لگتا ہے کہ پانامہ کا اثر گلگت بلتستان کی حکومت پر بھی ہوا ہے جو تمام امور چھوڑ کر صدمے کی صورتحال کا سامنا کر رہی ہے۔ جو پھرتی اور جذبہ اس حکومت کے ابتدائی دنوں میں دیکھائی دیتا تھا اب وہ نظر نہیں آتی ۔
وزیر اعلیٰ ہاوس کے سامنے سڑک کی تزین و آرائش کا کام گذشتہ ایک سال سے جاری ہے مگر صرف چندسو فٹ لمبائی پر مشتمل اس سڑک کی تزین و آرائش مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ شہر کی سڑکیں اس حکومت کے آنے کے بعدابتدائی دنوں میں کچھ بہتر ہوگئی تھیں مگر اب پھر وہی صوتحال ہے ریور ویوو روڈ پر دیواروں کے ساتھ لٹکے ہوئے چند ٹائر اور ان کے اندر رکھے گئے بناوٹی پھول نظر ضرور آتے ہیں۔ کچھ دیواروں پر نقشے بھی بنائے گئے ہیں اس کے علاوہ کوئی کام نظر نہیں آتا۔ ہاں یہ ضرور ہوا ہے کہ کچھ زیر التوا ء پرانی سکیمیں گذشتہ دنوں مکمل ہوگئی ہیں۔ نئی کسی سکیم کا وجود نظر نہیں آتا۔ یونیورسٹی روڑ، کنوداس روڑ، بسین روڑ، ریورویو وروڑسمیٹ شہر کی کئی رابطہ سڑکوں کی حالت وہی ہے جو دو سال قبل تھی۔ صفائی والے رکشے بھی ڈھیلے پڑ گئے ہیں۔ پہلے کی طرح جگہ جگہ نظر نہیں آتے۔گلگت شہر میں بجلی کی حالت ضرور بہتر ہوئی ہے مگر اس کی اصل حالت کا پتا تو سردیوں میں لگ جائے گا۔ بلتستان ، غذر، دیامر، استور اور ہنزہ، نگر سے بدستور آہ وبکا ہورہا ہے ۔ اس حکومت کے ابھی دو سا ل مکمل ہورہے ہیں اس کے باوجود مسائل کے حل میں مناسب پیش رفت دیکھائی نہیں دے رہی ۔ آئینی حقوق کا مسلہ بھی جوں کا توں ہے ۔سکولوں اور ہسپتالوں کی حالت قابل رشک نہیں ہے۔ بے روزگاری کے خاتمے کے لئے کوئی ٹھوس پالیسی نظر نہیں آتی۔قوانین سازی کا عمل بھی سست روی کا شکار ہے۔ اہم امور ہیں جن پر قانون سازی درکار ہے ۔
وزیر اعلیٰ اور ان کی ٹیم آئے روز عوام کو نئی امیدیں دلا رہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ بجلی، پانی اور صحت سمیت تمام مسائل کا حل نکا لا جارہا ہے۔ ترقیاتی سکیموں کی جال بچھانے کے منصوبے بن رہے ہیں ۔ اربوں روپے کی نئی سکیمیں جلد شروع ہونگی۔ ان تمام وعدوں اور دلاسوں کے باوجود زمین پر کوئی بڑی تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے۔ اندرون خانہ کیا چل رہا ہے اس کا ہمیں علم نہیں مگر ایسا دکھائے دے رہا ہے کہ بیوروکریسی اور مشیر مل کر وزیر اعلیٰ کوماموں بنارہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ پوری کابینہ دن بھر ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ کر پانامہ کی فلم دیکھتی ہے اور شام کوتھک ہار کر سو جاتی ہے۔ جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ نے گذشتہ دنوں وزیر اعظم کی زیر صدارت پانامہ کے حوالے سے منعقدہ ایک اجلاس میں گلگت بلتستان کے عوام کی طرف سے ان کے شانہ بشانہ کھڑ ے ہونے کا اعلان بھی کیا تھا۔ جس کے بعد نگر کے الیکشن نے ثابت کیا کہ کم از کم گلگت بلتستان کے تمام لوگ وزیر اعظم کے ساتھ کھڑے نہیں ہیں۔ اس ضمن میں سوشل میڈیا میں بھی دلچسپ تبصرے ہوتے رہے ہیں۔
پرانے وقت میں بہترین اپوزیشن کا کردار ادا کرنے والے موجودہ وزیر اعلیٰ فائلوں، بریفنگز اور اجلاسوں میں پھنسے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایوان اقتدار ہمیشہ عام لوگوں کی پہنچ سے دور ہوتا ہے ۔ عوام کے ووٹ لے کر عوام کے درمیان سے کوئی شخص وہاں پہنچ جائے تو کچھ وقت تک ان کے دل و دماغ میں عوام کی یادیں تازہ رہتی ہیں مگر وقت کے ساتھ وہ جاتی رہتی ہیں ۔ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ صاحب اقتدار کو عوام برے لگنے لگتے ہیں وہ ان سے کراہت محسوس کر تا ہے ۔عوام کو جہالت کا طعنہ دیتا ہے اور خود کو عقل قل سمجھتا ہے ۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب اقتدار کا سورج غروب ہونے کی طرف گامزن ہوتا ہے۔ایسے حالات میں عوام کے دلوں سے صاحب اقتدار کے لئے دعا کی بجائے بد دعا ئیں نکلنے لگتی ہیں۔ صاحب اقتدار کو اس نہج تک پہنچانے میں ان کے آزو بازو میں بیٹھے لوگوں کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔
ادھروفاق میں جو کچھ ہورہا ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے جس کے لئے کسی تاویل کی ضرورت نہیں بس وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثا ر کا بیان کافی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وزیر اعظم کو اس نہج تک پہنچانے میں جونئیر اور ناتجربہ کار سیاستدانوں کا ہاتھ ہے جو روز اپوزیشن کی تنقید کا جواب گالم گلوچ سے دینے کے چکر میں خود بھنور میں پھنس گئے ہیں ۔
ایسے میں گلگت بلتستان کی حکومت کو وفاق سے سبق سیکھنا چائیے ۔اپوزیشن کی تنقید کا جواب مکوں، لاتوں اور گالیوں سے دینا حکومت کو زیب نہیں دیتا۔ حکومت کو بردباری اور تحمل کا مظاہر کرنا چاہئے۔ فائلوں کی موشگافیوں سے نکل کر عوام کے درمیان آنا چائیے ۔اخباری بیانات سے عوام کا پیٹ نہیں بھر تا ہے۔ عوام کارکردگی دیکھتے ہیں۔ کارکردگی کے لئے وقت کا تعین بہت ضروری ہوتا ہے ۔وقت گزرنے کے بعد کیا جانے والا کام نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتا۔ آپ جب اقتدار میں آئے تھے تب آپ کے پاس پورے پانچ سال کی مدت تھی اب پلک جھپکتے ہی دو سال گذر گئے ہیں۔ اگلے تین سالوں میں آپ نے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کام کرنے ہیں۔ آپ پالیسیاں اور پیپر ورک کرنے والوں کو بتا دیں کہ آپ کے پاس وقت نہیں ہے آپ کو فورا سے پہلے پیپر ورک چائیے تاکہ آپ اس پر عملی کام کر سکیں۔ آپ اپنے آس پاس بیٹھے لوگوں کو سمجھا دیں کہ پانامہ آپ کا مسلہ نہیں ہے ۔ آ پ بتا دیں کہ آپ کو گلگت بلتستان کے غریب عوام نے منتخب کیا ہے تاکہ آپ ان کے لئے کچھ کر سکیں۔ اگر آپ جی بی کے عوا م کے دلوں کو جیتیں گے تو آپ کی پارٹی کی مرکز میں حکومت رہے یا نہ رہے مگر یہاں آپ ضرور رہیں گے ۔ اگر آپ نے عوام کے لئے کچھ نہیں کیا تو مرکز میں آپ کی حکومت ہونے کے باوجود یہاں آپ کو اقتدار سے دور کرنا عوام کے لئے مشکل نہیں ہوگا۔نگر کا الیکشن آپ کے لئے ٹیسٹ کیس تھا۔ اس کے بعد آنکھیں کھل جانی چاہئے۔
اقتدار ہمیشہ کے لئے کسی کے پاس نہیں ہوتا ۔کمال یہ نہیں ہے کہ اقتدار سے پہلے مقبولیت حاصل کی جائے، بلکہ کما ل یہ ہے کہ اقتدار ملنے کے بعد عوام کے دل جیت لئے جائیں تاکہ تاریخ آپ کو اچھے الفاظ میں یاد کر سکے۔ اقتدار اور اس پر فائز لوگ آتے جاتے رہتے ہیں مگر کردار تاریخ میں زندہ رہتے ہیں۔ اچھے کردار کو اچھے اور برے کردار کو برے الفاظ میں ہمیشہ یاد کیا جاتا ہے۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ لوگوں کے دلوں میں کیسے زندہ رہنا چاہتے ہیں؟