کالمز

 گلگت بلتستان : نوآبادیات کا گمنام گوشہ – قسط 1

تحریر۔ اشفاق احمد ایڈوکیٹ

 کہا جاتا ہے کہ نوآبادیاتی دنیا مخصوص مقاصد کے حصول کو سامنے رکھتے ہوئے پیدا کی گئی دنیا ہوتی ہے، یہ فطری ماحول کی پیداوار نہیں ہے نہ ہی کسی مہذب نظریے کی ارتقاء کا معراجِ ہے بلکہ نوآبادیاتی دنیا ایک ایسی سفاک اور استبدادی دنیا ہوتی ہے جس میں طاقتور قومیں چھوٹی اور کمزور قوموں کے علاقوں پر جارحیت کرکے ان پر آپنا تسلط قائم کرتی ہیں۔ لہذا نوآبادیاتی دنیا میں پائی جانے والی صورت حال کوئی فطری یا منطقی صورت حال نہیں ہے بلکہ مخصوص مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کی تشکیل کیجاتی ہے۔

 یہ انسانوں کے مخصوص گروہ کے ہاتھوں مخصوص مقاصد کے حصول کے لئے برپا کی جانے والی صورتحال ہے اس گروہ کو نوآبادکار کار کا نام دیا جاتا ہے۔ تاریخی طور پر یورپ کے نوآبادکاروں میں تاج برطانیہ اور فرانس بہت مشہور تھے۔

تاج برطانیہ کی کبھی سورج غروب نہ ہونے والی سلطنت دنیا بھر کی نوآبادیات پر مشتمل تھی جو امریکہ سے افریقہ تک اور مڈل ایسٹ سے ایشیاء یک پھیلی ہوئی تھی ۔بدقسمتی سے گلگت بلتستان بھی تاج برطانیہ کی ان بےشمار کالونیوں میں سے  ایک کالونی تھی جہاں دنیا بھر کی نوآبادیات کی طرح ایک پرتشدد نوآبادیاتی نظام رائج کیا گیا، جس کے تحت ذریعے مقامی لوگوں کا سیاسی،معاشی ، معاشرتی اور ثقافتی استحصال کیا گیا، جس کے اثرات اور شاخسانے گلگت بلتستان میں آج بھی موجود ہیں۔

 دنیا بھر کی کالونیوں میں رائج نوآبادیاتی نظام حکومت  Might is right اور Divide and Rule کی پالیسی پر چلایا جاتا ہے نہ کہ تھامس مور کی یوٹوپیا پر، اس لئے

نوآبادیات میں رائج الوقت نظام کی بنیاد  انصاف، مساوات اور برابری کی بجائے ظلم جبر اور تشدد پر رکھا جاتا ہے تاکہ زیر تسلط کمزور اقوام کی قوت، ثقافت اور تہذیب وتمدن کو تباہ کیا جائے اور ان کو فرقہ نسل اور رنگ کی بنیاد پر تقسیم کرکے آپس میں لڑا کر ان کے قومی وسائل پر آسانی سے قبضہ کرلیا جائے ۔

  فرانز فینن ،” افتادہ گان خاک” میں لکھتے ہیں کہ نوابادکار کی دنیا مقامی باشندوں کی دنیا کو خارج کرنے کے اصول پر قائم رہتی ہے۔ تاکہ طاقت ور ملک چھوٹے اور کمزور علاقوں پر آپنا تسلط برقرار رکھ سکے اور ان کے وسائل کا استحصال جاری رکھا جائے۔

  نوآبادکار اپنی نوآبادیاتی ذہنیت کے مظاہرے کے لئے سیاسی وسماجی معاشی تعلیمی شعبوں کو منتخب کرتے ہیں اور ان میں اپنی اییڈیالوجی کا بیج بوتے ہیں۔

فرانز فینن ، البرٹ میمی اور ایڈورڈ سعید تینوں اس بات پر متفق ہیں کہ نوآبادیاتی اقوام نوابادکار کے دیئے ہوئے تصور ذات اور کردار کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کی وجہ سے نوآبادیاتی نظام قائم رہتا ہے۔

 گلگت بلتستان میں رائج الوقت نظام، معروضی حالات، اور تاج برطانیہ کے دور سے رائج نوآبادیاتی قوانین کو سمجھنے سے قبل برٹش انڈیا کے نوآبادیاتی نظام کو سمجھنا ضروری ہے چونکہ گلگت بلتستان 1840سے لیکر 1947تک براہ راست یا بلواسطہ تاج برطانیہ کی ایک کالونی تھی اور یہاں رائج وقت نظام  برٹش انڈیا کے نوآبادیاتی نظام سے بلواسطہ تعلق اور مماثلت رکھتا ہے۔ اگرچہ یکم نومبر انیس سو سینتالیس کی جنگ آزادی گلگت بلتستان کے بعد یہاں سے ڈوگرہ حکومت کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوا اور یہ خطہ پاکستان کے زیر انتظام آیا مگر ستر سال گزرنے کے باوجود آج بھی یہ علاقہ سر زمین بےآئین کہلاتا ہے۔

اس لئے  یہاں رائج الوقت نظام کو سمجھنے کے لیے برصغیر پاک و ہند میں برٹش انڈیا کے دور حکومت میں رائج کالونیل سسٹم  اور قوانین کا تقابلی جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے  کہ درحقیقت 1876 تک تاج برطانیہ نے انڈیا کو اپنی کالونی بنا کر وہاں نوآبادیاتی قوانین متعارف کرایا گیا تھا۔

جن کی باقاعدہ بنیاد ہمیں 1757 میں جاکر ملتی ہے جب برٹش نیوی اور مرچنٹس تجارت کی غرض سے انڈیا پہنچ گئے، اور آہستہ آہستہ برصغیر میں سیاسی اور فوجی کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے گئے اور بلاآخر 23 جون 1757میں جنگ پلاسی میں انڈیا کی شکست کے بعد انڈیا دو سو سال کے لئے برطانوی سلطنت کی تسلط میں چلا گیا۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد 1707 میں ملکہ برطانیہ الزبتھ اول نے رکھی تھی۔

کامن لاء کی انڈیا میں شروعات اس وقت سے ہوا جب 1726 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے مدراس،بمبی اور کلکتہ میں Mayor’s Courts کا قیام عمل میں لایا، اور اس کے ساتھ Indian codified laws کی شروعات ہوئی ۔

برصغیر میں عدالتی نظام متعارف کرانے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کا کردار ایک تجارتی کمپنی سے بدل کر ایک حکمران پاور کی شکل اختیار کرلی۔

1772میں Warren Hastings نے اصلاحات متعارف کرایا اور دیوانی مقدمات کی سماعت کے لیے ڈسٹرکٹ دیوانی عدالت اور فوجداری مقدمات کی سماعت کے لیے ڈسٹرکٹ فوجداری عدالت کا قیام عمل میں لایا جہاں کرمنل مقدمات کی سماعت کے دوران انڈین افسران کی مدد قاضی اور مفتی کیا کرتے تھے جبکہ دیوانی مقدمات کی سماعت ایک کلکٹر کے سپرد کر دی گئی، اس عدالت میں ھندوں کے لیے ھندو قوانین اور مسلمانوں کے لیے مسلم قوانین کے تحت مقدمات کی سماعت کی جاتی تھی۔

کپیٹل سزا دینے سے قبل صدر نظامت کی پیشگی اجازت لینا لازمی ہوتی تھی جسکی سربراہی ڈپٹی نظام کرتا تھا جس کی مدد کے لیے چیف قاضی اور چیف مفتی بھی مقرر تھے۔

اس عدالت کی تمام تر ایڈمنسٹریشن کلکٹر کیا کرتا تھا۔ پھر ریگولییٹنگ ایکٹ 1773کے تحت کلکتہ میں سپریم کورٹ کا قیام عمل میں لایا گیا۔

انڈیا ایکٹ 1784 کے ذریعے تاج برطانیہ نے انڈیا میں براہ راست مداخلت کرنا شروع کیا۔

۔ 1786-1793 کے دوران Crown wills کے زیر نگرانی اصلاحات متعارف کروائیں گیے اور ڈسٹرکٹ فوجداری عدالت کو ختم کر کے ان کی جگہ کلکتہ،ڈھاکہ ،مرشداباد اور پٹیانہ میں سرکٹ کورٹ کا قیام عمل میں لایا گیا جو سول اور کرمنل مقدمات میں کورٹ آف آپیل کی حیثیت سے کام کرتا تھا، مگر یہ عدالت یوروپی ججرز کے زیر نگرانی تھا۔

کروان ولز نے صدر نظامت کی عدالت کو کلکتہ منتقل کرکے اس کو گورنر جنرل اور ممبران سپریم کونسل کی نگرانی میں دیا ۔ جن کی مدد چیف قاضی اور چیف مفتی کیا کرتے تھے۔ جبکہ ڈسٹرکٹ دیوانی عدالت کا نام بدل کر ڈسٹرکٹ، سٹی،اور ضلع کورٹس کا نام دیا گیا جو کہ ڈسٹرکٹ جج کے انڈر کام کیا کرتے تھے۔

جبکہ اس نے سول کورٹس کو بڑھا کر ان کو ہندو اور مسلم منصف کورٹس کا درجہ دیا۔۔ساتھ ساتھ رجسٹرار کورٹس ، ڈسٹرکٹ کورٹ، صدر دیوانی عدالت، اور گنگ ان کونسل کا قیام عمل میں لایا۔ کروان ولز کو عام طور قانون کی بالادستی کا قیام عمل میں لانے والے شخص کے طور پر جانا جاتا ھے۔

البتہ William Bentinck کے دور میں بھی انڈیا میں صلاحات کی گئی، اور چار ڈسٹرکٹ عدالتوں کا خاتمہ کرکے ان کا کام کلکٹر کے سپرد کردیا گیا جو کمشنر آف ریونیو اور سرکٹ کے ماتحت تھے۔ اس کے علاؤہ آلہ آباد میں صدر دیوانی عدالت اور صدر نظامت عدالت کا قیام عمل میں لایا گیا۔

 ماتحت عدلیہ میں فارسی کو عدالتی زبان کا درجہ دیا جبکہ سپریم کورٹ میں تمام تر عدالتی کارروائی کے لیے انگریزی زبان کو سرکاری زبان قرار دیا گیا۔

اسی دوران انڈین قوانین کی تدوین کرنے کے لیے کمیشن مقرر کیا گیا جس نے 1859کے سول پروسیجر کوڈ کو انڈین پینل کوڈ 1860 کا نام دیا اور ساتھ ہی ساتھ کرمنل پروسیجر کوڈ 1861بھی تیار کیا۔

 1935میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ نافذ کیا گیا اور اس نئے قانون نے انڈیا میں حکومتی ڈھانچے کو بدل کر رکھ دیا۔ نظام حکومت  ایک اکائی یعنی یونیفارم سسٹم سے بدل کر فیڈرل طرز کی نظام حکومت قائم ہوئی اور ساتھ ہی ساتھ فیڈرل کورٹ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا جس کو دیوانی اور فوجداری مقدمات میں اپیلٹ جودسڈکشن حاصل تھی۔

ان نوآبادیاتی عدالتوں کے قیام سے قبل برصغیر میں مغل کورٹس موجود تھے، یا مقدمہ بازی کی صورت میں کاسٹ کے بڑے یا گاؤں کی پنچایت فیصلے صادر کیا کرتے تھے، مغل شہنشاہیت کے دور میں مسلمان قاضی بھی فیصلے کرتے تھے اور بادشاہ سلامت کو انصاف کا سرچشمہ مانا جاتا تھا، اور بادشاہ سلامت کا فیصلہ حرف آخر ماننا جاتا تھا لیکن ایسٹ انڈیا کمپنی کے بنائے گئے مندرجہ بالا عدالتوں کے فیصلوں سے اگر کوئی فریق مقدمہ مطمین نہ ہو تو وہ صدر دیوانی عدالت میں اپیل دائر کرسکتے تھے جو سپریم کونسل کے ایک صدار اور ممبران کے زیر نگرانی کام کرتے تھے۔

کارڈ میکالے نے کہا تھا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی دنیا کی بہترین تجارتی کارپوریشن ہے، جس کے پاس اپنی پرائیویٹ فوج بھی تھی تاکہ اپنے مفادات کی حفاظت کرسکے۔

کمپنی نے ہندوستان کے غریب لوگوں کو فوج میں بھرتی کیا ، اور کرایے کے ان سپاہیوں کے ذریعے اس تجارتی کمپنی نے ہندوستان پر قبضہ کیا اور اسے اپنی کالونی بنا کر دو سو سال تک اپنے زیر تسلط رکھا اور انڈیا کی تاریخ بدل کر رکھ دیا’۔

10مئ1857کی ناکام جنگ آزادی ہند کے بعد ہزاروں افراد کا قتل عام کیا گیا اور مغلیہ سلطنت کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو رنگون کے ایک زندان میں قید کر دیا گیا جہاں وہ شاعری کرتے ہوئے وفات پا گئے۔

جبکہ بغاوت ھند کو بے رحمی سے کچل دینے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کی بجائے  ملکہ برطانیہ وکٹوریہ یعنی تاج برطانیہ نے ھندوستان پر براہ راست حکومت کرنا شروع کردیا  ۔  جو سرکاری طور پر 1876کے بعد باقاعدہ طور پر انڈیا کی ملکہ کہلانے لگی۔ برٹش راج انڈیا میں دو طرح کی علاقوں  پر مشتمل تھی ،انڈیا کا حصہ ایک حصہ برٹش انڈیا اور دوسرا حصّہ شاہی ریاستوں پر مشتمل تھی۔

 برطانوی پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون کے تعبیر و تشریح کے ایکٹ 1889کے سیکشن 18میں بیان کی گئی تشریح کے مطابق برٹش انڈیا میں وہ تمام علاقے /زمینیں شامل ہیں جن پر تاج برطانیہ گورنر جنرل آف انڈیا یا اس کے ماتحت کسی بھی آفسر کے ذریعے حکومت کرتی ہو یاوہ تمام شاہی ریاستیں جو برٹش کروان کے نام پر وائسرائے ہند کے زیر انتظام چلائی جاتی ہیں۔

   تاج برطانیہ نے انڈیا میں سیاسی معاشی ، انتظامی اور قانونی مملات چلانے کے لئے برٹش انڈیا ایکٹ 1858 کے ذریعے حکومتی سطح پر تین طرح کی تبدیلیاں انڈیا میں متعارف کروائی۔

1.لندن سے ایک کیبنٹ لیول کے سکریٹری کو بطور سیکریٹری آف سٹیٹ فار انڈیا مقرر کیا گیا۔

2.پندرہ ممبران پر مشتمل ایک ” کونسل فار انڈیا” بنائی گئی، جن کا کام سیکرٹری آف سٹیٹ فار انڈیا کی مدر کرنا تھا۔

3.انڈیامیں حکومت کرنے کا اختیار ایسٹ انڈیا کمپنی سے تاج برطانیہ کو منتقل ہوا اور تاج برطانیہ نے انڈیا کے 2/3حصے پر براہ راست حکومت کی جبکہ برٹش انڈیا کے بقیہ 45 فیصد رقبے پر موجود 680 شاہی ریاستوں کو اپنے زیر تسلط لاکر شاہی ریاستوں کے حکمرانوں کے ذریعے حکومت کرتے رہے اس طرح کی پالیسی کے تحت تاج برطانیہ نے انڈیا پر دوسو سال تک حکومت کی۔

ابتدا میں ایک پالیسی کے تحت برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے معملات کو براہ راست برطانیہ کے پارلیمنٹ کے زیر نگرانی لایا گیا،پھر 1813 کے چارٹر کا اطلاق کرتے ہوئے انڈیا میں مکمل نوآبادیاتی ایڈمنسٹریشن  اور کمپنی کی علحیدہ علاقائی اور تجارتی جودسڈکشن کا اطلاق کیا گیا۔

اسی دوران کمپنی نے برطانوی سفیر مقرر کئے اور دیگر متصل کارخانوں کا قیام عمل میں لایا اور انڈیا میں برطانوی سیٹلمنٹ کی شروعات کی گئی، اور ساتھ ہی ساتھ اپنی نوآبادیاتی سلطنت میں آرڈر، اور قوانین میں یکسانیت کے لیے قوانین کی تدوین کرکے مرتب کیا ۔

ان تمام نوآبادیاتی قوانین کا مقصد رول آف لاء کے نفاذ سے زیادہ مقامی بغاوت کو دبانا تھا۔

تاج برطانیہ نے مغلیہ سلطنت کے کورٹ کو ختم کیا اور برصغیر میں 1857 میں ناکام  بغاوت ہند کے بعد 1858میں برٹش انڈیا ایکٹ متعارف کروایا۔

ساتھ میں اپنی پاور بیس کو مضبوط کرنے کے لیے انگریزی زبان متعارف کروایا اور ایک ایسا ایلیٹ کلاس پیدا کیا جو بنیادی طور پر انڈین تھے مگر کلچرل طور پر انگریز جیسے تھے۔

1860میں برصغیر کو نئے قوانین کا مجموعہ دیا گیا اور ساتھ ہی ساتھ آنڈین پینل کوڈ متعارف کرایا گیا۔

 1862میں Crpc کریمنل پروسیجر کوڈ بھی متعارف کرایا گیا مگر اس ضابط کے تحت انڈیا کے ججوں کو پابند کیا گیا کہ وہ برطانیہ اور یورپ کے شہریوں کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری نہیں کرسکتے تھے۔

1908-1909کے دوران منٹو مارے ریفارمز کے تحت قانون ساز کونسل کے رکن بنے لیے انڈیا کے شہریوں کو اجازت دی گئی مگر اس قانون کے تحت اختیارات ان لوگوں کے ہاتھوں میں دیا گیا جنھیں تاج برطانیہ نامزد کرتا تھا۔۔جسے کہ آرڈر دو ہزار اٹھارہ کے تحت گلگت بلتستان کونسل کے چھ غیر منتخب ممبران کو وزیر اعظم پاکستان منتخب کرتا ہے جو خود گلگت بلتستان کونسل کے چیئرمین ہیں، جس کے کسی بھی حکم کو گلگت بلتستان کے کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا ہے نہ ہی  آرڈر 2018 یا آرڈر 2019 کو گلگت بلتستان کے چیف کورٹ یا سپریم اپیلیٹ کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

برٹش انڈیا نے 1901میں ایف سی آر یعنی فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن ، جرائم سرحد نمبر 3 کا قیام عمل میں لایا۔

جو کہ بتاریخ اٹھارہ ستمبر 1901 جناب نواب گورنر جنرل بہادر باجلاس کونسل کی پیشگاہ سے منظور ہوا۔

دفعہ نمبر 1 کے تحت یہ ریگولیشن "ریگولیشن جرائم سرحد 1901 کہلائے ۔

جس کے سیکشن 6، 10، 21اور 22 کے تحت کسی ایک شخص کے جرم کرنے کی صورت میں پورے قبیلے کو تادیبی کاروائی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔اور اس موضع کے باشندوں پر بحثیت مجموعی جرمانہ تجویز کرتے تھے یا بحثیت مجموعی ان کی جائیداد پر سرکار قبضہ کرسکتی یا تلف کرنے کی مجاز تھی۔ تاج برطانیہ نے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935کے تحت کونسل آف انڈیا کو ختم کیا گیا اور ایک تبدیل شدہ سسٹم آف گورننس انڈیا میں متعارف کرایا ۔ سیکرٹری آف سٹیٹ جو لندن میں گورنمنٹ آف انڈیا کی نمائندگی کرتا تھا اس کی مدد کے لئے ایک ایڈوائزری باڈی بنائی گئی جو 8 سے 12ممبران پر مشتمل ہوتی تھی۔

وائسرائے و گورنر جنرل آف انڈیا کو ملکہ برطانیہ نامزد کرتی تھی۔

گورنر جنرل انڈیا وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کا سربراہ اور تمام مرکزی انتظامی معاملات اور اداروں کا ذمہدار ہوتا تھا ۔

تقسم ہند کے وقت اس ایگزیکٹو کونسل کے ممبران کی تعداد چودہ تھی۔

جبکہ تاج برطانیہ کونسل فار انڈیا ختم کرنے کے بعد  انڈیا میں کونسل فار سٹیٹس کا قیام عمل میں لایا تھا جو ایوان بالا کہلاتا تھا جو 58ممبران پر مشتمل تھی جن میں سے اراکین منتخب 32 تھے جب کہ 26 اراکین غیر منتخب تھے۔

 اور 1919میں لیجسلیٹو کونسل کا قیام عمل لایا گیا جو 141ممبران پر مشتمل تھی جبکہ 26 سرکاری افسران کو نامزد کیا گیا تھا جبکہ 13 اور افراد نامزد تھے جبکہ 102 منتخب نمائندے شامل تھے۔

لیجسلیٹو اسمبلی ایوان زیریں کہلاتی تھا لیجسلیٹو اسمبلی کےصدر کو وائسرائے منتخب کرتا تھا ۔

کونسل پانچ سال کے لیے کام کرتی تھی اور اسمبلی کی معیار 3 سال تھی البتہ کونسل فار سٹیٹس اور لیجسلیٹو اسمبلی دونوں کا سربراہ گورنر جنرل آف انڈیا اور وائسرائے ہند ہوتا تھا۔

دوسری طرف1789کے امریکی انقلاب سے قبل امریکہ کی  تیرہ کالونیوں میں تاج برطانیہ کا راج تھا جہاں تاج برطانیہ اپنے نوآبادیاتی قوانین کو ایک کالونیل گورنر کے زریعے اطلاق کرواتی تھی۔

اس نوآبادیاتی گورنر کو انگلستان کا بادشاہ سلامت یا ملکہ صاحبہ منتخب کرتی تھی اور تاج برطانیہ کا منتخب گورنر کالونیوں میں چیف انفورسمنٹ افسر کے طور پر کام کیا کرتا تھا جو کالونی کا ایگزیکٹو ہوتا تھا۔ جب کہ نوآبادیات میں جوڈیشل ڈپارٹمنٹ کا کام یہ دیکھنا ہوتا تھا کہ کہ آیا نوآبادیاتی قوانین کی خلاف ورزی تو نہیں ہوتی ہے؟ امریکہ کی ان 13 کالونیوں میں حکومت ایک اسمبلی اور کونسل کے ذریعے چلاتے تھے۔عام طور پر بادشاہ سلامت ایسے شخص کو گورنر مقرر کیا کرتا تھا جس کا انگلستان میں اثر ورسوخ ہو،  جبکہ ایسے شخص کے لئے انگلینڈ کا وفادار ہونا بنیادی شرط تھی ۔

گورنر کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ چاہے تو ان کالونیوں کی اسمبلی کے بنائے ہوئے قانون کو veto کرسکتا تھا، یا وہ چاہے تو اسمبلی کو معطل کر کے نیے انتخابات کا اعلان بھی کر سکتا تھاجبکہ کونسل کے ممبران عام طور پر اپر کلاس سے تعلق رکھتے تھے اور نوآبادکار اپنے کرایے پر لیے گیے ایجنٹس کے ذریعے اپنے نقط نظر کو برطانیہ کے پارلیمنٹ میں پیش کیا کرتے تھے۔

بہت سارے لوگوں کا خیال تھا کہ انگلستان کی پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی نہیں ہورہی ہے جس کی وجہ سے برطانیہ میں بنائے گئے قوانین امریکہ کے عوام کے حقوق کو متاثر کیا کرتے ہیں،اور انگلش لوگوں کے حقوق کو رد کرتے ہیں۔

برٹش انڈیا میں دو سو سالوں  رائج ان مندرجہ بالا نوآبادیاتی قوانین اور نظام حکومت پر ایک سرسری نظر ڈالنے کے بعد گلگت بلتستان میں رائج قوانین اور پولیٹیکل سسٹم کا مطالعہ کیا جائے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ گلگت بلتستان میں رائج نظام درحقیقت برٹش انڈیا کےنوآبادیاتی نظام کا ہی تسلسل ہیں.

سپریم کورٹ آف پاکستان کے سات ججوں پر مشتمل فل بنچ نے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں مورخہ 17/1/2009 کو گلگت بلتستان کے لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق اور آئینی حیثیت کے بارے میں زیر سماعت کئی مقدمات کا فیصلہ بعنوان’ سول ایویشن (civil aviation)اتھارٹی بنام سپریم اپیلیٹ کورٹ آف گلگت بلتستان وغیرہ نامی کیس میں متفقہ طور پر 29 صفحات پر مشتمل اپنے تاریخی فیصلے  میں لکھا کہ  گلگت بلتستان پر حکومت کرنے کے لیے 1947 سے ایڈمنسٹریٹو سٹرکچر اور قوانین اپلائی کیے گئے جن میں مندرجہ ذیل شامل ہیں۔

  1. 1947 میں فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (FCR) گلگت میں نافذ کیا گیا۔ ایف سی آر تاج برطانیہ کا نوآبادیاتی قانون تھا. جو 1974 تک گلگت بلتستان میں نافذ العمل رہا۔ ایف سی آر عام طور پر کالے قانون کے نام سے مشہور ہے۔

  سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس تاریخی فیصلے کے پیراگراف نمبر 14 کو  Quote کرتا ہوں تاکہ قارئین کو سمجھنے میں آسانی ہو،

  14.First law to be enforced was a continuation of the colonial law of FCR under the British law for the tribal areas and GB, a civil bureaucracy exercised all judicial and administrative powers۔

جاری ہے۔بقیہ اگلے قسلط میں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button