکتے ہیں۔ روپل نانگا پربت کا بیس کیمپ ہے۔ سیاح لوگ نانگا پربت کی چوٹی کی زیارت اور چوٹی کو سر کرنے کے لیے چورت روپل کا بیس کیمپ بھی استعمال کرتے ہیں۔ رحمان پور ایک یونین ہے ۔ رحمن پور یونین چورت، زی پور، تریشنگ، صالح آباد، ناکے، چورت مین ایریا اور روپل کی وادیوں پر مشتمل ہے۔ بنیادی طور پر یہ علاقہ رحمن پور سے زیادہ چورت سے معروف ہے۔اپریل۲۰۱۷ تک یہ پوری یونین کونسل بجلی کی سہولت سے محروم تھی، تاہم چند ماہ سے منسٹر فرمان علی رانا نے جنریٹر کے ذریعے رات کو تین گھنٹے بجلی دینے کا انتظام کروایا ہے اور ایک بہت بڑا پاور ہاوس بھی تعمیر کروارہے ہیں جو  ذی پور اور تریشنگ کے بیچ میں واقع ہے۔ چورت کے دریا میں تین بڑے نالوں کا پانی ملتا ہے۔ ایک نالہ کشمیر کے پہاڑیوں سے سے ہوتے ہوئے چورت ذی پور کو ملتا ہے، دوسرا نالہ نانگا پربت کی چوٹیوں سے ہوتے ہوئے تریشنگ اورذی پور کو جالگتا ہے اور تیسرا چھوٹا نالہ صالح آباد اور تریشنگ کی درمیانی برفیلی پہاڑیوں سے ہوتے ہوئے دریائے چورت جاملتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سارے آبشار اور ندی نالے اور چشمے ہیں جو مختلف جگہوں سے بہتے بہتے دریائے چورت جا ملتے ہیں۔ چورت کے دریا کا بہاو گرمیوں میں بہت زیادہ ہوتا ہے جبکہ سردیوں میں کافی کمی آجاتی ہے۔ یہ دریا سیدھا جاکر دریائے رٹو سے ملتا ہے اور یہ دونوں دریا دریائے استور سے ملکر دریائے سند ھ میں جاگرتے ہیں۔

چورت ذی پور سے ایک راستہ نکلتا ہے جو سیدھا کشمیر کیل کو جالگتا ہے۔ اس راستے پر بڑے بڑے آبشار اور پہاڑ ہیں اور گھنے جنگلات بھی ہیں۔ یہاں سے سارا سال برف کا ٹھنڈا پانی بڑی مقدار میں بہتا ہے ۔چورت پاور ہاوس بھی اسی پانی سے آباد کیا جارہا ہے۔ چورت کے علاقہ تریشنگ سے ایک نالہ سیدھا جاکر گونرفارم کو لگتا ہے۔ روپل جو نانگا پربت کا بیس کیمپ ہے سے پیدل بارہ گھنٹے کی مسافت پر بونرداس کا بیس کیمپ ہے۔ سیاح نانگا پربت کے لیے روپل اور بونر دونوں کیمپس استعمال کرتے ہیں۔۔چورت میں سال کے آٹھ مہینے برف ہوتی ہے۔ موسم سرما میں یہاں آٹھ فٹ تک برف پڑتی ہے۔ انتہائی ٹھنڈ علاقہ ہے۔ یہاں کے لوگ بہت ہی ملنسار اور مہمان نواز ہیں۔ قدیم روایات اب بھی باقی ہیں۔ پرانی نسل اپنی اصلی ثقافت کو زندہ کیے ہوئی ہے جبکہ نئی پود شہری چال ڈھال میں ڈھل چکی ہے۔نئی پود اور پرانے بزرگوں کے خیالات ، طور و اطور اور لباس تک میں فرق دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہاں لوگوں کو مکان بنانے کا بڑا شوق ہے۔ ٹیم کی چادر چھتوں میں خصوصی طور پر استعمال میں لائی جاتی ہے جس کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ اس سے برف ہٹانے میں بڑی آسانی ہوتی ہے۔

میں نے چورت میں تین دن گزارے۔ ان تینوں دنوں میں تقریبا بیس کلومیٹرپیدل چل کر پورے چورت یعنی تریشنگ، زی پور، ناکے ، صالح آباد اور چورت بازار ایریا کا وزٹ کیا۔ میرے میزبان میرے استاد محترم عبدالحلیم صاحب تھے۔ ان کے ساتھ ایک دن ناکے جانے کا اتفاق ہوا، ناکے چورت کا سب سے اونچائی پر واقع گاوں ہے جہاں سے پوری یونین ہتھیلی میں دکھائی دیتی ہے۔ ایک پورا دن برادرم سرفراز اور اسکول ٹیچر کفایت اللہ کے ساتھ چورت مین ایریا سے زیپور کے آخری سرے تک گیا۔بہت سے ایسے مناظر بھی دیکھنے کو ملے کہ ان سے قدرت کی صناعی پر مزید ایمان پختہ ہوا، میرے بہت سارے اسٹوڈنٹ بھی ملے۔ عبدالواحد نے مجھ سے گریجویشن میں پڑھا ہے۔ ہماری معیت میں بہت سارا پیدل سفر کیا اور چائے نوشی کا انتظام بھی کیا۔ اپریل کے ابتدائی دنوں میں بھی چورت میں سخت سردی لگ رہی تھی۔ ہم نے صالح آباد میں شجرکاری مہم میں بھی حصہ لیا ۔ سفیدہ کے کئی درخت اپنے ہاتھوں سے لگائے۔ یونین رحمان پور میں اہل سنت واہل تشیع کی مشترکہ آبادی ہے۔ اس بڑی یونین ایک ہائی اسکول،  چارپرائمری اسکول ہیں۔پندرہ مساجد اور چارامام بارگاہیں ہیں۔ یہ ایک پرامن علاقہ ہے تاہم کچھ عرصے سے یہاں مذہبی فسادات نے سراٹھایا ہوا ہے۔ ایک غریب باپ کے مظلوم بیٹے کے ناحق قتل نے رحمن پور کی پوری یونین کو کشیدگی کا حوالہ کیا ہوا ہے۔ میری معلومات کے مطابق اس بچے کو انتہائی بے دردی سے پہاڑ کے اوپر لےجا کر قتل کیا گیا ہے اور برف کی ایک کھو میں اس کی لاش چھپائی گئی تھی۔ پولیس کی تفتیش کے بعد اس کی لاش تو مل گئی مگر قاتل اس کا اپنا بھائی نکلا۔ باوثوق ذرائع کے مطابق اس بچے کے قتل میں سرکار کی نااہلی بھی شامل ہے۔ بہر صورت اللہ سے دعا ہے کہ چورت جیسا حسین وجمیل علاقہ مذہبی ولسانی اور دیگر فسادات اور کشیدگیوں سے پاک رہے تاکہ دنیا چورت کا حسن دیکھ لیں۔

چورت میں مجھے خاص طور پر یاک اور زوئے دیکھنے اور ان کی نسل کو سمجھنے کا موقع ملا۔ یاک زوئے وغیر کے  حوالے سے جب میں نے لوگوں سے مکمل آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کی تو خود بھی حیرت میں مبتلا ہوا۔

یاک گلگت بلتستان کا ایک نایاب پالتو جانور ہے۔ یاک انتہائی یخ علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ یاک برف اور برفیلے علاقوں کا پالتو جانور ہے۔ مہادرجے کی گرمائش رکھتا ہے۔ یاک کے اختلاط سے نسل تبدیل ہوتی ہے۔یاک یکمو وغیرہ استور اور بلتستان کے بالائی علاقوں میں پایا جاتا ہے، غذر کے بالائی علاقوں میں بھی یاک کی وافرتعداد موجود ہے۔استور میں پورا گاوں مل کر اس کی پروش کرتا ہے۔ کھیتوں میں اس پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہوتی۔بالخصوص چورت میں تو یاک کو علاقے کا مجسٹریٹ کہا جاتا ہے کہ جس کی کھیتی میں جاکر چرے ، کوئی پابندی نہیں نہ ہی اس کو کھیت سے نکالا جاتا ہے۔ اگر کسی نے کھیت سے نکال کر بھگانے کی کوشش کی تو دوبارہ وہی پہنچ کر پوری کھیت تباہ کرتا ہے۔ چرتا نہیں البتہ اس کھیت میں گھومتے گھامتے برباد کردیتا ہے۔ کچھ بزرگوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ یاک انسانوں کی باتیں سنتا بھی ہے۔ اگر اس کو درخواست کریں کوئی کہ میں غریب آدمی کی فصل برباد نہ کرو تو وہ پھر دوبارہ اس فصل کے قریب نہیں جاتا ۔ واللہ اعلم

یاک سے جانوروں کی جو نسل میں تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے۔ آئیے ہم اس کو بالترتیب سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

۱۔ یاک کا اختلاط، گائے سے ہو تو زوئی (نر) اور زومو(مادہ) پیدا  ہوتا ہے۔

۲۔ یاک کا اختلاط، زومو سے ہوجائے تو گَر(نر) اور گَرمو(مادہ) پیدا ہوتا ہے۔

۳۔ یاک کا اختلاط گَرمو سے ہوجائے تو برنگ(نر) اور برنگمو(مادہ) پیدا ہوتا ہے۔

۴۔ یاک کا اختلاف  برنگمو سے ہوجائے تو یاک(نر) اور یکمو(پیدا) ہوتا ہے۔

۵۔ بیل کا اختلاط زومو، گرمو یا برنگمو  سے ہوجائے تول(نر) تولمو(مادہ) پیدا ہوتا ہے۔

۶۔ یاک کا اختلاط تولمو سے ہوجائے تو زوئی زومو پیدا ہوتا ہے۔

۷۔ بیل کا اختلاط تولمو سے ہوجائے تو دوبارہ بچھڑا پیدا ہوتا ہے۔

چورت کے مقامی عمررسیدہ لوگوں کا کہنا ہے کہ یاک کا اختلاط یکمو سے ہونے کا امکان بہت کم ہے کیوں کہ یکمو پیدائش کے چند ماہ بعد از خود مرجاتی ہے۔ میرے دوست ڈاکٹر رحمت  مراد نے گزشتہ دنوں استورمیں ایک یکمو کا اپریشن کرکے بچہ نکالا تھا تاہم یہ بچہ زندہ نہیں بچا۔اس یکمو کے بچے کے دو سر اور دو دم ہیں۔ میرے پاس اس کی تصاویر موجود ہیں۔ضلع استور لائیو اسٹاک کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر مدثر سہیل نے یاک کے اس عجوبہ بچے کی کھال کو بھوسے سے بھرکر بطور نمونہ اپنے ڈیپارٹمنٹ میں رکھ لیا ہے۔  یاک سے نسل بدل کر پیدا ہونے والے زوئی ، زومو وغیرہ کا گوشت انتہائی لذیز ہوتا ہے۔ گائے کا ایک کلو دودھ اور زومو، گرمو، برنگمو کا ایک پاوں دودھ  برابر ہوتا ہے بلکہ گرمو وغیرہ کا دودھ زیادہ لذیذ، طاقت ور اورمفیدِ صحت ہوتا ہے۔ یہ ذہن میں رہے کہ یاک کی اختلاط سے پیدا ہونے والے تمام نر یعنی زوئی، گَر، برنگ، تُول وغیرہ جنسی طاقت تو رکھتے ہیں اور مادوں کے ساتھ اختلاط بھی ہوتا ہے لیکن ان سے نسل آگے نہیں بڑھتی یعنی یہ سارے بانجھ ہوتے ہیں۔ ایسے عجیب الخلقت جانوروں کی موجودگی پر غور کرتے ہوئے خلقت و قدرت خداوندی پر مزید ایمان پختہ ہوتا ہے ۔

ایک چیز طے ہے کہ ضلع استور میں سیر و سیاحت کے لیے بہت سارے مقامات ہیں۔ تاہم ان حسین مقامات کا آغاز ہیڈکوارٹر گوریکوٹ کے بعد شروع ہوتا ہے۔ آپ گوریکوٹ کراس کرکے دیوسائی کی طرف جائیں یا پھر کالی پانی، رٹو، درلئ جھیل اور چورت وغیرہ کی طرف۔ آپ کو دنیا کا قدرتی حسن یہاں دیکھنے کو ملے گا۔ بونجی سے گریکوٹ تک کا علاقہ نہ حسن رکھتا ہے نہ کوئی اور دلکشی۔ بلکہ سخت پتھریلی اور کھائیوں پر مشتمل کئی وادیاں ہیں جہاں گاڑی چلاتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے۔ تاہم راما جھیل اور اس کے مضافات میں کچھ خوبصورتی ضرور ہے۔ اصل مقامات گوریکوٹ کراس کرنے کے بعد شروع ہوتے ہیں۔ جہاں قدرت نے اپنی ہر قسم کی صناعی دکھائی ہے۔زندگی رہی تو دومیل، دویوسائی اور دیگر حسین مقامات بھی دیکھ لیں گے اور پھر احباب کے لیے ، حسین وادیوں پر مشتمل ایک تحریر قلمبند کریں گے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button