کالمز

ڈاکٹر رتھ فاؤ ۔۔۔ ایک عظیم خاتون

"ہم میں سے کوئی بھی کسی جنگ کو تونہیں روک سکتا، مگر ہم میں سے اکثر روحانی اور جسمانی ایذا میں کمی کے لئے مدد تو دے سکتے ہیں” یہ سادہ مگر پر جذبہ ایثار سے بھرا جملہ ڈاکٹر رتھ پفاو نے کہا تھا۔ ڈاکٹر رتھ پفاو ایک جرمن پری وش خاتون تھیں۔ جنہیں پاکستان کی سرکار نے انتھک جذبہ ایثار اور خدمت انسانیت کے اعتراف میں پاکستانی شہریت عطا کیا تھا۔ آپ ۱۹۲۹ میں ایک مسیحی خاندا ن میں پیدا ہوئیں ۔ آپ کی چار بہنیں اور ایک اکلوتا بھائی تھا۔ جب دوسری جنگ عظیم میں بموں اور میزائلوں نے آسمان سے آگ کے گولے برسائے تب آ پ کاگھر بھی شعلوں کی زد میں آکر جل گیا۔ اس کارزار کشت و خون کے بعد مشرقی جرمنی پر سوویت یونین کے قبضے کے نتیجے میںآپ گھروالوں سمیت مغربی جرمنی کی طرف کوچ کر چلی۔ ۱۹۵۰ کے دروان مینز یونیورسٹی سے علوم ادویہ سے فیض پاتی رہی۔ اس دوران آپ کی ایک ولندیزی خاتون کے ساتھ علیک سلیگ ہوئی ، اور آہستہ آہستہ میل جول بڑھنے لگی۔ وہ ولندیزی مسیحی خاتون نازی کی حراستی کیمپ کی متاثرہ اور زندہ بچ نکلنے والی نیک اختر تھی اور اپنی زندگی کی باقی ماندہ لمحات محبت اور معافی کی تبلیغ کے لئے وقف کر چکی تھی۔ یہ میل جول ڈاکٹر رتھ پفاو کے لئے متاثرکن اور زندگی بدل ڈالنے والے تجربے میں بدل گئی۔ ڈاکٹر رتھ پفاؤ کی دلنشیں صورت ، جھیل سی آنکھوں اور سادہ دلی کے نزدیک کوئی کہاں ٹھہر سکتا تھا ان کی اپنے ایک ہم جماعت کے ساتھ رومانوی رغبت بھی رہی۔جو ان کے اندر فلسفے اور کلاسیکی ادب کی جانب رجحان بڑھانے کا سبب بنی۔علوم ادویہ کے امتحانات سے فراغت کے بعد آپ ماربرگ چلی گئی۔ جہاں آپ نے طبی مطالعہ شروع کیا۔ ۱۹۵۷ کے دوران پیرس میں آپ ایک کیتھولک مسیحی سلسلے ڈوٹر آف دی ہارٹ آف میری سے جڑ گئیں۔ آپ کہا کرتی تھیں کہ جب آپ کو ایسے نیک کام کے لئے بلاوا آئے ، تو انکار کیسے کر سکتے ہیں، تو آپ کے لئے اس میں ا نتخاب کا کوئی راستہ کیسے بچ جاتا ہے کہ جب خدا نے خود اپنے لئے آپ کا انتخاب کرلیا ہو۔ اس سلسلے نے آپ کو بعد ازاں جنوبی ہندوستان کی طرف بھیجا ۔ ۱۹۶۰ میں جب آپ نے رخت سفر باندھ لیا تو ویزے کے کاغذات میں کوئی سقم درپیش آیا اور کراچی میں پھنس گئی۔ آپ اپنے مریضوں کی بازیابی کی خاطر پاکستان اور افغانستان میں متعدد مقامات گھوم چکی تھیں جنہیں اپنے گھروالوں نے دھتکاردیا تھا یا پھر کال کوٹھریوں ، تنگ کمروں میں تاحیات پابند کردیا تھا ۔جب آپ کی عمر اکتیس سال کو پہنچی تو پاکستان میں لیپروسی (کوڑھ) کی وبا کے خلاف لڑنے کا اتفاق ہوا اور اسی دوران ہی آپ نے عزم مصمم کرلیاکہ ان کی باقی ماندہ درخشاں حیات پاکستان میں کوڑھ کے مریضوں کی خدمت کے لئے وقف کردیں گی۔یہ اس پیمان وفا نے آپ کے پیروں میں وفا داری کی مضبوط ایسی بیڑیاں ڈال دی کہ موت بھی ان بیڑیوں کو اتارنے میں ناکام رہی اور پاک سرزمین کے دل میں ان کی جسد خاکی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے گھر کر گئی۔اتفاقا کراچی سٹی ریلوے سٹیشن ، آئی آئی چندریگر روڈ کے نزدیک آپ پہنچی تووہاں موجود کوڑھ کے مریضوں کی ناگفتہ بہ حالت زار دیکھ کر انہوں نے من میں ٹھان لیا کہ انہی کی دیکھ بھال ہی ان کی ضمیر کی وہ پکار تھی جس کے تعقب میں وہ اس کم سنی میں دیار یار و خرمن کو وداع کرکے اس کشت نا آشنا میں وارد ہوئی تھیں۔ یہی کہیں کسی جھگی میں بسرام کرکے انہوں کوڑھ کے مریضوں کا علاج معالجہ اور دیکھ بھال شروع کیا۔ ڈاکٹر آئی کے گل کی لیپروسی کلینک خرید کر میری ایڈیلیڈ لیپروسی سنٹرکے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جوبعد میں ٹی بی پرقابو پانے اور نابینائی سے بچاو جیسے اہم پروگراموں کی آماجگاہ بھی رہا۔ جہاں کراچی اور پاکستان کے دیگر علاقوں کے علاوہ افغانستان سے بھی مریض ان سے مستفید ہوتے تھے۔ ۱ن کے اس جذبہ نیکی کے اعتراف میں انہیں ۱۹۷۹ میں وفاقی مشیر برائے لیپروسی ملحقہ وزارت صحت وسماجی بہبود تعینات کردی گئی۔ ڈاکٹر پفاؤ کے پاوں ان علاقوں سے بھی ناآشنا نہیں تھے جہاں لیپروسی کے مریض تو درکنار عام لوگوں کے لئے صحت کی سہولیات معدوم تھیں۔ انہوں نے ان مریضوں کے علاج معالجے اور بہبود کے لئے جرمنی سے بھی عطیات مانگ کر روالپنڈی اور کراچی کے ہسپتالوں کے ساتھ مل کر خرچتی رہی۔ان کی پاکستان کے لئے پے پائیاں خدمات کی معترف یہاں سرکار نے انیس سو اسی کے وسط میں انہیں پاکستانی شہریت سے عطا کیا۔ یہ انہی کی جہد مسلسل اور انتھک لگن کا نتیجہ تھا کہ عالمی ادارہ صحت نے وطن عزیز پاکستان کو ایشیا ء کے اس سب سے پہلے ملک کے طور پر مانا جس نے کوڑھ کی بیماری پر مکمل قابو پالیا۔ ایک معروف صحافتی جریدے کے مطابق یہاں کوڑھ کی مریضوں کی تعداد انیس سو اسی کے دوران کی انیس ہزار تین سو اٹھانوے سے کم ہوکر حالیہ سالوں میں پانچ سو کے قریب رہ گئی ہے۔ ملک کے دیگر علاقوں کی طرح ڈاکٹر رتھ پفاو نے گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں لیپروسی اور ٹی بی کے مریضوں تک علاج ومعالجے کی مفت سہولیات پہنچائی۔ ان کی خدمات بلاتفریق ہر ضرورت منداور مستحق انسان تک پہنچتی رہی۔ انہوں نے اپنی حیات میں سکردو اور نواحی علاقوں کا بھی کئی بار دورے کئے۔ پاکستانی ماحول میں پلے بڑھے اور یہاں کی ذہنیت کے حامل ایک شخص نے ان سے ان کے دور شباب میں سوال کیا کہ ایک غیر ملکی ، غیر مسلم عورت ایک پرائے ملک میں اکیلی رہ رہی ہے آپ کس حد تک خود کو یہاں محفوظ سمجھتی ہیں، اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں کوڑھ کے مریضوں کے درمیان رہتی ہوں تو کسی کی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ کوڑھ کے مریضوں کے پاس آکر مجھے تنگ کرے۔ آپ ایک ایسی نڈر اور جانفشان خاتون تھیں کہ جب آغاخان ہسپتال میں اپنی زندگی کے آخری ایام میں طبیعت زیادہ بگڑجانے پر ڈاکٹروں نے مصنوعی سانسیں دینے کے لئے وینٹیلیٹر دیا تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ اسے کسی قسم کی مشینی اور مصنوعی مدد سے کوئی دلچسپی نہیں اور تادم مرگ قدرتی زندگی گزارنے کی خواہش ظاہر کی۔ ان کی خواہشات میں سے چنداں اور عجیب خواہشات یہ تھیں کہ مرنے کے بعد اس کو عروسی خلعت میں دفن کیا جائے اور ان کی میت کو لیپروسی سنٹر لے جائی جائے۔ یہ عظیم خاتون اپنی ضعیفی اور لاغر پنی کی وجہ سے گردوں اور دل کے امراض میں مبتلا گزشتہ کئی سالوں سے زیر علاج تھیں۔ میت کی سرکاری اعزاز کے ساتھ تدفین کی گئی۔ پاکستانی پرچم ان کی موت کے غم میں سرنگوں رہا۔ ڈاکٹر رتھ پفاو کی میت وہ مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی سرکاری اعزاز پانے والی میت تھی۔انہیں سبز ہلالی پرچم میں ڈھانپ کر دفن کی گئی۔ پاکستان کے تینوں مسلح افواج کے دستوں نے ۱۹ توپوں کی سلامی دی۔ وزیر اعظم پاکستان اور صدرمملکت نے ان کی وفات کے حوالے سے خصوصی پیغامات بھی جاری کئے اور تدفین کی کاروائی کو خصوصی طور پر قومی ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر بھی کیاگیا۔ اور یہ پری وش ، عظمت و ایثار کی پیکر اور عروس البلد کراچی کی تاریخی گورا قبرستان میں سپرد خاک ہوگئی۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں تعلیمی مدارس ، طلبہ تنظیموں، سماجی خدمات اورفلاح انسانیت کے اداروں نے مختلف تقریبات ترتیب دے کر ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ سکردو میں سلیم فاونڈیشن اور بلتستان یوتھ الائنس کی طرف سے ان کی یاد میں شمع روشن کی گئی اور مختلف تقریبات کا اہتمام کیا۔ جس میں مقررین نے ان کی انسان دوستی اور جذبہ ایثار کو دل کھول کر داد دی اور انہیں پاکستان کے دیگر ماہرین، پیشہ ور شخصیات اور خاص کر خواتین کے لئے ایک مثال لا فانی قرایدیا۔ یقیناًانہیں غیر معمولی پذیرائی دے کر حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کا برملا اعتراف کیا ہے اور اس عظیم خاتون کی ذات ایسی ہی داد و تحسین اور شان وشوکت کی مستحق تھی ۔ ڈاکٹر رتھ پفاو نے مشن عیسیٰ ؑ مسیح پر کاربند رہ کر مسیحائی کا حق ادا کیا اور خود کو ایک سچی پیروکار مسیح اور سب سے بڑھ کر ایک عظیم انسان کے طور پرثابت کرگئی۔ ڈاکٹر رتھ پفاو منوں مٹی تلے جاکر بھی اہل شعور اور انسان دوست افراد کے دلوں میں ایک جذبہ تازہ، ایک شمع روشن اور ایک دمسیحا ئی تاثیرکے طور پر رہتی دنیا تک امر رہے گی۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button