کالمز

دیامر ڈیم اور عوام کی لازوال قربانیاں 

تحریر: راش خان

دیامر ۔ بھاشہ ڈیم کی تعمیری کاوشوں میں اضافہ کے ساتھ ساتھ عوام کے دلوں میں پریشانیاں بھی بڑھتی جارہی ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت نے 1976ء میں اس ڈیم کی فیز یبلٹی سٹڈی شروع کی لیکن اب تک ڈیم پر کام شروع نہیں کراسکا ،تو واپڈا مستقبل میں کیا کام کرے گی۔ کچھ کے زہنوں میں زلزلہ اور سیلاب کے اثرات آتے ہیں۔ جس زاویہ سے بھی اسکو پر کھا جائے۔ متعلقہ محکمہ کی محنت اور خلوص اور ایمانداری مستقبلِ قریب میں اسکو بہت ہی اہم اور فائدہ مند منصوبہ میں تبدیل کرسکتی ہے۔ اس ڈیم کا مقصد زراعت کے لئے پانی کا سٹوریج اور بجلی کی پیدوار ہے۔ ان کی کامیابی سے پاکستان 2 اہم مسائل پر بہ آسانی سے قابو پاسکتا ہے۔ پانی کی فراہمی سے غیر آباد زمینوں کو آباد اور آباد شدہ زمینوں کو صحیح مقدار میں پانی کی فراہمی ہے جو زرعی کفالت کی اہم ستون ہے ۔بڑھتی ہوئی پیداوار میں آسانی سے اضافہ عوام الناس کی خوشحالی کے سبب ہے۔ جبکہ بجلی کی پیداوار سے ملک کی صنعتی ترقی میں بے تحاشا اضافہ ہوگا۔ اس وقت پاکستان کے بہت سے کارخانے بجلی کی نایابی کی وجہ سے بند پڑے ہیں۔ اور کافی مقدار میں بنگلہ دیش اور دوسرے ممالک میں منتقل کیا ہے۔ جو ملک کی ناکامی کی بدترین مثال ہے۔ وطن عزیز کی اس بڑھتی ہوئی ضرورت کے پیش نظر چلاس کے عوام نے اپنی جان و مال کی قربانی دیکر ڈیم بنانے کی اجازت دی بصورتِ دیگر یہ ایک بہت ہی مشکل مسئلہ تھا۔ حکومت کافی رقم خرچ کرنے کے باؤجود بھی کالا باغ ڈیم نہیں بناسکی۔ منگلہ ڈیم کی تعمیر کی صورت میں کشمیر ی عوام کو ہر قسم کی سہولتوں اور مراعات کے علاوہ ہر گھر کے افراد کو انگلینڈاور دوسرے ممالک میں ملازمتیں دیں۔ لیکن چلاس کے عوام کو ملازمت تو درکنا ان کی ملکیتی زمینوں کو معمولی معاوضہ دیکر اُٹھایا۔ عوام کو خوش رکھنے کے بجائے لاشوں کی ڈھیر لگادیا۔ اور اس حد تک کہ باقی بچی زمینوں کو دوسرے کے حوالہ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ ان ساری ظم و بربریت کے باوجود چلاس کے لوگوں نے وہ قربانی دی ہے جس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ تاریخ میں یہ ایک نیا باب کا اضافہ ہے۔ جس طرح گلگت بلتستان کے عوام نے GBکو آزاد رکر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کرکے تاریخ رقم کردی ہے بلکل اسی طرح چلاس والوں نے ڈیم کے سلسلہ میں قربانی دیکر تاریخ رقم کی ہے۔ یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ چلاس اور کوہستان میں کوئی غیر آباد زمین نہیں جس کو ڈیم کے پانی سے آباد کیا جاسکے۔ یہ فائدہ وطن عزیز کے چاروں صوبے لیں گے۔ یہاں کے عوام صرف بجلی استعمال کرسکتے ہی۔ عوام کی اس لازوال قربانی کو کالا باغ کے عوام اور دوسروں سے موازنہ کیا جائے تو چلاس والوں کے قربانی کے ثمرات کھل کر سامنے آئیں گے۔

اس منصوبے کی کامیابی سب پاکستانیوں کی ذمہ داری ہے۔ ڈیم سائٹ سطح سمندر سے 4000 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہاں سالانہ بارش100-150 ملی لیٹر تک ہوتی ہے جس سے درخت یا جڑی بوٹیوں کی افزائش میں کوئی مدد نہیں ملتی۔4000-6000فٹ تک پورا ایریا خشک زمین اور پہاڑ وں پر مشتمل ہے۔ 6000 فٹ سے لیکر 12000 فٹ تک جنگل ، گھاس وغیرہ معمولی مقدار میں موجود ہیں۔ بدقسمتی سے اس جنگل کی غیر قانونی کٹائی نے اس کو بھی آخری کنارے تک پہنچایا ہے۔ سطح سمندر سے12000 سے اوپر چاروں طرف سبز میدان نظر آتے ہیں لیکن یہ ڈیم کی حفاظت میں بہت کم کردار ادا کرتے ہیں۔ ڈیم ایریا میں21 وادیاں ہیں۔ جن کا سلوپ تقریباً 60% سے اوپر ہے۔ معمولی بارش سے سیلاب زمینیں، سڑکیں اور مکانات کی تباہی کرتے ہیں۔ یہ تباہی اس حد تک نہیں بلکہ ڈیم میں Sedimaitationہوتی ہے۔ جس سے واٹرسٹوریج Capacity اور ڈیم کی لائف کو کم کرتی ہے۔ وہ اس لیئے کہ واٹر شیڈ ایریا میں بارش کے پانی کو جذب کرنے اور لینڈ سلائیڈنگ کو روکنے کے لئے درخت اور سبزہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ساری وادیاں اس سے خالی ہیں۔ ماحولیات کی تباہی دوسرا بڑامسئلہ ہے۔ جس سے انسانی زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ واپڈا ابھی تک سوئی ہوئی ہے۔ نہ تو خود واٹر شیڈ منیجمنٹ پر کام شروع کردیا ہے۔ اور نہ ہی محکمہ جنگلات کو ضروری فنڈز فراہم کرکے ان سے کام لیاہے ۔اگر یہ سلسلہ یوں چلے تو ڈیم کو بہت نقصان ہوگا۔ اس لئے واپڈا کو چاہیے کہ فوری طور پر واٹر شیڈ منیجمنٹ پر محکمہ جنگلات GBکے تعاون سے کام شروع کریں۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button