کالمز

برما میں قتل عام کی تاریخ

 شیر جہان ساحلؔ

برما(میانمر) میں   135  قسم کی نسل سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں جو مختلف علاقوں سے یہاں آکر آباد ہوئے۔ جن میں 108 نسلی گروہوں کو سرکاری سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے باقی کو تسلیم کرنے سے یعنی برما کا باشندہ ہونے سے روکا جا رہا ہے۔ اور ان گروہوں میں مسلم اکثریتی گروہ بھی شامل ہیں جنہیں اس انتشار کا سامنا ہے اور مسلمانوں کے لئے   دو طرح کے نفرتوں کا سامنا ہے۔ ایک نسلی دوسرا مذہبی ۔  مسلمان گیارویں صدی سے برما میں رہ رہے ہیں۔ برما کی تاریخ کے  مطابق پہلا مسلمان 1050 ء میں برما میں آباد ہوا اور اس وقت کے بادشاہ نے مسلمانوں کی نسل کشی کے لئے طاقت کا استعمال کیا تھا کیونکہ وہ مسلمانوں کے عقیدے سے نفرت کرتا تھا اور دوسرا وجہ وہ یہ بتا رہا تھا کہ مسلمان زبردستی کے مشقت سے انکار کر رہے ہیں جو کہ بادشاہ کے ساتھ غداری ہے۔ اس کے بعد بینیونا نا می بادشاہ (1550-1581 ء) برما میں مسلم عقائد پر پابندی عائد کی۔ اور 1559ء میں وہ مسلمانوں کے قصاب خانے بند کئے اور مسلمانوں کو حلال گوشت جن میں چکن اور بکرے کا گوشت سرفہرست تھے، استعمال کرنے پر پابندی عائد کئے اور عید الاضحی اور قربانی پر بھی پابندی عائد کئے۔ اور جواز یہ پیش کیا کہ اتنے سارے جانوروں کو ایک ساتھ ذبح کرنا ظلم ہے۔  سترہویں صدی میں برما کے ایک اسٹیٹ اکاران میں رہنے والے مسلمانوں کا بلاوجہ قتل عام کیا گیا اور جواز یہ پیش کیا گیا یہ برما کے لئے نقصان دہ ہیں لہذا ان پر ظلم روا      رکھا جائے ۔ یہ انڈین مسلمان شاہ شجاع جو کہ مغل بادشاہ شاہجہان کا دوسرا بیٹا تھا اوراپنے خاندانی بادشاہت کی بغاوت میں محروم ہو کر برما فرار ہوئے تھے، کے ساتھ ان کے درباری مسلمان  برما میں رہائش اختیار کر رکھے تھے۔ گو کہ مغل شجاع برما فرار ہونے سے پہلے وہاں کے لوکل قزاقوں اور غنڈوں سے اجازت لے رکھا تھا اور ان قزقوں نے شاہ شجاع اور ان کے پیروکاروں کو وہاں رہنے کی اجازت بھی دے رکھے تھے مگر سمندری ڈاکوں اور شجاع کے درمیان ایک تنارعہ پیدا ہوگیا جس کے بعد شجاع بغاوت پر اتر آئے اور ناکام ہو کر خود فرار ہوئے مگر ان کے پیروکاروں کو ہلاک کیا گیا۔ اس کے بعد جتنے بھی بادشاہ برما میں برسر اقتدار آئے وہ مسلمانوں پر پابندی عائد کئے رکھے اور جو عام پابندی تھا وہ حلال چیزوں کے استعمال سے منع کرنا اور جانوروں کو ذبح کرنے سے روکنا  وغیرہ شامل تھے۔ 1921ء  میں برما میں مسلمانوں کی تعداد پانچ لاکھ کے قریب تھا۔ انگریز سامراجیت کے دوران مسلمان انڈین جانے جاتے تھے اور برما میں آباد ہندوستانی جن میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے ، مقامی لوگ انہیں "کالا   یعنی بلیک” کے نام سے یاد کرتے تھے جو نسلی تعصب کی نشانی تھی ۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد برما میں ہندوستانیوں کے خلاف نفرت میں مزید اضافہ ہوا جس کا اہم وجہ برما میں مزدوروں کی خستہ حالی تھا۔ انڈین مزدور کم اجرت پر بھی کام کرتے تھے اور جس کی وجہ سے مقامی مزدور ان سے نفرت اور انہیں  اپنے لئے معاشی مسلہ تصور کرتے تھے۔ اور اس بات  کاواضح ثبوت اس واقعے سے ملتا ہے جب 1930ء میں یانگون کے بندرگاہ میں ہندوستانی مخالف مزدورں کے درمیاں فسادات کا آغاز ہوا اور سارے ہندوستانی مزدور ہڑتال پر چلے گئے ۔ بندرگاہ کے انگریز انتظامیہ نے مزدوروں کو منوانے کی کوشش کی اور فسادات پر قابوپانے لئے فوج کشی کی گئی جس کے نتیجے میں 200 انڈین جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی، قتل کرکے دریا میں پھینک دئیے گئے۔اور دوہزار کے قریب زخمی ہوئے۔ ڈرا دھمکا کر جب انڈین مزدوروں کو کام پر واپس لایا گیا تو برمی مقامی باشندوں کے ذہنوں میں خیال آیا کہ ان کی وجہ سے ہمیں جاب سیکورٹی نہیں ملتی لہذا ان کے خلاف کسی بھی موقعے کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چائیے۔

1938 ء میں فسادات دوبارہ شروع ہوئے ۔ اس بار مسلمانوں کے ساتھ ساتھ انگریزوں کے خلاف بھی فسادات کا آغاز کیا گیا۔ انگریز سرکار گو کہ ان فسادات اور مظاہروں کا  جواب دے دیا ۔ مگر یہ بات کنفرم ہوئی کہ انگریزوں اور مسلمانوں کے خلاف اس تحریک کی قیادت برمی اخبارات کر رہے تھے۔ اس کے بعد 22 ستمبر 1938 ء برطانوی گورنر کی طرف سے ان فسادات کی وجہ معلوم کرنے کے لئے انکوائری کمیٹی مقرر کی گئی اور کمیٹی کی رپوٹ کے مطابق برما میں فسادات کی وجہ وہاں کے خراب معاشی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی صورت حال تھی    اور اسی رپورٹ کو بعد میں  برما کے اخبارات فرقہ پرستی کا مقابلہ کرنے کے لئے استعمال کیئے

دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی فوج روہنگیا سے گذر گئے اوربرمی اور جاپانی فوج کی طرف سے قتل عام شروع ہونے کے بعد تقریباً چالیس ہزار مسلم آبادی چٹاگان فرار ہوئے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یعنی 1948 ء میں برما کو آزادی دی گئی اور یوں برما میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔اور جمہوری پارلیمنٹ وجود میں آیا اور سوچی تھائیک پہلا صدر اور یونو پہلا وزیر عظم  مقرر ہوئے۔ مگر نئے ملک میں جمہوریت اتنی جلدی کہاں پروان چڑھتی ہے۔ اور آمروں کے اگے بے بس ہی رہتی ہے۔ 1962ء میں جنرل نی وین نے مارشل لا نافذ کیا  تو برما میں مسلمانوں پر نئے انداز میں ظلم شروع ہوئے۔ فوج میں موجود مسلمانوں کو نکال دیا گیا۔  سرکاری طور پر مسلمانوں سے نفرت کئے جانےلگا۔ کیونکہ فوجی آمر کو اپنے اقتدار کے لئے راہ ہموار کرنا ہوتا ہے اور اس مقصد کے لئے وہ یہ نہیں دیکھتے کہ انسانیت کے ساتھ کیا سلوک ہوتی ہے، کیونکہ یہ  شخصی املاک سے عقیدت رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ اپنے پچھلے  مضمون(چور چوکیدار) میں ان آمروں کی اصلیت پر روشنی ڈالنے کی کوشش کیا تھا۔اور اس طرح کے کئی مثال ہمارے ہاں بھی موجود ہیں۔ جیسا کہ جنرل ضیاالحق اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے کراچی میں نسلی تعصب اور مسلکی بنیادوں پر سیاست کو خوب ہوادی۔ اور کراچی میں ہونے والے قتل و غارت اور ملک میں ہونے والے مذہبی انتہا پسندی سب اسی شخصی انا پرستی کی نشانیاں تھیں۔ جس کے اثرات کئی صدیوں تک رہتے ہیں۔ برما میں یہ مارشل لاء   1962 ء سے 2010 ء تک قائم رہا  اور اس دوران ملک میں ظلم و بربریت کا بازار بھی گرم رہا۔ اس دوران مسلمانوں پر کئی فسادات کئے گئِے جن میں 1997ء کے منڈلالی کے فسادات، 2001ء میں ٹنگائو کے فسادات، 2012ء میں ریخنی اسٹیٹ کے فسادات، 2013ء میں پورے میانمر میں مسلم کش فسادات، 2014ء میں ایک بار پھر منڈلالی فسادات، 2016ء میں مساجدوں کا جلائو اور رہنگیا کے فسادات اور اب 2017ء میں روہنگیا میں ہونے والے مسلم کش فسادات شامل ہیں۔ جن میں لاکھوں مسلمانوں پر ظلم کئے گئے۔ مگر بین الااقوامی انسان دوستی کے دعوی داروں کا      اب تک کوئی پتہ نہ چل سکا اورنہ   اقوم متحدہ اس مسلے پر سنجیدگی سے آواز اٹھانے کو تیار ہے۔ اور تو اور سونے پہ سہاگہ یہ ہے کہ موجودہ روہنگیا فسادات کی نگرانی ایک ایسی ہستی کر رہی ہے جسے دنیا امن کا سفیر مانتی ہے اور بین الاقوامی نوبل انعام سے نواز چکی ہے ۔ مگر آمروں کے لانڈری میں دھل کر اقتدار میں آنے والی یہ خاتوں بھول چکی ہے کہ انسانیت پر کئے جانے مظالم کے خلاف جیل کاٹنے اور آواز بلند کرنے پر ہی یہ دنیا اسے نوبل پرائز دے چکی ہے اور اب جو ظلم وہ خود کررہی ہے اس پر دنیا اسے کیا انعام دے گی کوئی نہیں جانتا۔

    یہ مظالم تو دنیا کی تاریخ کا حصہ ہیں اور شخصی املاک کے حصول میں متبلا یہ انسان اپنی تاریخ اپنے جیسے ہی انسانوں کے خون سے رقم کر چکی ہے۔ مگر افسوس اس بات پر ہوتی ہے کہ برما میں جس بے دردی سے معصوم مسلمان بچوں کا خون بہایا جا رہا ہےامت مسلمہ کی طرف سے کوئی بھی لیڈر  ابتک کھل کر اس کی مخالفت تک نہیں کر سکتا ، مدد کرنا  تو  درکنار ہے اور رہی بات سعودی قیادت میں بننے والی اسلامی لشکر کی!!! تو وہ سب کو معلوم ہے کہ اسکی اصلیت کیا ہے ؟ کیا اسلام اور مسلمانوں کا دفاع یا پھر السعود خاندان کی حفاظت، بہر حال اس پر نو کمنٹ ہی بہتر ہوگی۔

ہمیں بحیثیت مسلمان حقوق العباد کو مد نظر رکھتے ہوئے برما میں کئے جانے والے ان مظالم کے خلاف آواز حق بلند کرنا چاہِئے تاکہ دکھی انسانیت کو جینے کا حوصلہ میسر آسکے اور امید کی کرن نظر آسکے۔ مگر اقتدار کی ایونوں میں بیٹھے لوگوں کا بھی کچھ فرض ہوتا ہے اور انسانی حقوق کے نام پر مال ہڑپ کرنے والوں کے پاس بھی دل اور ضمیر ہوتے ہیں مگر آخر وہ کیا وجہ ہے جو برما کے مظلموں کے لئے نہیں جاگتے؟؟ کیا سچ مچ انسانیت شخصی املاک کی تحفظ کے اگے مر چکی ہے؟ کیا واقعی میں امن کے سفیروں کا ضمیر بھی املاک کے ہاتھوں فروخت ہو چکی ہے؟ کیا واقعی درد دل کے واسطے پیدا کیا گیا یہ انسان خود ہی ایک دوسرے کے لئے درد بن چکے ہیں؟ کیا انسانی لاشوں پر سیاست انسان کا وطیرہ بن چکا ہے؟   ۔۔۔۔۔۔ جو بھی ہو مگرحقیقت میں  ہم سب اس ظلم  میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ ظلم کے اگے خاموش رہنا ظلم کے مترادف ہے ۔      بقول شاعر۔۔۔۔۔۔۔۔

دنیا میں قتیل اس سا منافق کوئی نہیں   ،،،،،،،،،،،،،،  جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا۔

ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی برما کے مظلموں کو اس ظلم کے خلاف سرخرو ہونے کی ہمت عطا فرماِئیے ۔ امین۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button