شعر و ادبکالمز

تلخیوں سے پہلے

گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصے کے دوران ایسے ادبی رویّے مرتب ہوئے ہیں اور اُن کی روشنی میں ادب کے بارے میں بحث ہوئی ہے جن کی بہت کم جانچ پرکھ کی گئی ہے اور اُن کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے یا لکھا گیا ہے اُس سے صرف ادبی رویّوں کے متعلق معلومات ہی حاصل ہوئی ہیں۔ لکھنے والوں نے اِن رویّوں کو ادبی رویّے کہہ کر ایک محدود صورت دی ہے کہ اِن ادبی رویّوں سے شاید تخلیقی طور پر ہی مدد لی جاسکتی ہے اور غالباً اِن رویّوں کے ساتھ لکھے جانے والے ادب کا معاشرے کے ساتھ کوئی رشتہ بھی نہیں ہے۔ تاہم معاشرے کی جتنی مذمت ہوئی ہے اور پچھلی پانچ نسلوں کے دوران معاشرے کو جس شدّت اور سختی کے ساتھ بُرا بھلا کہا گیا ہے اُس کے نتیجے میں معاشرے کو ادبی حوالہ بنانا بھی اتنا آسان نہیں رہا اور کبھی کبھی خیال گزرتا ہے کہ معاشرے کی نفی سے ادب نے کیا کھویا ہے؟ اِس پر بھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا۔ کچھ ایسی ہی کیفیت اِنسان کی ہے۔ اِنسان بھی اپنا باوقار مقام کھو چکا ہے اور اُس کی جگہ آدمی اور لوگ ظاہر ہوئے ہیں……….. ادبی اور فکری رویّوں کی دُنیا میں ایک امر یہ نمایاں ہوا ہے کہ لکھنے والوں کی تنہائی سے اُن کا عروجی سفر اور مقامِ نظر چھن گیا ہے اور اس کی بجائے ہجوم نے تنہائی پر یورش کی ہے اور لکھنے والوں کو مجبور کیا ہے کہ روزمرہ کی تاریخ کو تاریخ کا نام دیں اور حالات کے بہاؤ کو اُس کی تمام تر بے یقینی کے ساتھ قبول کریں۔ اِس کیفیت کے ساتھ یہ سوال بھی بے محل ہوا ہے کہ ہم کہاں آباد ہیں؟ کیا ہم تاریخ میں آباد ہیں؟ اِس کا جواب ملا ہے کہ ہم حالات کے بہاؤ میں آباد ہیں؟ اور جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ ہماری منزل کیا ہے؟ تو جواب میں آوازیں سنائی دیتی ہیں کہ حالات کے بہاؤ کی منزل بہاؤ کی منطق بتاتی ہے۔ اِس لیے جب اِس کی کیفیت میں تاریخ اور حالات کے بہاؤ کے مابین کسی قسم کے رشتے کا ذکر ہوتا ہے تو ادب بھی خاموش نظر آتا ہے اور فکرونظر کے رویّے بھی کوئی جواب نہیں دیتے………… گزشتہ نصف صدی کے دوران ہم اِنہی بتدریج سوالوں میں محصور ہوچکے ہیں اور ہمارے ادبی رویّے اِن سوالوں ہی کی گونجی ہوئی اور کمزور پڑتی ہوئی صدا ہیں!

زندگی کی جس کیفیت کا ذکر بھی کیا جائے وہ بدلتے ہوئے عالمِ تغیر کا ایک مسلسل منظر ہے جہاں صرف گزرے ہوئے واقعات اور رونما ہوتے ہوئے حادثات دِکھائی دیتے ہیں۔ اِس چھوٹی سی تمہید کے باندھنے کا میرا مقصد یہ ہے کہ میں جس معاشرے میں رہتا ہوں وہاں کی اخلاقی اقدار تاریخ کے اُن گم گشتہ اوراق سے ذرا بھی مختلف نہیں۔ میں جس معاشرے میں رہتا ہوں بدقسمتی سے وہاں اخلاقی اقدار زوال پذیر ہوچکی ہیں………… جی ہاں، جس معاشرے میں ایک اعلیٰ تعلیمی اِدارے کی ہیڈ قومی زبان سے ناآشنا ہو، جس علاقے کی اسمبلی کا اسپیکر سرِعام سیاسی نابالغ ہونے کا برملا اِظہار کرے، جس علاقے کا وزیراعلیٰ جذبات کی رو میں بہہ کر بیانات دیتا ہو، جس ملک میں اِسلام کے ماننے والے کروڑوں مسلمان اپنی ایک بیٹی کی عزّت نہ بچاسکے ہوں اور اپنے ضمیر اور ایمان کا سودا چند ڈالروں میں طے کیے ہوں، جس علاقے میں غیرت سسک رہی ہو اور حمیت جاں بلب ہوچکی ہو، جی ہاں، جس علاقے کے سیاست دان سیاست کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھتے ہوں، جس علاقے کے اعلیٰ تعلیمی اِدارے میں اُستاد اور شاگرد کا مقدس رشتہ رومانس کی نذر ہو…………، جس تعلیمی اِدارے میں یومِ پاکستان کو ملی یکجہتی کے طور پر منانے کی بجائے………. رہنے دے کہانی لمبی ہے ڈر لگتا ہے۔ سچ کہا ہے بشیر بدر نے ؂

جی بہت چاہتا ہے سچ بولیں

کیا کرے حوصلہ نہیں ہوتا

ایسی صورت میں میری حالت کچھ اس طرح ہے ؂

دُنیا نے گھول دیں میرے لہجے میں تلخیاں

میں گفتگو کا شوق بھی پورا نہ کر سکا

جس معاشرے میں عشروں پیارو محبت سے رہنے والے مسلمان آپس میں دست و گریباں ہوں اور مذہب کے ٹھیکیدار (نیم مُلاّ) تبلیغِ دین کی آڑ میں جہالت و جاہلیت کا درس دے رہے ہوں، جہاں ایک مسلمان کے ہاتھوں دوسرے مسلمان قتل ہو، قاتل غازی کہلائے اور مقتول شہید………… تو ایسے معاشرے میں تلخیاں جنم لیتی ہیں اور زوال اُس معاشرے کی تقدیر میں لکھی ہوئی ہوتی ہے۔ ایسے میں ایک زندہ ضمیر کے مالک اِنسان گھٹ گھٹ کے مرتا ہے اور مر مر کے جیتا ہے اور رانا سعید دوشیؔ کے اِس شعر کے مصداق یہ کہنے پہ مجبور ہوتا ہے ؂

میں چُپ رہوں تو مجھے مار دے گا میرا ضمیر

گواہی دی تو عدالت میں مارا جاؤں گا

یا ایسے ہی حالات میں میرے دوست خوشی محمد طارقؔ کے یہ اشعار اور زیادہ نکھر کر سامنے آتے ہیں ؂

ساحلوں سے موج کی مجبوریاں قائم رہیں

فاصلے کم ہوگئے، پر دُوریاں قائم رہیں

وقت کی شیریں رُتوں سے ہم نہ کر پائے نباہ

زندگی بھر زندگی سے ’’تلخیاں‘‘ قائم رہیں

حبیب جالبؔ نے کیا خوب کہا ہے ؂

اِس درد کی دُنیا سے گزر کیوں نہیں جاتے

یہ لوگ بھی کیا لوگ ہیں، مر کیوں نہیں جاتے

آنسو بھی ہیں آنکھوں میں، دُعائیں بھی ہیں لب پر

بگڑے ہوئے حالات سنور کیوں نہیں جاتے

مجھے معاف کر دیجئیے گا کہ میں شاید نہ چاہتے ہوئے وہ سب کچھ کہہ گیا………… جسے کہنے اور سننے کے لیے دِل، جگر اور گردے کی ضرورت ہوتی ہے………… اور شاید مجھے قتیل شفائیؔ کے اِن اشعار نے مجبور کر دیا ہو کہ میں نے تلخیوں کا اِظہار بھی تلخیوں سے کیا ؂

دیتے ہیں اُجالے میرے سجدوں کی گواہی

میں چُھپ کے اندھیروں میں عبادت نہیں کرتا

دُنیا میں قتیلؔ اُس سا منافق نہیں کوئی

جو ظلم تو سہتا ہے، بغاوت نہیں کرتا

چونکہ یہ کتاب میرے اخباری کالموں کا مجموعہ اور کلیاتِ کریمی کی تیسری جلد ہے۔ اِس لیے تلخیوں کے اِس البم میں میرے چند ایسے مضامین بھی شامل ہیں۔ جن کے منظرِعام پہ آنے کے بعد ایک بڑے پیمانے پر ہلچل مچی………… ضمیر کی آواز پر کورٹ کچہریوں تک کا چکر لگایا گیا………… مگر نیت صاف اور دِل میں قومی درد کو محسوس کرنے کا جذبہ ہو تو منزل آسان ہوجاتی ہے۔ بس میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا جو اکثر ایسے کاموں میں ہوتا ہے۔ اِن مضامین کے مطالعے سے آپ خود اندازہ کرسکیں گے کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا؟ فیصلہ آپ کا!!!

میں کئی بار اپنے مفاد میں یہ بات کہہ چکا ہوں کہ جب جب زندگی مجھے سمجھوتہ (Compromise) پر مجبور کرتی ہے تو میری ماں میرے سامنے کھڑی ہوتی ہے اور میرا ہاتھ تھام کر کہتی ہے کہ ’’بیٹا! زندگی سمجھوتے کا نہیں بلکہ کچھ کر گزرنے کا نام ہے۔‘‘ اِس لیے میں سچ لکھنے اور کہنے کی کوشش کرتا ہوں کیونکہ میں اپنی ماں کے ساتھ دھوکہ نہیں کرسکتا۔ بس میرے لکھنے کے پیچھے یہی جذبہ کارفرما ہے۔ چونکہ ادبی و صحافتی میدان میں میری حیثیت ایک طفلِ مکتب سے زیادہ نہیں لیکن ایک عشرے سے زیادہ عرصے کی وابستگی ضرور ہے۔ اس لیے میں اپنے تجربات و مشاہدات کو حضرت جوش ملیح آبادی کے اِن اشعار کے آئینے میں دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں ؂

مرے دِل میں ہیں تلخیاں تجربوں کی

یہ مانا یہ لمحے سہانا بہت ہیں

نجوم و گُل و خار و ذرّات و مرجاں

مری فکر کے آشیانے بہت ہیں

جدال و قتال، اِنتقام و عداوت

محبت کے یارو فسانے بہت ہیں

ہر اِک لمحہ صدیوں کا پالا ہوا ہے

زمانے کے اندر زمانے بہت ہیں

کلیاتِ کریمی کی اِس جلد میں چند مضامین کے ساتھ کچھ کتابوں پر تبصرے اور ایک افسانہ بھی شامل کیا گیا ہے۔ خصوصیت سے ان احباب کے مضامین کو جگہ دی گئی ہے جنہوں نے میری تحریروں کے ردِّعمل میں اپنا مؤقف مختلف اخباروں میں لکھا۔ پھر سہ ماہی ’’فکرونظر‘‘ کی پہلی سالگرہ پر لکھے گئے گلگت بلتستان کے شعراء کے کلام کو بھی جگہ دی گئی ہے۔ میں ان صفحات میں ان تمام دوستوں کا شکرگزار ہوں جنہوں نے ہمیں اپنی تحریروں، اپنے کلام اور اپنے خطوط کے ذریعے یاد کیا۔ اُمید ہے میری یہ کاوش بھی حلقۂ علم و ادب میں میری پہلی کاوشوں کی طرح قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی۔

اس کتاب کے بارے میں اتنا کہنا چاہوں گا کہ ؂

ذائقے میں ذرا سا کڑوا ہے

ورنہ سچ کا کوئی جواب نہیں

میں اپنے والدین کی محبت و عنایت کا ذکر نہ کروں تو ناشکری کی اِنتہا ہوگی، جن کی حیات میرے اُوپر شجرِ سایہ دار کی طرح ہے اور جن کی شفقت بھری تربیت و پرورش سے مجھے منزل ملی۔ دوست، احباب اور دیگر رشتوں کی اَصلیت تب سامنے آجاتی ہے جب اِنسان مسائل کا سامنا کرتا ہے۔ پھر نہ دوستی قائم رہ سکتی ہے، نہ رشتے کام آتے ہیں اور نہ احباب کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ایسے حالات میں والدین ہی وہ سرمایہ ہوتے ہیں جو قدم قدم پر آپ کے لیے دُعاگو ہوتے ہیں۔ میرے سفرِ زیست کی کامیابیوں کے تمام شگفتہ پھول اُن کے قدموں کی عظمت پر نچھاور ہوں۔

میں محترم پروفیسر حشمت علی کمالؔ الہامی کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اپنی قابلِ قدر مصروفیات سے وقت نکال کر کتاب کے مسوّدے کو پڑھا، اس کی نوک پلک درست کی اور اپنے قابلِ قدر منظوم تأثرات سے بھی نوازا۔

جناب محمد حسن حسرتؔ میرے خصوصی شکریے کا مستحق ہے انہوں نے اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود کتاب کا مسوّدہ پڑھا اور اس کا فلیپ لکھا۔

وائس آف امریکہ کی اُردو سروس کی محترمہ مدیحہ انور صاحبہ کا ازحد شکریہ کہ انہوں نے اپنی مصروفیات سے وقت نکالا اور کتاب پر اپنی رائے دی۔ یہ غالباً دسمبر ۲۰۱۲ء ؁ کی بات ہے کسی ڈائجسٹ میں آپ کا لکھا ہوا خط بینائیوں کی نذر ہوا۔ میں مدیحہ صاحبہ کے اس خط کے بارے میں بہ زبانِ شاعر صرف اتنا کہہ سکتا ہوں ؂

خط اُن کا بہت خوب، عبارت بہت اچھی

اللہ کرے حُسنِ بیاں اور زیادہ!

آخر میں اپنی مسز محترمہ سوسن پری کریمی صاحبہ کا شکریہ جو ’’فکرونظر‘‘ میگزین کی ایڈیٹر بھی ہیں کہ انہوں نے ہر حوالے سے میرا ساتھ دیا اور ایک مثالی شریکۂ حیات ہونے کا ثبوت دیا۔ رب سے دُعا ہے کہ ہم ہمیشہ ساتھ رہ سکیں۔

میں اُن تمام دوستوں کا بھی ممنون ہوں جو اِن تلخ حالات میں میرے ساتھ رہے۔ اللہ تعالیٰ اُنہیں جزائے خیر دے۔ آمین!

……………………………………………….

کلیاتِ کریمی کی تیسری جلد ’’تلخیاں‘‘ کا دیباچہ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button