تحریر: رشید ارشد
کہتے ہیں کہ وقت کے ساتھ سب کچھ بدل جاتا ہے اورانقلاب کے طریقے بھی ،پرانی باتیں و فرسودہ روایات بھی اور سیاست کی ہدایات بھی ۔سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ہے ،،یہ تو سنا تھا لیکن سیاست کی آنکھ میں حیا بھی نہیں ہوتی،، اس کا مظاہرہ دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں روز کرتے ہیں ،سیاست میں جوش خطابت اور لفظوں کے جادو کے سحر میں عوام کو مبتلا بھی دیکھا تھا لیکن کھبی سیاسی جلسوں میں نہ تو ناچ گانا دیکھا تھا اور نہ ہی سر سنگیت کی محفلیں اور گالم گلوچ کے سروں سے واسطہ پڑا تھا شاید یہ سب بھی دیکھنا اس قوم کے مقدر میں تھا اب تو روز دیکھتی بھی ہے اور جھومتی بھی ہے ۔تبدیلی آنہیں گئی تبدیلی آچکی ہے ویسے یہ تاریخ کی پہلی تبدیلی اور انقلاب ہے جو دھرنوں اور سر سنگیت سے آرہی ہے اور نوجوان نسل کے کچے دل و دماغ میں آتے جا رہی ہے ہم نے سنا بھی تھا اور چار لفظ پڑھے بھی تھے کہ انقلاب ہمیشہ قربانی دینے سے آتا ہے جان کی قربانی اور مال کی قربانی شاید ہم نے جو پڑھا اور جو سنا وہ سب جھوٹ تھا ،کہتے ہیں کہ جو کان سے سنا وہ جھوٹ جو آنکھ سے دیکھا وہ سچ ہے ،ایسا ہے تو سچ تو یہی ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں کہ انقلاب تو اے ٹی ایم مشینوں سے آیا ،انقلاب تو کچرے کے ڈھیرپر کھڑے اور جگہ جگہ سے پھینکا ہوا کچرا جمع کر کے جس ڈھیر پر کھڑے ہو اس جگہ کے علاوہ باقی ہر جگہ صفائی کرنے کا نعرہ لگانیسے آیا ،وہ سب جھوٹ تھا کہ انقلاب خون سے آتا ہے یہاں تو انقلاب جنون سے آیا ،سر سے آیا اور سنگیت سے آیا ،بھنگڑوں سے آیا اور شور شرابے سے آیا ،ادب و احترام سے نہیں گالم گلوچ سے آیا ،اس نئے انقلاب کو دیکھ کر مجھے انقلاب فرانس کی کہانی افسانہ لگی ،اس انقلاب کو دیکھ کر انقلاب ایران محض کاغذی داستاں لگی اس انقلاب کو دیکھ کر انقلاب الجزائر جھوٹ کا پلندہ لگا ،بات پھر وہی ہے جو سنا وہ جھوٹ جو دیکھا وہی سچ اب ہم نے جو دیکھا اسی کو ہی سچ کہیں گے سچ یہی ہے کہ انقلاب کے راستے بدل چکے ،انقلاب کے طور و اطوار بدل چکے اب اس بات کو کوئی قبول کرے نہ کرے ہم تو کر چکے اس کے سوا ہمارے پاس راستہ ہی کیا کیونکہ میرے بچے بھی دھرنے اور اس نئے انقلاب سے متاثر ہو کر مجھے ،،اوئے،، کہہ کر پکارنیلگے ہیں ۔اب میرے بچے بھی مجھ سے منی ٹریل کا مطالبہ کرتے ہیں صرف میری زندگی کی منی ٹریل مانگتے تو بات بنتی تھی میرے دادا محترم جنہیں میں نے دیکھا تک نہیں ان کی بھی منی ٹریل مجھ سے مانگنے لگے ہیں ،میرے بچے بھی جنوں کے انقلاب کے راہی بن چکے اب میری گھر میں ایک نہیں چلتی کوئی بات کروں تو آگے سے کہتے ہیں کہ آپ صادق اور امیں ہو کہ نہیں ،
ابھی کل ہی کی بات ہے مرا بیٹا مجھ سے مخاطب ایسے انداز میں ہوا کہ بابا نہیں کہا بلکہ ،،اوئے رشید ارشد یہ بتا کہ میں نے جو رقم دینی ہے اسے اپنے اثاثوں میں ظاہر کیوں نہ کیا میں نے کہا کہ بیٹے اب تو نے رقم مجھے دی ہی نہیں تو میں کیوں اپنی آمدن میں ظاہر کروں تو بیٹے کا جواب بھی لاجواب تھا شاید آپ کو آئین کے آرٹیکل 62اور 63سے آگاہی نہیں ایسا ہی تو نا اہلی کیلئے تیار ہو جاؤ ،بیٹے کی بات سے مجھے گھبراہٹ ہونے لگی کہ اب میں کیا کروں جو رقم مجھے ملی ہی نہیں اس کو اپنی آمدن میں کیسے لکھوں لکھتا ہوں تو ٹیکس دینا پڑتا ہے اب اس آمدن پر ٹیکس کیسے دوں جو میرے پاس ہے ہی نہیں لیکن کیا ہے کہ جب بھی انقلاب آتا ہے تو کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نہیں مانتا سو مجھے بھی ماننا ہی پڑے گا ۔قارئین سب بتانے کا مقصد آپ کو یہ باور کرانا ہے کہ اس انقلاب کے بعد یہ توقع عبث ہے کہ آپ محفوظ ہو ہر ایک کو اپنی منی ٹریل ہاتھ میں رکھنی ہوگی اور اب بھول جاؤ کی ماضی کی ،،فرسودہ روایات ،،کو اپناتے ہوئے رشتوں کے احترام ،بڑے چھوٹے کا ادب ،باہمی احترام ،نظریاتی اختلاف کے باوجود احترام کے الفاظ کی فرسودہ روایات پر قائم رہے اب تو جنون کا انقلاب آچکا ہے اب ان فرسودہ روایات کی کوئی گنجائش نہیں نئے انقلاب کے سبق جسے یاد نہیں ہیں تو بھی یاد کرنے ہوں کہ اب یہی انقلاب چلے گا اور یہی سیاست ہوگی ،اب کوئی ضرورت نہیں پرانے کھوسٹ بڈھوں کی اب بڈھے ادب و احترام اور سیاسی بالغ نظری کی باتیں اپنی جیب میں رکھیں ہاں یاد آیا جیب میں تو اب ہر گز نہ رکھیں کیونکہ کسی بھی وقت تلاشی ہو سکتی ہے تلاشی کی صورت میں صرف آمدنی پر سرزنش نہیں ہوگی بلکہ سیاست میں ادب و احترام کی باتیں چھپا کر جیب میں رکھنے سے بھی انقلاب کی خلاف ورزی ہوگی ہر طرف ایک ہی نعرہ گونج رہا کہ صاف چلے گی شفاف چلے گی اب ایسے صفائی کے ماحول میں کسی کی جیب سے ادب احترام اور شائستگی کی پوٹلی نکلے گی تو اس کو انقلاب جنون کا ہر حال میں سامنا کرنا ہی ہوگا یہ ہے انقلاب جو نوجوانوں نے لایا ،قوم کو نیا انقلاب مبارک ہو، جاتے جاتے ایک اور بات ویسے میں سوچ رہا کہ کاش اس انقلاب کے طریقے کا دنیا کو پہلے پتا ہوتا تو کیا ہی اچھا ہوتا لاکھوں لوگ انقلاب کے نام پر اپنی زندگیاں قربان نہ کرتے لاکھوں انقلاب میں گردنیں کٹا کر مٹی میں دفن نہ ہوتے ،خیر ماضی کا کیا ہو سکتا ہے اب اس میں قصور تو ان قوموں کا ہے جنہوں نے دھرنوں اور سر سنگیت سے انقلاب لانے کی بجائے انسانوں کی قربانیاں دیں ،قارئیں بات لمبی ہو گئی مجھے جانا ہے ضروری کام یاد آیا مجھے بھی اس انقلاب میں شامل ہونے کیلئے پرانے سبق بھول کر نئے سبق یاد کرنے ہیں اب اس عمر میں اتنی آسانی سے سبق بھی یاد نہیں ہوتے ہاں مگر اس عہد کے بچے،، انقلاب جنوں،، سے پڑھے ہیں جن کا پہلا لفظ،،اوئے،، سنتے ہی ہمیں تمام سبق یاد ہوتے ہیں ،آپ کو بھی مشورہ یہی ہے نیا سبق یاد کرنے کی کوشش کریں نہیں ،انقلاب جنون میں سزا کیلئے تیار ہو جاؤ۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button