بچوں کی دنیابچوں کے لئے کہانیاں

خواہشوں کی زنجیر

سبطِ حسن

ایک گاؤں میں ایک لوہار رہتا تھا۔ وہ سارا دن آگ کی بھٹی کے سامنے بیٹھا رہتا۔ لوہا گرم کرتا، اسے کوٹتا اور کسانوں کے لیے ہل، کلہاڑے کے پھل اور درانتیاں وغیرہ بناتا رہتا۔ سردی ہو یا گرمی ، سارا سال اس کا یہی کام رہتا۔

ایک دن شدید گرمی تھی۔ لوہار بھٹی میں لوہا گرم کر کے اسے کوٹ رہا تھا۔ گرم لوہے کا ایک ٹکڑا اس کے جوتے میں جا گرا ۔ اس کے جوتا اتارتے، پاؤں جل گیا۔ لوہا ر کو سخت تکلیف ہو رہی تھی۔ وہ کہنے لگا:

’’لوہار کا کام بہت سخت ہے۔ بھٹی کی گرمی اور پھر گرم لوہے کے ٹکڑے، میں تو اس کام سے تنگ آگیا ہوں۔ بہتر ہوتا، اگر میں پہاڑ پرپڑا ایک پتھر ہوتا۔ پہاڑ پر پڑا پتھر کتنا خوش ہوتا ہو گا۔ پہاڑ پر ہر وقت چلتی ہوا، اسے ٹھنڈا رکھتی ہو گی۔ پھر، پہاڑی پر درختوں کا سایہ بھی تو ہوتا ہے۔ شدید دھوپ میں بھی ٹھنڈک رہتی ہو گی۔‘‘

جب لوہار باتیں کر رہا تھا تو اسی وقت وہاں سے ایک جنّ کا گزر ہوا۔ جنّ نے اس کی باتیں سنیں اور لوہار سے کہا: ’’چلو جاؤ، میں تمہاری خواہش پوری کر دیتا ہوں۔۔۔‘‘

لوہار پتھر بن گیا۔ ایک بڑے پہاڑ کے اوپر اسے رکھ دیا گیا۔ ابھی اس نے تھوڑا سا آرام کیا ہی تھا کہ ایک شخص وہاں آپہنچا۔ یہ شخص پتھر ڈھونڈ رہا تھا تاکہ انہیں کاٹ کر مجسمے بنا سکے۔ اس نے اسی پتھر کو اٹھا لیا جو اصل میں لوہار تھا۔ پتھر کو گھر لے آیا اور لوہے کے اوزاروں سے کاٹنے لگا۔ پتھر چلانے لگا:

’’مجھے سخت درد ہو رہی ہے۔۔۔چوٹوں سے میرا جسم ٹوٹ رہا ہے، میں پتھر نہیں رہنا چاہتا ۔۔۔ بہتر ہے میں پتھر کاٹنے والا بن جاؤں۔۔۔‘‘

جنّ پتھر کی آواز سن کر ہنسا اور اسے پتھر کاٹنے والا بنا دیا۔ وہ پتھروں کی تلاش میں پہاڑوں پر پھر نے لگا۔ اسے مناسب پتھر نہیں مل رہا تھا۔ چلتے چلتے اس کے پاؤں زخمی ہوگئے۔ ان سے خون بہنے لگا۔ سورج کی تیز روشنی سے پتھر تپ گئے۔ اس کے پاؤں جلنے لگے۔ اس نے چلّانا شروع کر دیا:

’’میں پتھر کاٹنے والا نہیں رہنا چاہتا۔۔۔ میں سورج بننا چاہتا ہوں۔۔۔‘‘

جنّ نے پتھر کاٹنے والے کی آواز سنی اور اسے سورج بنا دیا۔ سورج بنتے ہی اسے معلوم ہوا کہ سورج تو لوہار کی بھٹی سے بھی زیادہ گرم ہے۔ تپتے پتھر سے بھی زیادہ گرم ہے۔

’’میں سورج نہیں رہنا چاہتا۔۔۔ چاند، سورج کے مقابلے میں کس قدر ٹھنڈا ہوتا ہے۔۔۔ میں چاند بننا چاہتا ہوں۔۔۔‘‘ سورج سے آواز آئی۔

جنّ نے یہ آواز سنی۔ وہ بہت ہنسا اور اس نے لوہار کو چاند بنا دیا۔ چاند بنتے ہی اسے معلوم ہوا کہ چاند پر تو سورج کی ہی روشنی پڑتی ہے۔ یہ بھی اسی طرح تپتا ہے، جیسے سورج کی تپش سے پتھر تپتا ہے۔ اس نے کہنا شروع کر دیا:

’’مجھے چاند نہیں بننا۔۔۔ مجھے دوبارہ لوہار بنا دو۔۔۔ مجھے اب سمجھ میں آیا کہ لوہار کی زندگی ہی سب سے بہترین ہے۔۔۔‘‘

جنّ نے اس کی بات سنی اور کہنے لگا:

’’تم نے جو کہا، میں نے تمہیں ویسا ہی بنا دیا۔۔۔ اب میں تمہاری فرمائشوں سے تنگ آچکا ہوں۔۔۔تم نے چاند بننے کا کہا، میں نے تمھیں چاند بنا دیا۔ اب تم چاند ہی رہو گے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button