کالمز

فراز ، باد شائے رقص

شمس الحق قمر ؔ

رقص کو بدن کی شاعری کہا جاتا ہے ۔ شاعری تخیّل کی اُن پُر پیچ راستوں کی مسافت کا نام ہے جہاں شاعر ماورائے عقل انکشافات سے اپنیہمراہیوں کو وادی حیرت کا اسیر بنا کے رکھدیتا /دیتی ہے ۔شاعری کوشش سے نہیں کی جاتی بلکہ یہ ہو جاتی ہے غالب ؔ نے کہا تھا کہ ؂ آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں غالبؔ صریر خامہ نوائے سروش ہے ۔ غالب ؔ کی نظر میں شعر رقم کرنے والے قلم کی نوک کی آواز گویا فرشتے کی آواز ہے ۔خیالات کی آمدخود ساختہ طور پر ہو جاتی ۔ آمد ہونے کے بعد خیال کی نزاکت پر شاعر خود بھی شاید انگشت بداندان ہوتا ہوگا کہ یہ خیال کیسے در آیا جو مٹی کے خمیر سے اُٹھے گوشت پوست کے انسان کی بس کی بات بالکل نہیں ۔ ایک شاعر اپنی شاعری میں خیالات کے انوکھے پن کا وہ اعجاز دیکھاتا ہے کہ کوئی بھی شعر فہم انسان شاعر کے خیال کی بلندی اور نزاکت پر قربان ہوجاتا ہے کیوں کہ شاعر کا خیال بالکل نیا اور انوکھا ہوتا ہے اور ہر نئی شئ میں تجسس ہوتی ہے ۔جب ہم رقص کو بدن کی شاعری کہتے ہیں یا اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں کہ رقص اور شاعری میں کوئی قدر مشترک ہے تو گویا در اصل ہم رقص کی اہمیت کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ویسے رقص کسی بھی موسیقی کے سروں کے ساتھ بدن کے مختلف اعضا کو متحرک کرنے کا نام ہے جو کہ کوئی بھی ادمی یا کوئی بھی جانور آسانی سے کر سکتا ہے لیکن جب ہم رقص کو بدن کی شاعری کے معنوں میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کا مفہوم وسیع تر ہو جاتا ہے اور پھر یہ ہر ایک کے لئے ممکن بھی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے بدن کی شاعری کرے ۔ جیسے ہر آدمی ایک دقیق النظر شاعر نہیں بن سکتا /سکتی ویسے ہی رقص بھی ہر انسان پر نہیں جچتا اور نہ ہر انسان رقاص بن سکتا/ سکتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہر بشرکو کوئی نہ کوئی خصوصیت اور صلاحیت ایسی ودیعتفرماتاہے جو کہ کسی دوسرے کے حصے میں کبھی نہیں آتی ۔ اور وہ خاص صلاحیت اُسی مخصوص انسان کی زندگی کے ساتھ ہی بھلی معلوم ہوتی ہے ۔

دنیا میں آج تک مختلف رقاص رقص کی دنیا میں اپنا لوہا منوا چکے ہیں ۔میں یہاں پر کوہ ہندوکش کے دامن میں واقع پشت ہا پشت سے انسانی تہذہب و تمدن کی عظیم روایاکا امین منطقہ، وادی چترال کے باد شاہِ رقص محترم فراز بھائی کی خدا داد صلاحیت اور مہارتوں کا تذہ کرہ کرنے جا رہا ہوں ۔مجھے اتنا معلوم ہے کہ فراز کا تعلق چترال کے ایک خوبصورت علاقہ وادیِ لوٹ کوہ سے ہے ۔ اور محترم پاکستان انٹر نشنل ائیر لائنز میں ملازم ہیں ۔ محترم فراز بھائی سے میرے کوئی ذاتی مراسم آج تک نہیں اور نہ وہ میرے بارے میں جانتا ہے۔ لیکن میرے لئے فراز کی مثال چترال کی بلند بالا پہاڑی چوٹی تریچمیر کی ہے ، ترچ میر کو سب جاتنے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ ترچ میر بھی سب کو جانے اور پہچانے ۔ آج سے آٹھ سال قبل چترال کے ہوئی اڈے پر صر ف ایک مرتبہ چند ساعتوں کے لئے موصوف سے مصافحے کا موقہ ملا ۔ میں نے ایک ہی سانس میں اپنا تعارف کیا اور رقص کی دنیا میں آپ کی عظمتوں کا گن گاتے ہوئے رخصتی لی ۔ میری تمنا ہے کہ زندگی میں کبھی آپ کے ساتھ دوبدو ملاقات کی سعادت حاصل ہو اور آپ کے رقص سے براہ راست لطف اندوز ہو سکوں۔

میں گزشتہ ایک عشرے سے ٹیلی وژن اور کمپوٹر کے پردوں میں آپ کے بدن کی شاعری کا منت کش رہا ہوں ۔ اگرچہ رقص کی تشریح ناممکنات کی حد تک مشکل ہے ۔ ہم کسی کے خوبصورت رقص پر صر ف جھوم سکتے ہیں لیکن رقص کو بیان نہیں کر سکتے تاہم میں فراز کے رقص کواپنی ذہنی استعداد کے مطابق بیان کرنے کی جسارت کر رہا ہوں ۔ فراز جب میدان رقص و سرود کی وادی میں کود جاتے ہیں تو گویا پوری کائینات سمٹ کر آپ کے تن بدن کے اندر سما جاتی ہے ۔ فراز کے رقص کا اگر بہ نظر غائر نظارہ کیا جائے تو ایک روحانی کیفیت کا احساس ہوتا ہے ۔ موسیقی آہستہ آہستہ اپنی پوری اب و تاب کے ساتھ آپ کے رگ و پے میں داخل ہو جاتی ہے اور محفل میں وجد و سرود اور مستی کی کیفیت در آتی ہے ۔ موسیقی کے اُتار چڑھاؤ کے ساتھ آپ کے اعصاب میں غائبانہ طور پر اُترنے والی طاقت موصوف کے جسمانی اعضا کو روحانی لچکعطا کرتی ہے ۔ موصوف کے رقص سے محظوظ ہونے والے کو یکایک ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وقت رک چکا ہے، زندگی غیر مرئی ٹھراؤ میں داخل ہو چکی ہے اور اگردنیا میں کہیں حیات کی نمود ہے تو وہ فرازکے رقص میں ہے ۔ فراز کے رقص کو جو خاص نکتہ ممتاز کرتا ہ وہ اُن کی کشش ہے اور یہ تجسسس اتنی قوی ہے کہ دیکھنے والے اپنے من سے نکل کر فراز کی دنیا میں ضم ہوتے ہیں ۔

رقص کے دوران ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے کہ فراز گویا ہوا میں معلق ہوتے ہیں اوراپنی کشش سے زمین کو اوپر کی جانب یعنی اپنی طرف کھینچتے ہوئے رقص بر قرار رکتھے ہیں ۔ دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف اُٹھا کر جب بہ روئے فلک نظر اُٹھا تے ہیں تو موصوف کا رقص عبادت میں تبدیل ہو جاتا ہے اور شرکائے محفل پر بھی وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور مراقبے کا سا احساس پیدا ہوتا ہے ۔ موصوف کے رقص کا اثر شاملِ محفل اشخاص پر اتنا گہرا ہو تا جاتا ہے کہ ناظر و منظور میں زمان و مکان کی قید کا احساس یکدم مفقود ہو جاتا ہے یہاں تک کہ یہ تفاوت بھی یکسر بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے کہ اصلی رقاص وہ ہے یا میں ہوں ۔

علامہ اقبال نے شاید ایسی ہی کسی صورت حال کا ذکر کیا ہے جو کہ میں فراز کی نذر کر رہا ہوں

رنگ ہو خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزہ فن کی ہے خو ن جگر سے نمود

شوق میری لے میں ہے شوق میری نے میں ہے
نغمہ ’’ اللہ ہو ‘‘ میری رگ و پے میں ہے

میری دُعا ہے کہ فراز سدا خوش رہے اور ہمارے دلوں میں خشیاں بکھیرتا رہے ۔ آمین ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button