بلاگز

خود پسندی ۔۔۔ ایک ذہنی بیماری

آئی ایم دی بیسٹ۔۔۔ میں سے سب اچھاہوں کا یہ فارمولا درحیقیقت ایک ایسی ذہنی بیماری ہے جو انسان کو اپنے علاوہ کسی دوسرے کے بارے میں سوچنے سے منع کرتی ہے اور اگر یہ بیماری ایک انسان میں ہو تو اس کے اثرات کم اور علاج ممکن ہوتا ہے۔ مگر خطرناک صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی قوم، گروہ، یا قبیلہ اس بیماری میں مبتلا ہو تو یہ بیماری تقریباً لاعلاج اور نقصانات پوری انسانیت کے لئے گمبھیر ہوجاتے ہیں اور اس بیماری کو نرگیسیت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مبارک حیدر اپنے کتاب "تہذیبی نرگیسیت” میں پاکستان کے مسلمانوں کو نرگیسیت کا مریض قرار دیکر یوں رقمطراز ہے” کہ ہم یعنی کہ پاکستانی مسلمان ہر مسئلے میں نرگیسیت کے شکار ہیں اور اس کا ایک سادہ سا مثال یوں پیش کرتا ہے کہ ہمارا جب ہندوستان کے ساتھ کرکٹ کا میچ ہوتا ہے تو ہم شور مچا رہے ہوتے ہیں کہ یہ اسلام اور کفر کا مقابلہ ہے اور اس میچ میں جیت ہماری ہوگی کیونکہ اس میں ٹیم کی محنت اور قوم کی دعائیں شامل ہیں اور اللہ تعالی ہمیں کبھی مایوس نہیں کریں گے” حالانکہ ہمیں معلوم ہے کہ پاکستان کی کل آبادی سے زیادہ مسلمان ہندوستان میں آباد ہیں اور ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ کیا وہ اپنے ٹیم کے لئے دعا نہیں کرتے اور یہ بھی کنفرم ہے کہ ٹیم میں کئی ایک مسلمان کھلاڑی بھی موجود ہوتے ہیں۔ مگر نرگیسیت ہمیں اندھا بنا دیتی ہے اور ہمیں خود کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آتی۔ ہماری حالت یوں ہے کہ ہم خود کو اللہ تعالی کے برگزیدہ لوگوں میں شمار کرتے ہیں اور تمام تر خدائی صفات اور برکات کو اپنے لئے ہی مختص کردہ مہرباتی تصور کرتے ہیں اور جب دنیا میں ان مہربانیوں اور برکات سے محروم رہتے ہیں تو ہمارے بیمار ذہین کے رہنما یہ کہہ کر ہمیں باور کراتے ہیں کہ یہ مہربانیاں اور نعمتیں دنیا کے لئے نہیں ہیں بلکہ یہ آخرت میں ہمیں ملیں گے۔ اور اگر کوئی یقین نہیں کرتا تو یوں مطمئِن کیا جاتا ہے کہ یہ فانی دنیا مسلمانوں کے لئے نہیں ہے اور اس دنیا میں مسلمانوں کے لئے آزمائشوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے کیونکہ آخرت کی ساری خوشیاں اور راحتیں ہمارے لئے رکھی گئی ہیں وغیرہ وغیرہ۔

چونکہ مسلمان مختلف مسلکوں میں تقسیم ہوئے ہیں اور ایک مسلک کے پیرو کار اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر تصور کرتے ہیں۔ مگر بحیثیت مسلم قوم دوسرے اقوام کے بارے میں ہمارے خیالات ایک جیسے ہیں۔ ہم دوسرے اقوام خصوصاً بھارت کے ہندو براداری کے لوگوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور انہیں تنقید کا نشانہ بنا رہے ہوتے ہیں۔ اور انہیں دشمن بھی سمجھتے ہیں کیونکہ ریمنڈڈیوس اور کلبوشن کے معاملے میں انصاف کا جو دہرا میعار اپنایا گیا، وہ درحقیقت ہماری قومی بیماری ہی کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ ہمارے اخلاقیات انتہائی کمزور ہیں اور تعلقات بنانے سے پہلے انسانی اصولوں کے بجائے سامنے والے کی ذات، معاشرتی اسٹیٹس، نسل اور مذہب کو فوقیّت دیتے ہیں اور جب مفاد نظر آئے تو تمام نفرتیں بھلا کر تعلقات استور کرتے ہیں۔ مگر کسی حد تک ہمیں نیچلی ذات کا ہندو ہمیشہ برا اور جہنمی نظر آتا ہے اور ان کے ساتھ بیٹھنا، کھانا پینا، یا تعلقات بنانا گناہ کبیرہ تصور کرتے ہیں مگر دوسری طرف ششمیتا سین کی زبانی تلاوت کلام پاک کو فخر سے سن رہے ہوتے ہیں اور شیر کرتے ہیں اور جوہنی لیور کی زبانی ڈائمند جوبلی کی مبارکباد پر فخر کرتے ہیں اور نیت صرف ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔

 انسانیت جو کہ حضرت انسان کے رنگ، ذات، قوم قبیلہ، مذہب، شکل و صورت یا پھر جسامت یا پھر کوئی معاشرتی اسٹیٹس کے پابند نہیں ہوتی اور نہ ہی پہچان! بلکہ ان زریں اصولوں سے پہچانی جاتی ہے جن کے واسطے انسان کی تخلیق ہوئی اور وہ ہے درد دل! مگر انسانیت اس وقت ذلیل ہوتی ہے جب ایک انسان انسانیت کو بھلا کر صرف اپنے لئے سوچنا شروع کرتا ہے۔ اور یہ ممکن نہیں کہ ہر انسان اسطرح کی حرکت کر سکے کیونکہ یہ انسانی خصلت میں ہی نہیں، اس کی تخلیق میں ہی نہیں ہے کہ وہ صرف اپنے لئے ہی سوچے، بلکہ اسے درد دل کے واسطے پیدا کیا گیا ہے اور اگر اس کے باوجود بھی کوئی انسان اسطرح سوچتا ہے تو یقیناً کوئی نہ کوئی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے اور وہ بیماری ہے خود پسندی یعنی نرگیسیت ! جو پاکستان کے مسلمانوں کو بری طرح متاثر کر رکھی ہے۔ جو اپنے علاوہ پوری امت بلکہ انسانیت کے لئے مسئلہ بنتے جارہے ہیں۔ اگر بحیثیت قوم اپنی اصلاح نہ کر پائے تو یقیناً رہتی دنیا میں ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button