کالمز

گلالئی کو ہدایات دینے والا باریش شخص ہی اصل ہیروہے

وہ باریش شخص کون تھا جو دوران پریس کانفرنس عائشہ گلالئی کے ساتھ بیٹھا تھا بعد ازاں روسٹم کے پیچھے سے گلالئی کو ہدایات دے رہا تھا؟یہ وہ سوال تھا جو اسی دن رات گئے تک ٹی وی چینلز پوچھتے رہے جس دن تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی گلالئی نے ایک دھواں دار پریس کانفرنس میں اپنی ہی جماعت کے سربراہ پر بد کرداری کے الزامات لگاتے ہوئے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔اگلے دن اسی باریش شخص کی تصویر جب پاکستان کی سکواش چیمپئین ماریہ طور پکئے کے ساتھ چھپ گئی تو انکشاف ہوا کہ وہ شخص رکن قومی اسمبلی عائشہ گلالئی اور پاکستان کی معروف سکواش کھلاڑی ما ریہ طور پکئے کا والد شمس ا لقیوم وزیر تھا۔

شمس القیوم کا تعلق پاکستان میں طویل عرصے تک دھشت گردی کا شکار رہنے والے قبائلی علاقہ جنوبی وزیر ستان سے ہے ۔پیشے کے اعتبار سے وہ ایک معلم ہیں اور ان کو انگلش ادب سے خاص شغف ہے۔ اسی لئے انہوں نے اپنی بیوی کو بھی انگلش پڑھنے اور لکھنے کی ترغیب دی ۔ان کی بیوی بھی پیشے کے لحاظ سے ایک استانی ہیں اورانگلش ادب سے شغف رکھتی ہیں۔ شمس القیوم کا تعلق اپنے روایتی قبیلے کے اندر ایک سیاسی خاندان سے ہے اور ان کا شمار اپنے قبیلے کے معتبر لوگوں میں بھی ہوتا ہے۔ ان کے بھائی فرید اللہ سنیٹر تھے جو دہشت گردی کی ایک کارروائی میں قتل ہوئے۔شمس القیوم کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔

شمس القیوم بنیادی طور پر خواتین کی امپاورمنٹ اور مردوں کے برابر حقوق کے قائل ہیں ۔ انہوں نے نہ صرف اپنی بیوی کو تعلیم اور ہنر کے ذریعے خودمختار بنایا بلکہ اپنی بیٹیوں کی تعلیم و تربیت اور ان کو اپنے پسند کے شعبوں کا انتخا ب کر کے ان میں نام کمانے کی ترغیب بھی دی۔ وہ اپنی بیٹی ماریہ طور پکئے کی سپورٹس میں نام کمانے کی خواہش کی تکمیل کے لئے آخری حد تک گئے ۔

ان کے لئے یہ مشکل تھا کہ وہ اپنی بیٹی کو اپنے علاقے کی روایات کے برعکس سپورٹس کے میدان میں اتارتا۔ اس لئے انہوں نے اس کے حل کے لئے ایک عجیب وغریب ترکیب پر عمل کیا۔ انہوں نے اپنی بیٹی ماریہ طور پکئے کو لڑکوں کا لباس پہنایا اور سپورٹس کے شوق کی تکمیل کے لئے لڑکوں کے بیچ میں چھوڑ دیا۔ ماریہ ابتدائی طور پر ویٹ لفٹنگ کے کھیل میں گئیں جہاں اس نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ۲۰۰۲ ؁ء میں ماریہ کو ان کے والد نے لڑکوں کالباس پہنایا اور ان کا جعلی نام چنگیز خان رکھ کر پشاور میں ویٹ لفٹنگ کے مقابلے کے لئے میدان میں اتارا۔ اپنے بھائی کے ہمراہ لاہور میں نیشنل مقابلوں میں حصہ لینے کے دوران ان سے پیدائش کا سرٹفکیٹ مانگا گیا۔ نیز ان کے بھائی نے ان کو جب ویٹ لفٹنگ کے کھیل کا لباس پہننے سے منع کیا تو اس دوران انکشاف ہوا کہ وہ لڑکی نہیں بلکہ لڑکا ہے۔

اس کے بعد اس نے خود کو لڑکا ظاہر کرنا چھوڈ دیا اور ویٹ لفٹنگ کی جگہ سکواش میں دلچسپی لی ۔ جب لوگوں کو پتا چلا کہ وہ لڑکی نہیں لڑکا ہے تو روایاتی انداز میں ان پر طنز کے تیر برسنے شروع ہوگئے۔ ماریہ کو اسکواش کے کھیل کا جنون کی حد تک شوق تھا ۔اس لئے ان کے والد نے ان کے لئے مختلف جگہوں میں پریکٹس کا انتظام کیا۔

۲۲ نومبر ۱۹۹۰ ؁ء میں ایک سخت قبائلی اور مذہبی ماحول میں جنم لینے والی یہ بہادر لڑکی اپنے باپ شمس القیوم کی پشت پناہی میں ۲۰۰۶ ؁ء میں پاکستان میں سکواش کی مشہور کھلاڑی بن گئی۔ یہاں تک کہ ۲۰۰۷ ؁ء کو ملالہ یوسف ذئی  پر قاتلانہ حملے سے محض دو سال قبل طالبان کی طرف سے شمس القیوم اور ان کے اہل خانہ کو باقاعدہ قتل کی دھمکی دی گئی۔

اس دوران نیشنل ا سکواش فیڈریشن کی طرف سے ماریہ اور ان کے اہل خانہ کو سیکورٹی فراہم کی گئی ۔ وہ سیکورٹی کے حصار میں کھیلنے آتی اور واپس گھر چلی جاتی تھیں۔ ماریہ نے ۱۲ سال کی عمر میں لاہور میں جونئیر سکواش چیمپئن شپ میں حصہ لیا اور مقابلہ جیت لیا۔۲۰۰۷ ؁ء میں ماریہ کو صدر مملکت کی طرف سے سلا م پاکستان نیشنل ایوارڑ سے نوازا گیا۔

اس دوران انہوں نے مختلف مقابلوں میں بھی حصہ لیا ۔ وہ سکواش کے مخصوص لباس میں لوگوں کو پسند نہیں آئی۔ لوگ اس کو روایات اور مذہب کے خلاف گردانتے رہے۔ ان کی بڑھتی ہوئی شہرت سے خائف ہوکر لوگوں نے ان کے والد کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی بیٹی کو اس کام سے روکے اور خود تبلیغ کے لئے چلا جائے۔مگر شمس القیوم وزیر نے اپنے عزم کو برقرار رکھا ۔ ان حالات کی وجہ سے ماریہ نے خود کو تین سال گھر میں بند کئے رکھا اور گھر میں ہی پریکٹس جاری رکھی۔ سارا سارا دن گھر کی دیواروں پر ریکٹ سے گیند مارتی رہی جس سے ہمسایے بھی تنگ آگئے مگر اس نے اپنی مشق ترک نہیں کی۔

شمس القیوم نے سوچا کہ ان کی بیٹی کے لئے بڑھتے ہوئے خطرات کا کوئی حل نکالا جائے ۔ چنانچہ انہوں نے ماریہ سے کہا کہ وہ کسی بین القوامی اکیڈمی میں داخلہ لے کر یہاں سے چلی جائے ۔ اس دوران ماریہ نے دنیا بھر کے سکواش کے سکولوں ، اکیڈمیز اور ٹریننگ سینٹرز کو خطوط لکھے ۔ ان خطوط میں سے ایک کے جواب میں سکواش کے ایک سابق کھلاڑی جوناتھن پاور نے ۲۰۱۱ ؁ء میں ماریہ کو پریکٹس کے لئے ان کی اکیڈمی جو ائن کرنے کی دعوت دی جو کہ انہوں نے قبول کیا اور ٹورنٹو کینڈا منتقل ہوگئیں۔ اب وہ وہاں مقیم ہیں اور دنیا بھر میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے سکواش کھیلتی ہیں۔ وہ پاکستان کی سب سے بہترین سکواش کی خاتون کھلاڑی سمجھی جاتی ہیں اور دنیا کی نامور کھلاڈیوں میں ان کا شمار ہوتاہے ۔ ۲۰۰۹ ؁ء میں انہوں نے ورلڈ جونئیر وویمنزسکواش چیمپئین شپ میں تیسری پوزیشن حاصل کی اور ۲۰۱۲ ؁ء میں ان کو کینڈا کی خاتون اول نے سالانہ وائس آف ہوپ ایواڑ سے نوازا۔ گذشتہ دنوں انہوں نے پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لئے ایک فاونڈیشن کی بھی بنیاد رکھی ہے۔

شمس القیوم کی دوسری بیٹی عائشہ گلالئی ، ماریہ طور پکئے کی بڑی بہن ہیں ۔ وہ پشاور یونیورسٹی سے ماسٹرز کر چکی ہیں۔ وہ ابتدائی طور پر اپنے باپ کے زیر سایہ ایک سماجی کارکن کے طور پر اپنے علاقے میں کام کرتی رہی ہیں۔ بعد ازاں وہ آل پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن بھی رہی ہیں ۔ ۲۰۰۸ ؁ ء میں پیپلز پارٹی ان کو قبائلی علاقوں کی مخصوص نشستوں میں سے ایک پر رکن اسمبلی کے انتخاب کے لئے ٹکٹ دینا چاہتی تھی مگر عمر کم ہونے کی وجہ سے ان کو ٹکٹ نہیں دیا گیا ۔ بعد ازاں وہ تحریک انصاف میں شامل ہوگئیں اور ۲۰۱۳ ؁ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر وہ قبائلی علاقوں سے رکن اسمبلی منتخب ہوگئیں۔ اس دوران انہوں نے اپنی تعلیم جاری رکھی اور وہ عنقریب پی ایچ ڈی کی سند بھی حاصل کرنے والی ہیں۔یکم اگست کو انہوں نے ایک پر ہجوم پریس کانفرنس میں پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین پر خواتین کے ساتھ بد سلوکی اور خیبر پختون خواہ میں اپنی حکومت کے کرپشن پر پردہ ڈالنے جیسے سنگین الزامات لگاتے ہوئے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا ۔

اسی پریس کانفرنس میں گلالئی کے والد شمس القیوم بھی ان کے ساتھ تھے۔ لوگوں کا خیا ل ہے کہ اس سارے کھیل کا مر کزی کردار شمس القیوم ہیں۔ مگر سوچنا یہ ہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والا معلم جو کہ خواتین کے حقوق کا علمبردار بھی ہے اس نے اپنی تمام تر روایات کو توڑتے ہوئے ، دھمکیوں اور خطرات کو خاطر میں لائے بغیر خود پس پردہ رہ کر سال ہا سال کی محنت سے اپنی بیوی اور بیٹیوں کو کیسے حقیقی معنوں میں امپاور کیا ہے؟کیاوویمن امپاورمنٹ کی اس سے بڑی مثال کہیں مل سکتی ہے ؟ بیوی کواستانی بھی اور انگلش کی ماہر بھی بنایا، ایک بیٹی کو عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی بنانے تک کتنے پاپڑ بیلے اور ایک بیٹی کو پاکستان کی سیاست میں نمایا ں مقام تک لایا جنہوں نے اپنے مختصر سیاسی کیرئیر میں پاکستان کی سیاست میں ہلچل مچا دی ۔ ہر لمحہ اور ہر وقت وہی باریش شخص اپنی بیٹیوں کے پہلو میں چٹان بن کر کھڑا رہا ۔

شمس القیوم وزیر ایک ایسا مثالی اور چھپا ہوا کردار ہے جو اگرچہ اس پریس کانفرنس میں موجود تھا، لیکن لوگ ان کو نہیں پہچان سکے،

حالانکہ اصل ہیرو تو وہی تھا۔ جس کو لوگ محض ایک باریش شخص کہتے رہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button