گلگت بلتستان کی سیاست کے ٹھہرے پانیوں میں بھی پانامہ کے فیصلے کاپتھرگرنے سے بھونچال آگیا ہے ،اسمبلی میں دو نشستوں والی پیپلز پارٹی بھی ادھار میں ملنے والے اسلام تحریک کے باغی رکن کی حمایت سے سیاست کے تالاب میں ڈبکیاں لگا رہی ہے ، اقتدار کی کشتی میں چڑھنا تو محال ہے لیکن کشتی میں سوراخ کر کے کچھ کشتی سواروں کو موجوں کی نذر اور کچھ کو اپنی کشتی کا مسافر بنانے کی ضرور خواہش رکھتی ہے ۔پارلیمانی سیاست میں نمبر گیم کی اہمیت رکھتی ہے نمبر گیم میں پیپلز پارٹی اس قابل نہیں کہ اقتدار کی کشتی میں سوار ہو سکے اپوزیشن کی تمام جماعتوں کی بھی اگرحمایت حاصل ہو تو ممکن نہیں ،لیکن کیا ہے اقتدار کا نشہ بھی محبت کے نشے کی طرح اندھا ہوتا ہے اس نشے میں حالت یہ ہوتی ہے کہ ،،لیلی نظر آتا ہے مجنوں نظر آتیہے ،،اقتدار کا روگ بھی عشق کے روگ کی طرح ہے یہ روگ جسے لگے اس کی حالت قابل رحم ہوتی ہے اللہ رحم کرے اقتدار کے نشے میں بعض اوقات انسان آپے سے باہر ہوتا ہے تو بعض اوقات خواب میں اقتدار کی کرسی میں براجمان ہو کر حکم چلانے لگتا ہے تو بعض اوقات مایوسی بھی غالب ہوتی ہے تو حالت یہ ہوتی ہے دن کی روشنی میں رات کی تاریکی نظر آتی ہے خیر اقتدار کا روگ لگ جائے تو انسان حقائق کی دنیا میں نہیں خوابوں کے جہاں میں بسیرا کرتا ہے، گلگت بلتستان میں بھی پانامہ فیصلے کے بعد سیاسی عاشق اقتدار کے روگ میں مبتلا ہو کر یک رکنی جماعتیں بھی، میرے کاسے میں تو اک سوت کی انٹی بھی نہ تھی
نام لکھوا دیا یوسف کے خریداروں میں
،،کے مصداق حکومت کے خلاف جدو جہد میں اپنا حصہ ڈالنے کیلئے سامنے آگئیں،پیپلز پارٹی بھی یک رکنی جماعت سے دو رکنی اور ایک رکن اور جماعت سے ادھار کیا ملا اقتدار کا چپو ہاتھ میں لے کر کشتی چلانے کیلئے تیار نظر آتی ہے ۔پارلیمانی سیاست میں ہمیشہ نمبر کی اہمیت ہوتی ہے گلگت بلتستان میں اپوزیشن جماعتوں کے پاس نمبر اتنے نہیں کہ اقتدار ختم کرنا تو محال پریشان بھی کر سکیں لیکن کچھ اطلاعات حکومت کیلئے کچھ اچھی نہیں اپوزیشن کو اقتدار کا روگ چین سے سونے بھی نہیں دیتا اس لئے مبینہ طور پرگلگت بلتستان کی ایک انٹر نیشل کاروباری شخصیت نے حکومتی کشتی میں اپوزیشن کی مدد سے سوراخ کرنے کیلئے بریف کیسوں کے منہ کھولنے کا فیصلہ کر لیا ہے ،گزشتہ کچھ دنوں سے اس سلسلے میں ملاقاتوں کا سلسہ شروع ہو چکا ہے، اپوزیشن کی تمام جماعتیں بھی مل جائیں تو حکومت کیلئے مشکل پیدا نہیں کر سکتی اسی لئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ حکومتی کشتی کے کچھ سواروں کو کشتی سے اتارا جائے اس لئے کچھ ایسے ممبران اسمبلی کی تلاش ہے جن پر یہ شعر صادق آتا ہو،،،
ہم نے حافظ سے بگاڑی ہے نہ شیطاں سے کبھی
دن کو مسجد میں رہے رات کو میخانے میں
اس سے بھی کچھ نہ ہو تو سیکنڈ آپشن بھی فائنل ہو چکا ہے کہ اسلام آباد کی پریس کانفرنس کو بنیاد بنا کر سیاسی دنگل سجایا جائے اور اس دنگل کے پس پردہ بھی ایک کاروباری شخصیت کے ،،بریف کیس ،،ہیں ۔گلگت بلتستان میں سیاسی دنگل بپا کرنے کے خواہش مند دیگرغیر سیاسی شخصیات جن کے مفادات اس حکومت سے پورے ہونے کی توقع نہیں وہ بھی اس گنگا میں اشنان کرنے کیلئے لنگوٹ کس چکی ہیں ،اس صورتحال میں حکومت مخالف کنارے میں بیٹھ کر یہ دیکھ رہے ہیں کہ کون سے ممبران اور وزراہیں جن کے اس مشکل وقت میں بھی حکومت کے حق میں کچھ کہنے کے بجائے لب سلے ہوئے ہیں ،اپوزیشن کو اس حوالے سے امیدیں بلتستان کے وزرا اور ممبران سے تھیں لیکن گزشتہ روز کی پریس کانفرنس میں سیاسی کھڑاک سے یہ امید بھی دم توڑ گئی بلتستان کے ممبران نے وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان کی حمایت میں بول کر دیگر ممبران کو بھی پیغام دیا کہ
وہ جو دربار سے وابستہ ہیں لب بستہ ہیں
شکر ہے میرے سخن آج بھی بر جستہ ہیں
اپوزیشن تو مرکز میں بھی پر امید تھی کہ مسلم لیگ ن میں نواز شریف کے خلاف فیصلے کے بعد ڈنٹ پڑے گی لیکن ،،ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پردم نکلے ،،کے مصداق مسلم لیگ ن کی کشتی سے کوئی سوار اترا نہیں بلکہ پہلے سے بڑھکر نواز شریف سے وفاداری کے دم بھرنے لگے ،ایسی ہی صورتحال گلگت بلتستان میں بھی ہے کوئی وزیر اعلی گلگت بلتستان کی شخصیت سے ہزار اختلاف کرے لیکن ان کے کردار اور سیاسی بصیرت اور سیاسی قابلیت سے اختلاف کسی کیلئے ممکن نہیں اس لئے اپوزیشن کیلئے بہت مشکلات ہیں کہ وہ مسلم ن کی کشتی کے سواروں کو اتار کر اپنی کشتی میں سوار کرا سکے ،شاید اب وقت بدل چکا ہے سیاست میں کردار کی اہمیت بڑہ گئی ہے اور مسلم ن کی کشتی کے سوار حافظ حفیظ الرحمان کی قیادت اور ان کے روشن کردار کے آگے مال و زر کو ہیچ تصور کرتے ہیں اس لئے تو مسلم لیگ ن کے ممبران اور وزرا خم ٹھونک کر وزیر اعلی کی حمایت میں آگے آچکے ہیں لیکن اس سب کے باوجود اگلے چند ماہ تک گلگت بلتستان میں سیاسی ماحول ابر آلود اور بعض اوقات گرد چمک کے ساتھ تیز سیاسی بارش کی بھی توقع ہے ،کیونکہ حکومت مخالف کاروباری شخصیات اور اپوزیشن یہ بھی سمجھتی ہے کہ اگر حفیظ حکومت کو گرانے کیلئے ایوان میں سیاسی تبدیلی ممکن نہیں تو اسلام آباد والی پریس کانفرنس کو جواز بنا کر عوامی سطح پر شور شرابہ تو کر سکتے ہیں حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ حفیظ الرحمان نے اسلام، آباد کی پریس کانفرنس میں کوئی ایسی بات نہیں کی جس پر معافی مانگیں ہاں مگر اخبارات اور ٹی وہی چینلوں نے سیاق و سباق سے ہٹ کر ان کے بیان کو ضرور پیش کیا ہے اگر اس پر اپوزیشن کو یہ توقع ہے کہ اس پریس کانفرنس کی بنیاد پر وزیر اعلی کیلئے اس طرح کی مشکلات پیدا کی جائیں جس طرح مرکز میں عدالت نے نواز شریف کو نا اہل قرار دیا ہے تو عرض ہے کہ خواب دیکھنے پر کوئی پاپندی نہیں ،اور نہ روز عید ہوتی ہے عید سال میں دو دفعہ ہی ہوتی ہے ۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button