ہر سال کی طرح اس سال بھی ہزراوں کی تعدادمیں سیاحوں نے گلگت بلتستان کا رخ کر دیا ہے اور ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ کے قریب سیاحوں نے خطے کے مختلف مقامات پر ڈیرے ڈال دئیے ہیں اور مزید سیاحوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے ایک اندازے کے مطابق اس سال تیس لاکھ سے زائد ملکی وغیر ملکی سیاح سیر سپاٹے کے لئے گلگت بلتستان پہنچ جائینگے اوریہاں آنے والے سیاح خطے کے پرفضا مقامات نظارہ کرینگے گزشتہ تین سے چار سالوں کے درمیان گلگت بلتستان میں سیاحوں کی آمد کا سلسلہ روز بروز بڑھتا جارہا ہے جس کی اصل وجہ یہاں کا پر امن ماحول اور خطے کے وہ خوبصورت مقامات ہیں جن کو دیکھ یہاں آنے والے سیاحوں خوب لطف اندوز ہوتے ہیں جہاں تک ان سیاحوں کی سہولتوں کا تعلق ہے تو وہ نہ ہونے کے برابر ہے خاص طور پر خطے کے بالائی علاقوں میں آنے والے سیاحوں کو رہائش کے حوالے سے سخت پریشانیوں کا سامنا ہے اس حوالے سے تاحال حکومت نے کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھائے ہیں گلگت بلتستان میں سیاحوں کی سہولت کے لئے جو ٹورسٹ پکنک پوائنٹ بنائے گئے تھے وہ اب اثار قدیمہ کا منظر پیش کر رہے ہیں کروڑوں کی لاگت سے بنائے گئے یہ عمارتیں عرصہ دراز سے لاوارث پڑے ہیں اور ان کی نگرانی کرنے والا بھی کوئی نہیں غذر میں بھی اس طرح کے ایک درجن کے قریب ٹوراسٹ پکنک پوائنٹ موجود ہیں ان کی تعمیر مکمل ہوئے کئی سال گزر گئے ہیں مگر کوئی پرسان حال نہیں ہے ہمارے صوبائی وزیر سیاحت فداخان فدا کا کہناتھا کہ 2017میں گلگت بلتستان آنے والے سیاحوں کو کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہوگی اور جو پکنک پوائنٹ بنے ہیں ان کو بھی استعمال میں لایا جائے گا اور سرکاری ریسٹ ہاوس بھی ضرورت پڑی تو ٹورسٹ کی سہولت کے لئے ان کو بھی استعمال میں لایا جائیگا وزیر موصوف کا یہ اعلان بھی صرف اعلان کی حد تک محدود ہوگیا اب بھی صورت حال یہ ہے کہ غذر سمیت گلگت بلتستان کے اہم مقامات پر بنائے گئے یہ پکنک پوائنٹ اثار قدیمہ کامنظر پیش کر رہے ہیں اور یہ بھی پتہ نہیں کہ یہ عمارتیں کس کی نگرانی میں ہے اگر کوئی ان کی نگرانی کرنے والا ہوتا تو تعمیر شدہ ان عمارتوں کی کھڑکیاں اور دروزے غائب نہیں ہوتے غذر میں بنائے گئے ان پکنک پوائنٹ کی حالت اتنی خستہ حال ہوگئی ہے کہ شاید ان عمارتوں کو دوبارہ تعمیر کرنے کی نوبت ائے دوسری طرف یہاں آنے والے سیاحوں کو دوسرا اہم مسلہ یہاں کی خستہ حال سڑکیں ہیں صرف ہنزہ اور نگر کو چھوڑ کے صوبے کی دیگر سڑکوں کی حالت زار کا اگر جائزہ لیا جائے تو ان علاقوں کی ان کھنڈرات نما سڑکوں پر سفر کر نا ایک عزاب سے کم نہیں 2010کے سیلاب کے بعد یہاں کی سڑکیں مکمل طور پر تباہ و برباد ہوکر رہ گئی ہے جن کی بحالی کے لئے نہ تو پی پی پی کی سابقہ حکومت نے کوئی قدم اٹھایا اور نہ ہی مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت اس طرف کوئی توجہ دے رہی ہے گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت کو دوسال پورے ہوگئے ہیں اب تیسرے سال میں داخل ہوگئی ہے مگر گزشتہ دو سالوں میں صوبے کی ایک بھی اہم شاہراہ کی تعمیر کے کام کا آغاز تک نہیں ہوا ہاں اعلانات بڑے ہوئے جن میں استور مظفر آباد شاہراہ ،گلگت سکردو روڈ ،گلگت غذر روڈ قابل ذکر ہے مگر ان شاہراہوں کی تعمیر تو دور کی بات ہے مرمت تک نہیں ہوئی ہاں حکمرانوں نے اعلانات ضرورکئے کبھی کہاجاتا ہے کہ گلگت سکردور وڈ کی تعمیر کے لئے رقم مختص کر دی گئی ہے بہت جلد کام شروع ہوگا گلگت گاہکوچ روڈ کے کی تعمیر کے لئے ڈیڑہ ارب روپے رکھے گئے ہیں گلگت استور روڈ کی تعمیر بھی بہت جلد شروع ہوگی اور یہ کہنانیاں خطے کے عوام گزشتہ دو سالوں سے سنتے ارہے ہیں مگر عملی طور پر دیکھا جائے تو ان علاقوں میں ایک کلومیٹر سڑک بھی تعمیر نہیں ہوئی ہے ہاں یہ ضرور ہو اکہ غذر کے ہیڈ کوارٹر گاہکوچ سے بیارچی تک روڈ کی توسعی منصوبے پر جاری کام کو روکا گیا اس اہم منصوبے کو کیوں ختم کیا گیا اس کی وجوہات کو وقت کے حکمران ہی بہتر بیان کر سکتے ہیں اب چونکہ وفاق میں (ن) لیگ کی حکومت ہے اس کے باوجود بھی گلگت بلتستان کی اہم شاہراہیں تعمیر نہ ہو تو اب مسلم لیگ (ن) کی وفاق میں حکومت کی مدت ختم ہونے میں ایک سال سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے گلگت بلتستان کے حکمران وفاق میں اپنی حکومت سے فائد ہ نہ لے سکے تو کل وفاق میں کسی اور پارٹی کی حکومت بنے تو ایسے میں ان شاہراہوں کی تعمیر کی بات کر نا دیوانے کے خواب کے علاوہ کچھ نہیں چونکہ گلگت بلتستان میں مسلم لیگ (ن) کی جب حکومت بنی تو عوام کی (ن) لیگ کی حکومت سے بڑی توقعات وابسط تھی اور یہاں کے عوام یہ توقع رکھتے تھے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ملک کے دیگر شہروں میں سڑکوں کا جال بچھایا ہے گلگت بلتستان کی خستہ حال سڑکوں کوبھی موٹر وے بنا دئیے جائینگے مگر دو سالوں میں موٹر وے تو دو کی بات خطے کی اہم شاہراہوں کی مرمت تک نہیں ہوئی ایسے میں یہ توقع رکھنا کہ صوبے کی اہم شاہراہوں کی تعمیر ہوگی سوائے بیوقوفی کے علاوہ کچھ نہیں ۔