گلگت: گلگت بلتستان کی مقامی زبانوں کی ترویج و تدوین، مقامی زبانوں میں ادب کے فروغ اور تحقیاتی اکادمی کے قیام کا عزم لئے علاقے کی تاریخ کا پہلا ادبی میلہ قراقرم انٹرنینشل یونیورسٹی گلگت میں شروع گیا۔ میلہ کل بھی جاری رہے گا۔
ادبی میلے کے پہلے روز پاکستان بھر سے نامور ماہرین لسانیات، ثقافتی و سماجی تنظیموں کے نمائندوں، مقامی مصنفین اور دانشور، ماہرین تعلیم، شعرا اور ادبا نے بڑی تعداد میں شرکت کی ۔
ادبی میلے کے پہلے سیشن میں ملک بھر سے مختلف مہمان شخصیات نے پریزینٹیشنز دیں، جن میں صلاح الدین مینگل ،چیئرمین براہوی اکیڈیمی بلوچستان نے براہوی زبان کی تدوین کے حوالے سے اقدامات ، قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کی جانب سے فوزیہ منصور نے زبان ایک شناخت اور کے آئی یو کی کامیابیوں کے حوالے سے شرکاء کو آگاہ کیا ۔فورم فار لینگویج انیشیٹیوز کی جانب سے امیر حیدر نے مادری زبان بذریعہ تعلیم ، علامہ اقبال یونیورسٹی کی جانب سے ڈاکٹر عبدالواحد شاہ نے زبان کی اہمیت اور شعبہ لسانیات میں پڑھائی جانے والی مختلف علاقائی زبانوں کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی ۔ اسلامیہ یونیورسٹی پشاور کے چیئرمین شعبہ پشتو ڈاکٹر اباسین یوسفزئی نے گلگت بلتستان کے مجوزہ لینگویج اکیڈیمی کے تنظیمی ڈھانچے کے بارے میں ایک جامع پریزنٹیشن دی جس کو شرکاء نے نہایت سراہا ۔
ادبی میلے میں شریک ڈائریکٹر جنرل لوک ورثہ فوزیہ سعید ، بلوچ اکیڈیمی کی جانب سے ممتاز یوسف اور سی سی جی کی جانب سے ، ثروت وزیر نے بھی خطاب کیا اور مختلف علاقائی زبانوں ، ثقافتی و ادبی سرگرمیوں کے فروغ کے لئے ملک بھر میں جاری اقدامات سے آگاہ کیا ۔
میلے کے ابتدائی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے مہمان خصوصی چیف سیکریٹری گلگت بلتستان ڈاکٹر کاظم نیاز نے کہا کہ زبان کسی بھی علاقے کی شناخت ہوتی ہے اور گلگت بلتستان میں وسیع تنوع پایا جاتا ہے ،یہاں کی ثقافت رنگارنگ اور دلچسپیوں سے بھرپور ہے ۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کی دلچسپی اور انتظامیہ کی کوششوں کے باعث اس خطے کی زبانوں کو محفوظ رکھنے اور ان کی ترقی کے لئے ریسرچ اکیڈیمی کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے ۔صوبے میں پہلی دفعہ ادبی میلے کا انعقاد اس ضمن میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا ۔انہوں نے مزید کہا کہ یونیورسٹی کے طلبہ کے لئے اس ادبی سرگرمی میں شرکت ایک اہم موقع ہے جہاں ہماری آنے والی نسلیں اور مستقبل کے معمار اپنے کلچر ، زبان اور ادب کے حوالے سے بہتر طور پر روشناس ہوسکیں گے ۔گلگت بلتستان ادب اور تاریخ کے میدان میں بھرپور مقام رکھتا ہے ،ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے کے لئے اقدامات کئے جائیں ۔ صوبائی حکومت کی جانب سے ادبی میلے کا انعقاد اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے ،آنے والے دنوں میں اکیڈیمی کے قیام کی راہ ہموار کرنے کے لئے ہمیں ملک بھر سے ماہرین کی تجاویز درکار تھی جس کے لئے اس ادبی میلے کو پلیٹ فارم بنایا گیااور نامور ادبی شخصیات کو اس خطے میں مدعو کیا گیا ہے ۔ انہوں نے اس امید کااظہار کیا کہ اس دوروزہ ادبی سرگرمی کا حاصل نہایت ہی مثبت ہوگا اور ماہرین کی جانب سے دی جانے والی تجاویز کی روشنی میں گلگت بلتستان میں اکیڈیمی کے قیام کے لئے راہ متعین ہوگی ۔ حکومت ان تجاویز کی روشنی میں سنجیدہ اقدامات کرے گی اور اس قیمتی ورثے کو کامیابی سے محفوظ رکھنے کے لئے ہر ممکن کوشش کریگی تاکہ آنے والی نسلیں اپنے آباو اجداد کی زبان کو مزید پھلتا پھولتا دیکھ سکیں۔ا
قبل ازیں سیکریٹری برقیات و پانی ظفر وقار تاج نے کانفرنس کے اغراض و مقاصد کے حوالے سے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ75سالوں سے نظر انداز ادبی میدان میں صورتحال کی بہتری کے لئے صوبائی حکومت کی جانب سے اس ادبی میلے کا انعقاد کیا جارہا ہے ۔ ابتدائی مرحلے میں علاقے کی پانچ زبانوں کو آگے لیکر چل رہے ہیں ۔ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی سے منظور شدہ قرارداد کے تحت ان مقامی زبانوں کو باقاعدہ نصاب میں شامل کرنے کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں ، جس کے لئے ملک بھر سے ماہر لسانیات اپنی تجاویز پیش کریں گے ۔ ادبی میلے کے اختتام تک مفید اور مثبت تجاویز اور بحث و مباحثہ آنے والے دنوں میں مقامی سطح پر ادبی اکیڈیمی کے قیام کی راہ ہموار کرے گا۔ اس موقع پر سیکریٹری سیاحت وقار علی خان اور سیکریٹری انفارمیشن فدا خان بھی موجود تھے۔
ادبی میلے کے دوسرے سیشن میں محفل مشاعرہ کا بھی اہتمام کیا گیا تھا جس میں ملک بھر سے آنے والے شعراء کرام ڈاکٹراباسین یوسفزئی ،صغریٰ صدف، پروفیسر اسحاق، شمس محمد مہمندکے علاوہ گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے شعراء ، محمد امین ضیاء، جمشید خان دکھی ، عبدالخالق تاج ، ن ظفر وقار تاج ، نظیم دیا ، عزیز الرحمن ملنگی ، لیلیٰ غازی ، عاشق حسین عاشق ، رضا عباس تابش ، نذیر حسین نذیر ، حور شاہ حور، لال جہان، نیت شاہ قلندری ، شیرباز علی گنشی ، اخونزادہ محمد ابراہیم ، غلام عباس صابر، شمس نوازش غذری ،رضا بیگ گھائل، عصمت اللہ مشفق نیازی جاوید حیات کاکا خیل، علی قربان، سیف سمیت جہانگیر بابر نے اپنا کلام پیش کرکے حاضرین سے خوب داد وصول کی ۔
مشاعرے سے خطاب کرتے ہوے صوبائی وزیر برقیات حاجی اکبر تابان نے کہا ہے کہ ادبی مید ان میں گلگت بلتستان کی سرزمین نہایت ہی زرخیز ہے۔ ادب ہماری میراث ہے اور اس کی ترقی و ترویج کے لیئے صوبائی حکومت کوشاں ہے۔ گلگت بلتستان میں ادبی میلے کے انعقاد کا مقصد اس خطے کی زبانوں ، ادب اور ثقافتی ورثے کو محفوظ کرنا ہے ۔ ہمارے شعرا ء اور ادبی ورثہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس خطے نے کئے نامور سپوت پیدا کیئے ہیں جو کہ ہمارا اثاثہ ہیں۔ حکومت نے صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 5 کروڈ کی رقم ادب کے شعبے کی ترقی کے لیے مختص کی ہے۔ قراقرام انٹرنیشنل یونیورسٹی میں گلگت بلتستان کے اولین ادبی میلے کی تقریب میں محفل مشاعرہ سے خطاب کرتے ہوئے وزیر برقیات اکبر تابان نے کہا کہ ادب کے شعبے کو ماضی میں نظر انداز کیا جاتا رہا ہے مگر موجودہ صوبائی حکومت مقامی زبانوں کی ترقی اور ادب کے فروغ کے لئے جامع اقدامات کر رہی ہے، ادبے میلے کے انعقاد کے بعد اس سمت میں حکومت کئی اور مثالی اقدامات کرے گی۔ شعرا ء اور ادیبوں کی کاوشوں کو حکومت قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور قیام امن کے قیام کے لئے ان کا کردار بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ عبدالخالق تاج کا ادب کے شعبے میں ایک بڑا نام ہے اور اس اہم شعبے کی ترویج اور ترقی میں اہم اور کلید ی کردار ہے۔
اس سے قبل محفل مشاعرے کے میر محفل صوبائی وزیر سیاحت و ثقافت فدا خان فدا نے کہا کہ ملک بھر کے ددیگر صوبوں سے گلگت بلتستان میں منعقد ہونے والے اولین ادبی میلے میں کثیر تعداد میں ادبی شخصیات کی شرکت کرنے پر گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت اور عوام کی طرف سے ان کا شکریہ ادا کیا اور ان کو خوش آمدید کہا ۔
پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔