کالمز
کشمیر بھارت کے ہاتھوں سے نکل رہا ہے
عمر حبیب
کیاکشمیر بھارت کے ہاتھوں سے نکل رہا ہے یہ ہے وہ سوال جس پر تمام ماہرین کا جواب ہے کہ ہاں عنقریب کشمیر بھارت کے ہاتھوں سے نکلنے والا ہے ،یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ طاقت کے بل بوتے پر کسی قوم کو زیادہ دیر تک غلام بنانا ممکن نہیں ہے ،ابھی کچھ عرصہ پہلے مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ کے بعد بھارت کے سابق بھارتی وزیر داخلہ پی کے چدم برم بھی مقبوضہ وادی میں بھارتی حکومت کے مظالم پر پھٹ پڑے۔بھارت کی اپوزیشن جماعت کانگریس کے رکن پی کے چدم برم نے نئی دلی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے میری پوزیشن بالکل واضح ہے کہ ہم کشمیر کو کھو رہے ہیں مودی کی پالیسیوں کے باعث کشمیر ہمارے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔بھارت کی موجودہ حکومت اور مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت نے کشمیر کے معاملے پر انتہائی خطرناک راستہ اپنا لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا جو راستہ بھارتی اور ریاستی حکومت نے اپنا رکھا ہے اس سے وادی میں امن نہیں آ سکتا اور نہ ہی عوام کی ہمدردیاں حاصل کی جا سکتی ہیں۔سابق وزیر کا کہنا تھا مقبوضہ کشمیر میں ضمنی الیکشن کے دوران تاریخ کا سب سے کم ٹرن آوٹ اس بات کا اشارہ ہے کہ مودی سرکار کو آگے چل کر وادی میں مزید مشکل وقت دیکھنا پڑے گا۔ حکومت کو مقبوضہ کشمیر میں تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر ایک معتدل پالیسی اپنانی چاہیئے تھی۔کانگریس رہنما نے مودی حکومت اور مقبوضہ وادی کی کٹھ پتلی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا دونوں حکومتوں کو اپنی پالیسی تبدیل کرتے ہوئے کشمیری عوام کے ساتھ کئے گئے وعدوں کے مطابق تمام سٹیک ہولڈزر کے ساتھ بات چیت کریں۔ عوام کے خلاف فوج اور پولیس کا استعمال نہ کیا جائے۔سابق کٹھ پتلی وزیر اعلی فاروق عبد اللہ اور دیگر کے بیانات پر غور کیا جائے تو صاف نظر آرہا ہے کہ کشمیر بھارت کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے یہ الگ بات ہے کہ بھارت اپنی طاقت کے بل بوتے پر کشمیر پر قابض ہے لیکن اندرونی کہانی یہ ہے کہ کشمیر کی نئی نسل یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ بھارت کے ساتھ کسی صورت رہنا نہیں ہے ،برہانی وانی کو اپنا آئیڈیل ماننے والی نسل اب بھارت کے ہاتھوں میں آنے والی ہر گز نہیں ،نوجوان عسکریت پسند برہان الدین وانی کی گذشتہ برس جولائی میں شہادت کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں کا سلسلہ چار ماہ پوری شدت سے جاری رہا اور ان مظاہروں میں سکیورٹی فورسز کی طرف سے طاقت کے بھرپور استعمال سے سو سے زیادہ افراد کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔اس سال بھی حالات میں کوئی بہتری نظر نہیں آ رہی۔اس ماہ سری نگر میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات تشدد کا شکار ہو گئے اور ووٹ ڈالنے کی شرح انتہائی کم رہی۔ جلتی ہوئی پر تیل کا کام سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی اُن دل د ہلا دینے والی ویڈیوز نے کیا جس میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو نوجوان پر تشدد اور ان کی تذلیل کرتے ہوئے دکھایا گیا۔گلی کوچوں میں اب طلبا اور طالبات کی طرف سے شدید احتجاج کیا جانے لگا ہے اور اس احتجاج میں پہلی مرتبہ سکولوں کی بچیاں بھی شریک ہیں۔ سکولوں کی بچیوں کا سکیورٹی اہلکاروں کی گاڑیوں پر پتھراؤ کرنے اور نعرے لگانے کے منظر پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے سربراہ فاروق عبداللہ نے انڈیا کو خبردار کیا ہے کہ کشمیر ان کے ہاتھوں سے نکل رہا ہے۔ جو کچھ فاروق عبداللہ نے کہا ہے اس پر کوئی عذر پیش نہیں کیا جا سکتا اور حکومت کو اس معاملے کے تمام فریقین بشمول پاکستان، عسکریت پسند تنظیموں، قومی اور علاقائی سیاسی جماعتوں، کشمیر میں اقلیتی ہندوؤں سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے اور فوجی حل کے بجائے کسی سیاسی راستے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔انڈیا کے معروف کالم نگار شیکر گپتا کا کہنا ہے کہ کشمیر کی جغرافیائی سرحدیں محفوظ ہیں لیکن انڈیا نفسیاتی اور ذہنی لحاظ سے کشمیر کھو رہا ہے۔ سری نگر میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں صرف سات فیصد لوگوں کا ووٹ ڈالنا اس امر کا آئینہ دار ہے کہ کشمیر میں انڈیا کی آہنی گرفت برقرار ہے لیکن لوگ ان کے ہاتھ سے نکل رہے ہیں۔مقامی نوجوان جو شدید احساس محرومی کا شکار ہیں اور کسی حد تک بے پرواہ بھی وہ اب انڈیا کے خلاف علیحدگی کی تحریک کی قیادت کر رہے ہیں۔ کشمیر میں کُل آبادی کا 30 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کی اکثریت شدید غم و غصے اور ابہام کا شکار ہیں۔نیشنل کانفرنس کے رہنما جنید عظیم مٹو نے کہا کہ‘یہ کہنا غلط ہے کہ کشمیر کا نوجوان بے خوف ہو گیا ہے۔ وہ صرف محرومی اور تذلیل کے احساس سے دوچار ہے۔ جب یہ احساس بڑھتا ہے تو خوف ختم ہو جاتا ہے اور وہ نڈر ہو جاتا ہے۔ اور یہ غیر دانشمندانہ رویہ ہے۔’بھارتی خفیہ ادارے را کے سابق سربراہ امر جیت سنگھ دولت نے اپنی یاداشتوں میں لکھا ہے کہ کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی اور کشمیر بالکل بھی نہیں ہے۔ اور اس وقت جو حقیقت ہے وہ ہے نوجوان میں غصہ اور بھارت کے خلاف لوگوں کی بغاوت۔
ان تمام حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اب زیادہ دیر تک بھارت کیلئے ممکن نہیں کہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہنے کی ضد پر قائم رہے اب ممکن ہی نہیں کہ بھارت کشمیر پر زیادہ دیر تک قابض رہ سکے ،صاف نظر آرہا ہے کہ ظلم کی زنجیر ٹوٹنے والی ہے ،