اہم ترینتعلیمکوہستان

ضلع کوہستان میں 42 بھوت سکولوں کی موجودگی کا انکشاف، ہزاروں بچیاں تعلیم سے محروم

کوہستان(نامہ نگار )کوہستان، ضلع بھر میں بچوں اور بچیوں کے بیالیس بھوت سکولوں کا انکشاف ہواہے ،جن کا دروازہ کبھی کھلا نہیں اور جن کی حالت نا گفتہ بہ ہے ۔

تفصیلات کے مطابق ضلع کوہستان لوئر اور اور اپر میں خواتین اور بچوں کے بیالیس سکول ایسے نکلے ہیں جو کبھی تعلیم کیلئے ایک دن نہیں کھلے ۔ اس انکشاف کے بعد مقامی سماجی کارکنوں نے عملا علاقوں کا دورہ کیا جن میں بنکڈ، رانولیا ، دوبیر ، پٹن ، کولئی پالس ، سیو اور کندیا شامل ہیں ۔ ان علاقوں کا دورہ کرنے والے سماجی کارکنوں میں حفیظ الرحمن ، محمو دخان ، ثقاب اور ماجد خان شامل ہیں ۔

حفیظ الرحمن کے مطابق سکولوں کی حالت بظاہر ایسے دکھائی دے رہی تھی کہ وہ ایک گھنٹے کیلئے بھی کھلے ہوئے نہ ہوں ، ریکارڈ کے مطابق مرمتی کا فنڈ محکمے سے وصول تو کیا گیا ہے مگر بلڈنگ پر صرف نہیں ہوا، بیشتر سکول سیلاب کی نظر بھی ہوچکے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ مقامی لوگوں کے مطابق آئی ایم یو (انڈیپنڈنٹ مانیٹرنگ یونٹ) کے اہلکار جب دورہ کریں تو چند ٹیچرز حاضر بھی ہوتی ہیں اور زیادہ تر لوگوں کے مطابق انہوں اُستانی کا نام نہیں سنا۔جس علاقے میں بچیوں کی سکول تعمیر ہے وہاں کے لوگ بچیوں کی تعلیم سے بے خبر ہیں ۔چند ایسے لوگ بھی ملے جن کا کہنا تھا کہ انہوں نے محکمے کو بھی رپورٹ کی مگر کوئی کاروائی نہ ہوئی ۔

بھوت سکولوں کی دریافت کے بعد معلوم ہوا کہ ان علاقوں میں ہزاروں بچیاں تعلیم سے محروم ہیں جو صوبائی حکومت کی پالیسی کی نفی کرتی ہے ۔بوسیدہ اور ٹوٹ پھوٹ کی شکار عمارتیں آثار قدیمہ کے مناظر پیش کررہی ہیں جن کا کوئی والی وارث بظاہر نظر نہیں آتا۔

سماجی کارکنوں کی تحقیق اور شواہد کے مطابق تحصیل پٹن میں سولہ (16)، تحصیل داسو میں (1) تحصیل کندیا میں (20) اور تحصیل پالس میں (5) بھوت سکول ہیں ۔جن کی تفصیل ڈاکومنٹ کی شکل میں موجود ہے ۔حفیظ الرحمن کے مطابق ان تمام سکولوں کے ٹیچرز مبینہ طور تنخواہوں سمیت تمام مراعات لے رہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں جبکہ مبینہ طورپر محکمہ ایجوکیشن کے ذمہ داران بھی ہفتے میں ایک آدھ دن کیلئے کوہستان کا چکر لگاتے ہیں اور حاضری کے بعد چلے جاتے ہیں ۔

اتنی کثیر تعداد میں بھوت سکولوں کی دریافت پر جب ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر زنانہ کوہستان شبیر حسین شاہ سے پوچھا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ پہلے مرحلے میں چونتیس سکول مرج کئے گئے ہیں اور سیکنڈ فیز میں انتالیس سکولوں کی تحقیق کے بعد ذمہ داروں کے خلاف کاروائی ہوگی ۔ آئی ایم یو جہاں ٹیچرز نہ ہونے کی رپورٹ کرتی ہے وہاں کاروائی کرتے ہیں ۔ اس سارے معاملے پر ہر ماہ میٹنگ ہوتی ہے ۔ اپنی طرف سے پوری کوشش کرینگے کہ بھوت سکولوں کا کوئی تاثر ہی نہ ہو۔

ڈی ای او کے بیان سے ایک بات عیاں ہے جس علاقے میں سکول کی بلڈنگ خراب ہو اور ٹیچرز ڈیوٹی نہ دے اُس کو مرج کرنے سے وہاں کی سینکڑوں بچیاں تعلیم کے زیور سے محروم رہ جائیں گے ۔

ڈی ای او مردانہ سے رابطہ ہی نہ ہوسکا۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button