کالمز

خوشیوں کا ملک

عبدالکریم کریمی

شام ہو رہی تھی۔ دن بھر آفس کے کاموں میں تھکاوٹ و بوریت کی وجہ سے کچھ دیر سستانے اپنے بیڈ روم میں نیم دراز تھا مگر کم بخت نیند تھی کہ آنکھوں سے کوسوں دُور تھی۔ مجھے مجبوراً اسٹیڈی روم کی طرف جانا پڑا کہ کہیں کوئی ناول ہی پڑھ کر بوریت سے چھٹکارا حاصل کروں۔ صدیق سالک کا ناول ’’پریشرککر‘‘ اُٹھائے ابھی ایک دو صفحات ہی پڑھا تھا کہ موبائل کی گھنٹی بجی۔ اُٹھاکے دیکھا تو اسلام آباد میں زیر تعلیم میرے فرسٹ کزن عزیزم شوکت کا مسیج تھا۔ مسیج پڑھ کے نہ صرف حیرت ہوئی بلکہ صدیق سالک کے ’’پریشرککر‘‘ کی طرح میں بھی اپنی زندگی کے ’’پریشرککر‘‘ میں جلتا رہا۔ مسیج یہ تھا:

’’کون کہتا ہے کہ پاکستان میں غم ہیں؟ خوشیاں بھی تو بہت ہیں، یعنی لائٹ آنے کی خوشی………… بازار میں شاپنگ کے بعد زندہ گھر واپس آنے کی خوشی………… بس میں سیٹ ملنے کی خوشی………… مسجد سے نکلتے وقت چپل ملنے کی خوشی………… بس سے اُترنے کے بعد اپنی جیب میں پیسے دیکھنے کی خوشی………… گھر میں واپس آنے کے بعد موبائل نہ چھن جانے کی خوشی………… خوشیوں کا ملک پاکستان………… آئی لو پاکستان۔‘‘

قارئین! یہ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان! جس کے بارے میں ایک طالب علم کس طرح معنی خیز و مضحکہ خیز خیالات رکھتا ہے۔ وہ پاکستان، جس کی بنیاد قائد اعظمؒ نے رکھا تھا…………. ہاں وہ پاکستان، جس کا خواب شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے دیکھا تھا………… ہاں وہ پاکستان آج زر اور زمین کے چند پجاریوں کے ہاتھوں میں یرغمال بنا ہوا ہے۔ ہوس کے پجاری قوم کو کیا دیں گے؟ ہوس کی کوئی حد نہیں۔ یہ ہوس ہی تھی جس نے شداد سے جنت تعمیر کروائی اور قارون سے خزانے جمع کروائے………… یہ ہوس ہی تھی جس نے فرعون کو خدائی کے زعم میں مبتلا کیا اور اس گمان کے تسلسل کے لیے اس سے سینکڑوں معصوم اور بے گناہ جانوں کا قتل عام کرایا………… ظلم کی کوئی حد نہیں………… یہ بھائی کو بھائی سے مرواتا ہے………… نسلوں کی نسلیں ختم کرواتا ہے………… شہروں کے شہر تباہ کرواتا ہے………… اصل میں ہوس اور ظلم دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ یہ ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں۔ ہوس طلب کرتی ہے اور ظلم اس کی مانگ کا انتظام کرتا ہے………… ہوس نت نئی فرمائشیں کرتی ہے اور ظلم ان فرمائشوں کی تکمیل کے لیے طرح طرح کی حکمت عملیاں وضع کرتا ہے………… ہوس کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا اور ظلم کبھی تھکتا نہیں………… ہوس کا صرف جسم ہوتا ہے اور ظلم دِل سے محروم ہوتا ہے………… ہوس کی قریب کی نظر کمزور ہوتی ہے، چنانچہ جو اس کے پاس ہے یہ اسے نہیں دیکھتی اور دُور کی چیزوں پر نظریں گاڑ کر مزید کا نعرہ بلند کرتی ہے………… یہ ہوس ہے جو انسان کو انسانیت کی اعلیٰ و ارفع منزل تک پہنچنے سے روکتی ہے اور یہ ظلم ہے جو انسان کو جہالت کی گہرائیوں میں دھکیل دیتا ہے………… ہوس انسان کو اپنی دوستی کا فریب دیتی ہے اور پھر جونک بن کر اس کے ساتھ یوں چپکتی ہے کہ مرتے دم تک اس کے ساتھ رہتی ہے۔ ظلم اپنے آپ کو مضبوط ہتھیار کے طور پر پیش کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ جس کے پاس میں ہوں اسے کوئی گزند نہیں پہنچ سکتی لیکن جونہی انسان بے بس ہوتا ہے ظلم کا ہتھیار کند ہوجاتا ہے۔

قارئین! پاکستان کو بنے نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن آج حالت یہ ہے کہ ہم اپنے ملک کو ترقی پذیر ملک بھی نہیں کہہ سکتے۔ تنزلی کی طرف اس کا سفر تیزی سے جاری ہے۔ آج اس قدر مہنگائی ہے جس کا چند برس قبل تک تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ لوڈشیڈنگ نے زندگی کے ہر شعبے کو تاریکیوں میں دھکیل دیا ہے۔ امن کی ناقص صورتحال نے زندگیوں پر سے بھروسا ہی ختم کر دیا ہے۔ دیگر ممالک ہماری حدود میں من مانیاں کر رہے ہیں اور ہم مہر بلب ہیں۔ اس ساری صورت حالات اور تمام مصائب کی وجہ یہی دو امراض ہوس اور ظلم ہیں۔ پاکستان کو نصیب ہونے والے تمام حکمران ان ہی دو امراض میں مبتلا رہے ہیں۔ وہ ہوس کے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے ظلم کے ہتھیار سے پوری قوم کا شکار کرتے رہے ہیں۔

موجودہ حکمرانوں اور سیاست دانوں پر نظر ڈالیے………… ان کے اثاثوں کا جائزہ لیجئے………… ان کی دولت کا شمار ممکن نہیں………… ان کی جائیدادوں کا حساب آسان نہیں………… ان کے کتنے گھر ہیں اور کن کن ممالک میں ہیں………… کتنی کوٹھیاں ہیں اور کتنے فلیٹ………… کتنے زرعی فارمز ہیں اور کتنی حویلیاں………… کتنی گاڑیاں ہیں اور کن کن اقسام کی ہیں………… کتنے بینک اکاؤنٹس ہیں اور دُنیا کے کس کس حصے میں ہیں………… اندازہ ممکن ہی نہیں کیونکہ بہت کچھ ہے اور بے شمار ہے………… مال بڑھانے کی تگ و دو کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں کچھ سوجتا ہی نہیں۔ دولت کی کثرت نے ان کا یہ حال کر رکھا ہے کہ اس کی چکاچوند میں انہیں کچھ بھی نظر آنا بند ہوگیا ہے ماسوائے دولت کے۔ اُنہوں نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ ہوس کی تو کوئی حد نہیں ہے لیکن زندگی کی حد تو ہے۔

یہ صحیح ہے کہ دولت و جائیداد کا نشہ ہی بہت ہوتا ہے بلکہ آسائشات کا ہونا اور بے شمار ہونا ہی ان کی زندگی میں لطف پیدا کرتا ہے لیکن کب تک…………؟ جوں ہی موت کا گھنگرو گلے میں بجتا ہے………… سب کچھ یہی چھوڑ کر جانا پڑتا ہے………… موت پکارتی ہے تو انسان پیچھے مڑکر دیکھ ہی نہیں پاتا………… کچھ بھی ساتھ لے کر نہیں جاسکتا………… خالی ہاتھ اس مٹی کے گھر میں جانا پڑھتا ہے………… جس کا رقبہ بھی بے حد تھوڑا ہے………… جہاں نہ اے سی ہوتا ہے اور نہ ہی جگمگاتی روشنیاں………… ایک ایسا گھر جہاں مستقل لوڈشیڈنگ رہتی ہے۔

تاریخ بڑی ظالم ہوتی ہے یہ کسی کو معاف نہیں کرتی اور نہ کسی کی بے جا طرف داری کرتی ہے۔ کیا ایسے حکمرانوں کو کامیاب کہا جاسکتا ہے جو خالی ہاتھ دُنیا میں آئے تھے اور خالی ہاتھ ہی دُنیا سے رخصت ہوگئے اور جو موقع اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا کیا تھا کہ وہ ملک و قوم کی خدمت کرکے تاریخ میں اپنا اچھا مقام بنالیں اور اپنے نام کو امر کرلیں وہ موقع انہوں نے گنوا دیا کہ ساری عمر وہ دولت سے کھیلتے رہے جو آخر میں ریت ثابت ہوئی اور ہاتھوں سے پھسل گئی۔

تاریخ میں اپنا نام اچھے الفاظ میں لکھوانا، لوگوں کے دلوں کو ہمیشہ کے لیے مسخر کر لینا یہ موقع ہرکسی کو نہیں ملتا اور جس کو ملتا ہے وہ بے حد خوش نصیب ہوتا ہے۔ اب اس بات کا انحصار اس کے اپنے اوپر ہے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اُٹھاکر ہمیشہ کے لیے زندۂ جاوید ہوجائے یا موقع گنواکر گمنامی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب جائے۔

اس دُبلے پتلے سے شخص کو دیکھئے جسے دُنیا قائداعظم ؒ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ وہ چاہتا تو ساری عمر دولت سے کھیل سکتا تھا لیکن اس نے ایک اعلیٰ و ارفع مقصد کی خاطر زندگی گزاری اور جب وہ دُنیا سے رخصت ہوا تو خالی ہاتھ نہیں تھا………… دُعاؤں کی دولت اس کے ساتھ تھی………… آنسوؤں کے چراغ تھے………… جو اس کی قبر میں آج بھی روشنی دیتے ہیں………… آٹے، چینی، لوڈشیڈنگ اور مہنگائی کے مسائل میں پھنسی ہوئی قوم کو آج بھی اس بات کی پروا ہوتی ہے کہ اس کے قائد کی تصویر کسی ایوان سے اُتر تو نہیں گئی………… کون ہے جو اس کے خلاف بولنے کی جرأت کر سکتا ہے؟ کون ہے جو اس کی عزت خلقِ خدا کے دلوں سے کم کرسکتا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں اس عظیم انسان نے جو عزت کمائی، محبت کا جو بینک بیلنس اکٹھا کیا، وہ بھی کم ہونے والا نہیں کبھی ختم ہونے والا نہیں۔

موجودہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کو اللہ تعالیٰ نے موقع فراہم کیا ہے کہ ملک و قوم کی خدمت کریں۔ عوام کے مسائل حل کریں۔ ان کے مصائب کے بوجھ کو کم کریں۔ ملک کی خاطر خلوص اور حب الوطنی سے کام کریں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ حکمران اور سیاستدان ہوس سے اپنا دامن چھڑالیں۔ بے غرض اور خلوصِ دِل سے وطن کے مسائل کو حل کریں تو ہمیشہ کے لیے قوم کے ہیرو بن سکتے ہیں۔ تاریخ میں سنہری حروف سے اپنا نام لکھوا سکتے ہیں لیکن نہیں………… یہ تو دولت اکھٹی کرتے ہیں………… یہ تو صرف اپنی ہوس کے غلام ہیں………… گھر، فیکٹریاں، محل، زرعی فارمز، بینک اکاؤنٹس، بھوک اور دہشت گردی سے مرتی قوم کی طرف تو یہ آنکھ اُٹھاکر بھی نہیں دیکھتے۔ ان کے زخموں کے مرہم کے طور پر ان کے پاس صرف بیانات ہیں اور یہ کھوکھلے بیانات عوام کے غم کا مداوا نہیں لیکن آخر کب تک………… آخر کب تک میرے عزیز شوکت کی طرح ہر طالب علم جو ہمارے مستقبل کے امین ہیں۔ تذبذب کا شکار رہیں کہ کیا اس ملک میں ان کا مستقبل روشن ہے………..؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر ذی شعور انسان کو چین سے بیٹھنے نہیں دیتا۔ اللہ تعالیٰ سرزمین پاکستان کو شاد و آباد رکھے اور اس پاک دھرتی کو ہوس پرست قیادت سے محفوظ رکھے۔ آمین!

………………………………………………………………..

کلیاتِ کریمی کی جلد دوم ’’سسکیاں‘‘ سے ماخوذ حالاتِ حاضرہ پہ ایک کاٹ دار تحریر۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button