کالمز

مجھے کیوں نکالا

تحریر؛ اسد علی شاہ اسد ؔ

نواز شریف تین بار مملکت پاکستان کے وزیر اعظم بنے،لوگوں نے ووٹ دئے،آپ پر اعتماد کیا لیکن آپ لوگوں کی خدمت کرنے میں ناکام رہے۔آپ کو جمہوری دور میں بھی منصب سے ہٹایا گیا اور آمریت کے دور میں بھی ،کیونکہ آپ نے قوم کی امانت میں خیانت کیا،آپ نے پورے نظام کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔آپ نے اسلام آباد سے لاہور تک مارچ کیا اور عوام سے یہ پوچھتے رہے کہ ’’مجھے کیو ں نکالا گیا‘‘۔یہ سوال عوام الناس سے پوچھنے کی بجائے اپنے آپ سے پوچھئے،اپنے ضمیر سے پوچھئے کہ تین بار آپ کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے کیوں رسوا کر کے نکالا گیا؟افسوس ہے ان لوگوں پہ جو آپ کا استقبال کرتے ہیں،آپ کی حمایت میں کھڑے ہوتے ہیں۔وہ یہ نہیں جانتے کہ کرپٹ نظام کی حمایت کرپشن کو طول دینے کے مترادف ہے۔آپ نے اپنے خاندان والوں کے ہمراہ تیس سال تک اس ملک کو لوٹا،

پاکستان سٹیل مل،پی آئی اے،ریلوے،واپڈاجیسے قومی ادارے آپکی حکومت میں دیوالیہ پن کا شکار ہو گئیں،جبکہ آپکی ملکیتی سٹیل ملزسونے کی کان ثابت ہورہی ہیں،کیوں؟آپکی درجنوں فیکٹریاں دبئی ،لندن اور دیگر کئی مقامات پر سونا اگل رہی ہیں ان کی تفصیل تو والیم 10کے منظر عام پر آنے کے بعد عوام کو واضح ہوگا۔۔۔۔پھر بھی آپ عوام سے پوچھ رہے ہیں کہ ’’مجھے کیوں نکا لا گیا‘‘ ؟۔

پاکستان کی عدلیہ نے پہلی بار آزادانہ طور پر کام کرتے ہوئے فیصلہ صادر کیا ہے،آپ کو موقع دیا کہ اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کریں،آپ ناکام رہے،اعلیٰ افسران پر مشتمل غیر جانبدار جے آئی ٹی تشکیل دی،اس میں بھی اپنی صفائی پیش نہ کرسکے،پھر رونا کس بات کا؟

نواز شریف صاحب:اس قوم کی حالت کس قدر قابل رحم ہے جس کے حکمران بے ضمیر اور جھوٹے ہیں،یہ قوم حالت خواب میں ان نمائندوں سے شدید نفرت کرتے ہیں لیکن حالت بیداری میں اطاعت پر مجبور کیا گیا ہے۔

اس قوم کی حالت کس قدر قابل رحم ہے جس کے حکمران لومڑی کی طرح مکار اور ضمیر فروش ہیں ۔وہ لوگ عزت نفس کی بات کرتے ہیں جن کی چوری کے اثاثے براعظموں تک پھیلے ہوئے ہیں اور ان کے بچے راتوں رات ارب پتی بن رہے ہیں۔افسوس ہوتا ہے ان نام نہاد لیڈروں پر جن کے تیس سالہ دور حکومت میں 35ارب ڈالر کے قرضے تلے ملک مفلوج ہوکر رہ گیا جبکہ ملک عزیز چھیا سٹھ سالوں میں اتنا مقروض نہیں تھا ۔صرف ایک وزیر اعلیٰ کی سیکورٹی پر عوام کے دس ارب روپے خرچ کرنے والی حکومت کس منہ سے عزت نفس کا ذکر کررہی ہے؟

خدا کا قانون عقل اور فطرت کا قانون ہے اس کی اطاعت ہمارے لئے باعث خیروبرکت ہے اور سرکشی کا انجام جہنم ہے،ایماندار اور جہاندیدہ حاکم کی اطاعت جائز اور روا ہے ،اقبال نے کہا تھا کہ؛

گریز از طرز جمہوری، غلامِ پختہ کار شو

کہ از مغز دوصد خر،فکر انسانی نمی آید

’’جمہوریت کے سلسلے میں ہمیشہ چوکنا رہو اور ایک آزمودہ کار لیڈر کی تابعداری کرو کیونکہ دو سو گدھوں کا دماغ مل کر بھی ایک عام انسان کا ذہن پیدا نہیں کرسکتے‘‘

لیکن جاہل کی اطاعت بدترین غلامی ہے ،انسان اپنے قسمت کا مالک نہیں لیکن اپنے اعمال کا ذمہ دار ضرور ہے ۔خدا نے انسان کو عقل دی ہے تو لازم ہے کہ وہ خیروشر ،عذاب وثواب اور نشیب وفراز کے درمیان امتیاز کرے اور اپنے لئے فلاح کا راستہ خود متعین کرے۔نیلسن منڈیلا کا قول ہے کہ’’ میرے بعد میرے خاندان کے کسی فرد کو میرے قربانیوں کی بدولت کوئی مقام نہ دیا جائے بلکہ جس نے زیادہ جدوجہد کی مقام اور مرتبہ اسی کا حق ہے‘‘۔

جس ملک میں قابلیت ،لیاقت اور صلاحیت کی بجائے موروثیت کی بنیاد پر حاکم مقرر کئے جائیں تو وہاں عوام کی بجائے ایک خاندان کی خدمت پر ساری جماعت مامور کی جاتی ہے جس سے ملک ورعایا تباہ جبکہ حکمران خاندان آباد ہوتے ہیں ،منزل دور بھاگ جاتی ہے ،اس لئے دنیا کے عظیم رہنماؤں لینن،کاسترو،ماؤزے تنگ،چے گویرا،سٹالن ،نیلسن منڈیلا اور ہوگو شاویز نے اپنے خاندان کو پارٹی اور حکومت سے دوررکھااور حکومت کو عوام کی امانت سمجھ کر عوام کی خدمت کی ۔۔۔۔جناب نواز شریف صاحب، آپ نے تو عوام کی بجائے جاتی امراء کو عزیز جانا۔آپ عدالت کا فیصلہ بھی ماننے کو تیار نہیں،بطور ایک سیاسی لیڈر عوام کو غلط راستے پر ڈال دیا،ٹیڑھے راستے پہ سیدھا نہیں چلا جا سکتا،مردہ ضمیر کی بنیاد پر کردار نہیں بن سکتا ،جوانی اور خوبصورتی ڈھل جاتی ہے ،منوں مٹی تلے دفن ہوجاتی ہے لیکن کردار ہمیشہ زندہ رہتا ہے ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button