تعلیمکالمز

یہ تعلیم ہمیں لے ڈوبے گی

شیر جہان ساحلؔ

کنفوشس (551-479  ق م) چین کے شہر چوای میں پیداہوئے ۔ وہ ایک ممتاز فلسفی ، کنفوشس ازم کابانی اور سب سے بڑھ کر اسے دنیا کا پہلا استاد یعنی معلم ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ تاریخی دستاویزات کے مطابق اس کے تین ہزار شاگرد تھے، جن میں سے 72 شاگرد بہت نام ور ہوئے۔ وہ انفرادی صلاحیت کے مطابق تعلیم دینے، سیکھنے اور دوبارہ سیکھنے اور پرانی چیزوں کا ازسرنو جائزہ لینے کے بعد نئی چیزوں کے بارے میں سیکھنے کادرس دیا کرتا تھا۔ جہان تک تحصیل علم کے عمل کا تعلق ہےوہ اس سلسلے میں دیانت داری اور صداقت کا پرچار کرتا تھا۔ وہ نصیحت کرتا تھا کہ”جب تمہیں معلوم ہو تو کہو ، مجھے معلوم ہے، جب معلوم نہ ہو تو کہو ، مجھے معلوم نہیں ہے۔دنیا کے اس  عظیم استاد کے فلسفے کو اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم کے ساتھ اخلاقیات ، صداقت اور دیانتداری پر روز دیا کرتا تھا ۔ "

اس کے بعد قبل مسیح ہی کا ایک اور استاد سقراط کا ذکر آتا ہے۔ وہ اپنے شاگردوں کو لیکچر کے آخر میں اخلاقیات اور سماجی ذمہ دارویوں کے بارے میں خصوصی تاکید کیا کرتا تھا۔ اور زہر کا پیالہ بھی وہ یہ کہتے ہوئے پی گیا تھا کہ اگر میں سمجھوتہ کروں گا تو میری جان بچ جائے گی مگر میں اخلاقی طور پر گر جائوں گا۔

پیغمبر اسلام حضرت محمد صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ذکر کرتے ہیں، تو وہ اخلاقی طور پر سب سے اعلی مقام پر فائز تھا۔ اخلاقی بلندی کا یہ حال تھا کہ دشمن بھی اسے صادق اور امین کے نام سے پکارا کرتے تھے۔ آپؐ کے اخلاقیات کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ "بے شک آپؐ اخلاق کے اعلی مرتبے پر قائم  ہیں”اور امّت کے لئے یہ حکم ہے کہ آپ لوگوں کے لئے پیغمبرؐ کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔

جدید دور کا ذکراگر کیا جائے تو جان ڈیوی کا ذکر آتا ہے جنہوں نے امریکہ کو یہ مشورہ دیا کہ اگر امریکہ حقیقی معنوں میں ترقی چاہتا ہے تو اسے ترقی کے تمام پہلووں پر نظر رکھنا ہوگا   بے غیر تربیت کے تعلیم نقصان کا باعث ہوگا۔ کیونکہ ترقی ایک معاشرے کی ہو یا فرد کی! ۔۔۔ ترقی کے تمام پہلووں پر کام کرنے سے ہی ترقی یافتہ معاشرہ یا ترقی یافتہ فرد کی تکمیل ہوتی ہے، کیونکہ بقول جان ڈیوی ترقی ایک کثیر جہتی عمل ہے اور سارے  عمل سے گذر نے کے بعد ہی کوئی معاشرہ یا کوئی فرد ترقی یافتہ بن سکتا ہے۔ ورنہ ممکن نہیں۔

درجہ بالا حقائق کو مدنظررکھ کر جب ہم اپنے معاشرے کو دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم کبھی بھی ترقی نہیں کر سکیں گے۔ کیونکہ ہم ترقی کو ابھی تک سمجھنے سے ہی قاصر ہیں۔ تو اپنائیں گے کیسا..؟؟؟

ہمارے ہاں ملکی ترقی نہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ جہالت کو قرار دیا جاتا ہے۔ جب بھی اس حوالے سے کوئی سروے یا ڈیبیٹ کیا جائے تو بلا جھجک لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہمارا ملک اس وقت تک ترقی نہیں کرے گی جب تک معاشرے کے تمام افراد تعلیم یافتہ نہیں ہونگے۔ اور دوسری طرف اگر غربت یا دہشت گردی جیسے سنگین معاشرتی مسائِل کے سد باب کے لئے اقدامات کی ضرورت پڑتی ہے تو کرپشن کو ان تمام مسائل کی ماں کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔مگر جب  ہم کرپشن  اور تعلیم،  دونون کو مد نظر   رکھ کر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے  کہہ ہمارا نظام ِ تعلیم ہی ہمیں کرپٹ ہونے میں مدد دیتی ہے۔
فرض کریں  ہم مان لیتے ہیں کہ تعلیم سے ہمارے سارے مسائل  حل ہو جائیں گے۔ غربت اور کرپشن جیسے ناسور پر بھی قابو پاسکیں گے۔ تو سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ کرپشن میں جہالت کا کتنا ہاتھ ہے اور تعلیم کا کتنا۔ہم ملک کے ٹاپ ٹین کرپٹ لوگوں کا اگر لیسٹ بناتے ہیں پہلے نمبر پر ڈاکٹرز ، انجیئیرز، پروفیسرز، آرمی کے جنرلز، نیز وہ تمام لوگ جو اعلی عہدوں پر فائز ہوتے ہیں وہ سب ہمیں کرپٹ ملیں گے  اور ان عہدوں پر تعینات ہونے کے لئے مطلوبہ فیلڈ میں ااعلی تعلیم درکار ہوتی ہے اور جو بھی بندہ ایک ذمہ عہدے پر تعینات ہوتا /ہوتی ہے یقیناً  وہ اعلی تعلیم یافتہ بھی ہوگا/گی۔ جبکہ جاہل آدمی کے پاس موقع ہی نہیں ہوتا کہ وہ کرپشن کرے۔ اب یہ ثابت ہوا کہ کرپشن میں اعلی تعلیم یافتہ لوگ ہی ملوث ہیں۔ جہالت کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔

آئے روز ہمارے اعلی تعلیمی اداروں سے  کرپشن میں ملوث لوگ گرفتار کئے جاتے ہیں۔ دہشت گردی میں ہمارے اعلی تعلیمی اداروں کے ملوث ہونے کے ثبوت مل گئے ہیں۔ آج تک جتنے بھی  کرپشن کے کیسز سامنے آئے ہیں ان تمام میں اعلی تعلیم یافتہ لوگ ہی ملوث پائے گئے  ہیں۔ مگر کہیں بھی  ہمیں جہالت قصوروار دیکھائی نہیں دیتا۔ آخر وجہ کیا ہے کہ ہم  تعلیم  حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ غیر ذمہ دار ، بداخلاق، بد کردار، منفی سوچ کے  مالک  اور کرپٹ بنتے جا رہے ہیں۔ تو اس کا صرف ایک ہی جواب ہے کہ ہم نے ترقی کے صرف ایک پہلو پر زور دے رہے ہیں اور  وہ ہے تعلیم۔ جبکہ ترقی ایک کثیر جہتی عمل ہے اور ہم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکیں گے جب تک ہم ترقی کے ان تمام مراحل سے خود کو نہیں گذاریں گے۔اور جب تک   ہم اپنی  نئی نسل کو عقلی، جسمانی، جذباتی، معاشرتی،  اخلاقی اور تعلیمی پہلووں پر یکسان توجہ دیکر اسے ایک حقیقی ترقی یاقتہ نسل نہیں بنائیں گے تب تک ہمارے ترقی کرنے کا خواب ، خواب ہی رہے گی ۔  اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم تعلیم کے ساتھ ساتھ ترقی کے ان تمام پہلووں  پر عمل کو یقینی بنا کر عملی اقدامات شروع کریں گے۔ ورنہ تربیت سے خالی یہ تعلیم ہمیں لے ڈوبے گی۔ اور آئے روز فائدہ حاصل کرنے کے بجائے ہمیں قیمت ادا کرنی پڑے گی۔  جن کی واضح مثال وہ تمام اعلی تعلیم یافتہ لوگ ہیں جن کی تعلیم سے معاشرے میں خیر کے بجائے شر پھیل رہی ہے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو نیک عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ امین۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button