کالمز

سیاحوں کی آمد شروع ۔سہولتوں کا فقدان

گلگت بلتستان کی خوبصورت اور سر سبز وشاداب وادیاں یہاں کے فلک بوس پہاڑ اور جھیلوں کو دیکھنے سالانہ لاکھوں کی تعداد میں سیاح ان خوبصورت وادیوں کا رخ کرتے ہیں گزشتہ کچھ سالوں کے دوران لاکھوں کی تعداد میں سیاح ان علاقوں میں آئے ہیں اور یہاں کا پرامن ماحول اور اس خوبصورت علاقے کو دیکھ کر یہاں آنے والے سیاحوں نے اپنے یار دوستوں تک اس خطے کی مہمان نوازی اور یہاں کی خوبصورت وادیوں کا ذکر ضرور کیا ہوگا جس باعث سالانہ اس خطے میں ملکی وغیر ملکی سیاحوں کی تعداد بڑھ رہی ہے2016میں ایک اندازے کے مطابق تیس لاکھ سے زائد سیاح آئے اور اس سال یہ تعدا د کم ازکم پچاس لاکھ تک پہنچ جائیگی اور بتایا یہ جارہا ہے کہ اس سال ہزاروں کی تعداد میں چائینہ سے بھی سیاح گلگت بلتستان کا رخ کرنے والے ہیں 2016میں صوبائی حکومت نے یہاں آنے والے سیاحوں کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے خطے میں موجود محکمہ پی ڈبیلوڈی کے ریسٹ ہاوس بھی پرائیوٹ سیکٹر کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا تھا مگر تاحال اس میں کوئی پیش رفت ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔

اس وقت گلگت بلتستان میں پی ڈبیلوڈی کے درجنوں ریسٹ ہاوس موجود ہیں مگر ان میں سے زیادہ تر ریسٹ ہاوسسز یا تو ویران پڑے ہیں یا تو ان میں پی ڈبیلو ڈی کے بعض آفیسران قیام کرتے ہیں یا پھر ان کے کوئی رشتہ دار سیر سپاٹے کے لئے کئی جانا چاہے تو وہ ان ریسٹ ہاوسسز میں آرام کرتے نظر آتے ہیں اور اگر سال میں کئی ایک بار اگر کوئی وی ائی پی موومنٹ ہو تو یہ ریسٹ ہاوس اس وقت صرف چند گھنٹے کے لئے ان میں چہل پہل نظرآتی ہے اگر دیکھا جائے تو سالانہ ان ریسٹ ہاوسسز میں ڈیوٹی دینے والے ملازمین کوتنخواہوں کی مد میں حکومت کے خزانے سے لاکھوں روپے ادا کئے جاتے ہیں ان ریسٹ ہاوسسز کا سالانہ امدنی جائزہ لیا جائے تو وہ ہزاروں میں بھی نہیں ہے دوسری طرف صوبائی حکومت نے خطے میں ٹورازم کے فروغ کے لئے بنائے گئے پکنک پوائنٹ کی عمارتوں کو بھی بہتر بنانے اور ان میں سیاحوں کے قیام کے لئے سہولتیں فراہم کرنے کے بھی دعوے کئے تھے مگر ہوا وہی جس کی امید تھی۔ ایک سال قبل حکومت کے زمہ داران نے سیاحوں کی سہولتوں کے لئے جو بلند بانگ دعوے کئے تھے وہ صرف دعوے ہی رہے مگر عملی طور پر کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھایا گیا جس کی تعریف کی جاسکے۔

اس وقت خطے میں جتنے بھی ٹورسٹ پکنک پوائنٹ بنے ہیں وہ سارے بھوت بنگلوں کا منظر پیش کر رہے ہیں خصوصا ضلع غذر میں سیاحوں کو بہتر سہولتیں فراہم کرنے کے لئے بنائے گئے پکنک پوائنٹ آثار قدیمہ کی شکل اختیار کرگئے ہیں ان کی عمارتوں کو مکمل ہوئے کئی سال ہوگئے ہیں اور تاحال ویران پڑے ہیں اور بعض پکنک پوائنٹ کی عمارتوں کے دروازوں تک غائب ہیں۔  حالانکہ صوبائی وزیر سیاحت نے کئی بارمیڈیا سے باتیں کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں نے وزیر سیاحت کا قلمدان اس لئے سنبھالا ہے کہ یہ خطے سیاحت کے فروغ کے حوالے سے بہت آگے تک جاسکے مگر وزیر موصوف کا اپنا ضلع جو سیاحت کے حوالے سے بہت ہی مشہور ہے مگر یہاں آنے والے سیاحوں کو جو مشکلات ہیں اس کا اندازہ ہم سے وزیر موصوف کو زیادہ ہے۔

اس وقت غذر کی یہ صورت حال ہے کہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر گاہکوچ میں سیاحوں کی سہولت کے لئے کوئی انفارمیشن سینٹر تک موجود نہیں یہاں آنے والے سیاحوں کو علاقے کے بارے میں درست انفارمیشن نہ ملنے سے انھیں سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے غذر آنے والے سیاحوں کوسب اہم مسلہ ان کی رہائش ہے یہاں بنائے گئے پی ٹی ڈی سی ہوٹلز میں یہ صورت حال ہے کہ دو درجن کے قریب روم ہیں جوکہ یہاں آنے والے سیاحوں کے ساتھ ایک مذاق علاوہ کچھ نہیں جبکہ کھانے پینے کے لئے بھی ان ہوٹلز میں سامان دستیاب نہیں جس باعث یہاں آنے والے سیاحوں کو سخت پریشانی کا سامنا کرناپڑ رہا ہے اگر حکومت اور کچھ نہیں کرسکتی تو کم ازکم ان ہوٹلوں کو ٹینٹ ہی فراہم کر دیں تاکہ یہاں آنے والے سیاحوں کو رہائش کے لئے روم نہیں تو ٹینٹ ہی مل سکے حالانکہ شندور میلہ قریب آرہا ہے مگر سیاحوں کی سہولت کے لئے تاحال ٹورازم کی طرف سے کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔

دوسری طرف یہاں کی خستہ حال سڑکیں ہیں جب 2013میں وفاق میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنی تو ملک کے دیگر علاقوں کی طرح گلگت بلتستان کے عوام بھی یہ امید لگا بیٹھے تھے کہ اب ملک میں (ن) لیگ کی حکومت برسر اقتدار آئی ہے اس وجہ سے گلگت بلتستان کی اہم شاہراہوں کی تعمیر ہوگی اور یہ خطہ ترقی کے میدان میں بہت آگے نکل جائیگا مگر وفاق میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو چار سال پورے ہوئے گلگت بلتستان کی کوئی بھی اہم شاہراہ کی تعمیر نہیں ہوئی حالانکہ لوگ یہ امید لگا بیٹھے تھے کہ جگلوٹ سے سکر دو روڈ، استور سے شونٹر تامظفر آباد روڈ،غذر سے چترال روڈ کی تعمیر ہوگی مگر تاحال یہ حالت ہے کہ ان سڑکوں کی تعمیر نہ ہوسکی سکردو روڈ کے لئے رقم مختص کرنے کی باتیں ہورہی ہے جبکہ گلگت چترال روڈ کو سی پیک میں شامل کرنے کی نوید سنائی جارہی ہے مگر تعمیر کب ہوگا اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا چونکہ سی پیک کے منصوبوں کی معیاد2030 تک ہے غذر کے عوام کی قسمت میں یہ اہم شاہراہ کب اور کس تاریخ سے اور کون سے سال میں اس اہم سڑک کی تعمیر ہوگی اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جاسکتا جبکہ استور اورشونٹر تا مظفر آباد سڑک کی تعمیر کے حوالے سے سابق وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید نے غذر پریس کلب کے اراکین سے میر پور میں ایک ملاقات میں کہا تھا کہ یہ سڑک جلد جلد تعمیر ہوگی اور حکومت آزاد کشمیر فنڈز بھی فراہم کر دے گی جب کہ اس طرح کی بات موجودہ صدر آزاد کشمیر نے بھی کہی ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ ان شاہراہوں کی تعمیر کے لئے یہاں کے عوام مزید کتنا عرصہ انتظار کر تے ہیں چونکہ دنیا امید پر قائم ہے ناامیدی گناہ اس لئے امید لگا ئے بیٹھنا ہے دوسری طرف سی پیک میں شامل سڑک 2030کے اس عرصے میں کسی بھی وقت یہ شاہراہ بھی تعمیر ہوسکتی ہے مگر اس کے لئے انتظار کرنا ہوگا کہ کب اور کس وقت چین کی حکومت غذر اور چترال کے عوام پر مہربان ہوتی ہے ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button