مولانا فضل الرحمان کی سیاست سے تو اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان کی دور اندیشی اور سیاسی فراست پر ان کے مخالفین بھی انہیں داد دینے پر مجبور نظر آتے ہیں ۔مولانا کی سیاسی پیشگوئیاں کبھیغلط نہیں ہوتی ہیں ،سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز کوبھی کچھ پیش گوئیاں کی تھیں کاش کی ان پر عمل کرتے تو آج یہ دن نہیں دیکھنا ہوتا ،،،،،خیر رات گئی بات گئی ،،،،چڑیا چک گئی کھیت ،،،، جہاں ان کی سیاسی فراست اور دور اندیشی مسلمہ ہے وہاں ان کی ،،مردانہ وار سیاست ،،کا بھی ایک مقام ہے ،پارلیمانی سیاست میں نمبر گیم اہم ہوتی مگر نمبر کم ہونے کے باوجود بڑی جماعتوں سے بہت آگے نظر آتے ہیں یہ بھی ان کی ،،مردانہ وار سیاست ہی مظہر ہے کہ وہ سیاست میں مقام مانگتے نہیں بلکہ عزت و احترام سے انہیں سونپا جاتا ہے ۔مردانہ وار سیاستِ ،،،کا اعتراف مولانا اپنی زبانی بھی کر چکے ہیں ابھی کچھ دن قبل جب نئے پاکستان میں والے انقلاب جنون کی خوشیان منا ئی جا رہی تھیں تو جوش خطابت میں ،،قائد انقلاب جنونِ ،، نے جوش خطابت میںآصفعلی زرداری کا پیچھا کر کے سانس بھی نہیں لیا تھا تو مولانا یاد آئے مولاناکو اپنی ،،دعاؤں ،، میں یاد کر نا شروع کیا تو دوسرے دن مولانا نے اخباری نمائندوں کے اس سوال پر کے آپ کا بھی پیچھا کرنے کا اعلان ہوا ہے پر پہلے تو خوب،، مردانہ وار،،، مسکرائے اور پھر سینے پر ہاتھ مار کر فرمایا کہ ،،ہم مردانہ وار سیاست کرتے ہیں ،، مولانا نے مردانہ وار سیاست کا تو اعتراف کیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ،، زنانہ وار ،،سیاست کون کرتا ہے ،ظاہر بات ہے مولانا کی سیاسی تربیت جس عظیم ہستی کی زیر سایہ ہوئی ان کی تربیت آڑے آئی وگرنہ شاید بتا بھی دیتے مولانا نے تو نہیں بتایا لیکن سمجھنے والے سمجھ گئے ہوں گے،،
مولانا صاحب کی بات پر تبصرہ کرنے سے قبل سیاست کی کچھ قسموں پر بات ہو جائے جو آج کل رائج ہو چکی ہیں۔۔مردانہ وار سیاست،،،زنانہ وار سیاست،،،،دھرنہ وار سیاست،،،،جلسہ وارسیاست ،،،،گالیوں کا انبار سیاست،،،،،،بھنگڑہ دار سیاست ،،،،،حیادار سیاست،،،،،با اعتبار سیاست،،،،،بے اعتبار سیاست،،،،دین دار سیاست،،،،،بازار سیاست۔دیانتدار سیاست ۔۔ خوشبو دار سیاست،،،،بدبودار سیاست،،، بات لمبی ہو گئی ۔ار دو گرائمر کے مطابق ہر لفظ کا متضاد لفظ ہوتا ہے،،، اب مردانہ وار سیاست،، اور،، زنانہ وار،، سیاست ایک دوسرے کا متضادہیں تمام قسموں پر تبصرہ پھر کسی نشست میں،، آج بات کرتے ہیں کہ مردانہ وار سیاست کیا ہوتی ہے اور زنانہ وار سیاست کیا ۔ایک واقعہ حضرت مولانا مفتی محمود کے حوالے سے سنا تھا قدرت نے انہیں فہم و فراست اور حاضر جوابی کی نعمت سے سر افراز کیا تھا ۔اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لئے ہال میں داخل ہو گئے تو خواتیں ممبران جن کے سر پر دوپٹہ نہیں تھا مفتی صاحب کو دیکھتیہی خواتین نے سر پر دوپٹہ رکھا تو اس پر ایک مردممبر اسمبلی نے سوال کیا ہے حضرت آپ کے آنے سے پہلے خواتین نے سر پر دوپٹہ نہیں رکھا تھا آپ داخل ہوئے تو دوپٹہ سر پر رکھ لیا کیا وجہ ہے تو حضرت مسکرائے اور جواب دیا جہاں سب خواتین ہوں وہاں عورتوں کو پردے کی کیا ضرورت ،ظاہر بات ہے کسی مرد کی آمد پر ہی خواتین سر پر دوپٹہ رکھتی ہیں ۔یہ واقعہ تو بر سبیلتذکرہ آیااس کی صداقت کا مجھے ادراک نہیں لیکن موقعہ محل کے مطابق خوبصورت جواب تھا۔بات طویل ہو گئی مردانہ وار سیاست پر بات ہو رہی تھی شاید مولانا فضل الرحمان کی سیاست جلسوں اور ان کی نشست و برخاست سے ،،،،مردانہ وار سیاست ،،،عیاں ہوتی ہے ۔۔۔اب مردانہ وار کا متضاد لفظ ۔زنانہ وار بنتا ہے ۔۔مولانا صاحب نے ہم ،،مردانہ وار سیاست،، کرتے ہیں کا لفظ نئے پاکستان کے معمار کی سیاسی دھمکی کے جواب میں کہا تھا اب اگر مولانا نے اپنے سیاسی حریف کیلئے مرادانہ وار کے متضاد لفظ ،،،زنانہ وار،، کا استعمال نہیں کیا شاید ان کے زہن میں یہ لفظ گردش کر رہا ہو لیکن مفتی محمود کی سیاسی تربیت نے زبان پر لانے سے روکا ہوگا ۔ اب اگر انہوں نے زنانہ وار سیاست کون کرتا ہے ان کا نام نہیں لیا تو میں کیوں اظہار کروں سمجھنے والے سمجھتے ہیں آج کل کی دنیا ہوشیار ہے۔مولانا کی مردانہ وار سیاست،ان کی شائستگی ۔فہم و فراست اور سیاسی ویثرن کو سلام۔ اللہ مولانا جیسے سیاسی قائدین کو سلامت ر کھے جو آج کی اس دھرنہ وار اورزنانہ وار سیاست کے بازار میں دین دار سیاست اور حیادار سیاست کے امین ہیں ۔رب سے دعا ہے مولانا کو سلامتی عطا کرے اور قوم کو ادراک عطا کرے کہ وہ ،،دھرنہ وار سیاست،، اور،، زنانہ وار سیاست،، کا فرق معلوم کر یں ۔۔۔۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button