یہ نومبر دو ہزار پندرہ کی بات ہے۔ میں کسی اکیڈمک سیشن کے حوالے سے کچھ دن اسلام آباد میں خیمہ زن تھا۔ وہ دن بہت مصروف دن تھا۔ صبح سے شام تک سیشن میں ہونے کی وجہ سے بدن ٹوٹ رہا تھا۔ تھکن تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ اس کے باوجود ہم اسلام آباد جماعت خانے میں سجدہ ریز تھے۔ پہلی بار اقبالؒ کا یہ شعر سمجھ آرہا تھا؎
جو میں سر بسجدہ ہوا تو کبھی زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں
یا پھر یہ مصرعہ کہ؎
’’سر ہو سجدے میں مگر دل میں ہو دُنیا کا خیال‘‘
لیکن ہماری حالت اس سے قدرے مختلف تھی ہمیں دُنیا کا خیال نہیں بلکہ دن بھر کی تکان ہلکان کیے دے رہی تھی۔ بڑی مشکل سے نماز سے فارغ ہوکر ہم باہر آگئے تھے۔میرے ساتھ الواعظ شرافت علی سعدی بھی تھے۔ ہم وہاں جماعت خانے کے سبزہ زار میں پڑی کرسیوں پر بیٹھے نہ جانے کہاں کھو گئے تھے شاید تاروں بھرے آسمان میں یا کہیں اور؟ میں نے الواعظ صاحب کو مخاطب کرکے کہا تھا ’’کاکا! یہ آسمان اتنا خوبصورت کیوں ہے؟ ان تاروں بھرے آسمان کو نہ جانے کتنے خوبصورت چہرے تک رہے ہوں گے بالکل ہماری طرح۔ کیا اسلام میں خوبصورت چیزوں کو تکنا جائز ہے؟‘‘ یقیناً میرے سوال میں شرارت کا عنصر نمایاں تھا۔ الواعظ صاحب چونکہ نوجوان ہیں اور مفتی بھی۔ اس لیے فتویٰ دینے میں دیر نہیں لگاتے۔ فرمانے لگے ’’اللہ جمیل ویحب الجمال۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ حَسین ہیں اور حُسن کو پسند فرماتا ہے۔ان باتوں میں نہ جانے کتنا وقت گزرا تھا ہمیں نہیں معلوم۔ ایک خوبصورت آواز ہماری کانوں سے ٹکرائی تھی۔ ’’واعظین کرام آپ ادھر؟‘‘ یہ خوبصورت سوال ہونٹوں پہ سجائے ہمارے دوست عبدالجہان صاحب ہم سے مخاطب تھے۔ موصوف کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ گلگت بلتستان کی نگران حکومت میں وزیر خوراک و زراعت رہے ہیں اور ایم آئی ای ڈی کے منیجنگ ڈائریکٹر بھی ہیں۔ آپ کا بنیادی تعارف تعلیم و تدریس سے آپ کی وابستگی ہے۔ لیکن ان سب سے زیادہ آپ ایک اچھے انسان ہیں۔ حلیمی و انکساری ایسی کہ جُھک جُھک کر ملتے ہیں۔ غذر کی مہمان نوازی آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔
مہمان نوازی کا یہی جذبہ غالب تھا کہ انہوں نے ہمیں فوراً اپنے گھر دعوت دی اور کہا کہ والد محترم بھی یہاں ہیں۔ ان سے بھی آپ کی ملاقات ہوگی۔ ان کے والد محترم کا سن کر جیسے دن بھر کی تھکن کافور ہوگئی ہو۔ کیونکہ غذر میں علم پھیلانے والوں میں ان کے والد محترم کا بڑا حصہ ہے۔ میری ان کے والد محترم سے اب تک ملاقات نہیں تھی البتہ ان کی خدمات کے بارے میں سنا ضرور تھا۔ اس لیے ملاقات کرنے کی تمنا ضرور تھی۔ موقع کو غنیمت جانتے ہوئے میں نے کہا چلتے ہیں۔
اب ہم ان کے گھر میں تھے اور ہمارے سامنے ان کے والد محترم نوے سالہ شیر جوان خان تشریف فرماتھے۔ اب جیسے یادوں کا دریچہ کھل گیا تھا۔ شیر جوان خان ہم سے مخاطب تھے۔ پہلی نظر میں میری طرح کوئی بھی یقین نہیں کرسکتا کہ یہ جو شخصیت ہمارے سامنے بیٹھی ہے وہ نوے بہاریں دیکھ چکی ہے اور بوڑھی ہوچکی ہے۔ ارے بھیا! ان کے خدوخال سے بالکل ان کے نام کی طرح شیر اور جوان ہی ہم سے محو گفتگو تھے۔ ’’کہاں ہیں وہ نوے سالہ بوڑھا؟‘‘ میں نے خود سے سوال کیا تھا۔ عبدالجہان جتنے خوبصورت انسان ہیں اس سے کئی گنا زیادہ ذہین و فطین بھی ہیں انہوں نے میری بے چینی بھانپ لی۔کھڑے ہوئے، روم سے باہر نکلے اور تھوڑی دیر بعد بغل میں ایک فائل اور تصویروں کی چند البم لیے روم میں داخل ہوئے اور وہ ساری چیزیں میرے سامنے رکھی۔ گویا میرے سامنے ایک صدی پہلے کی دُنیا کھل گئی تھی۔ جس میں ان کے والد محترم کی پیدائش سے لے کر تعلیم اور تدریس تک کے تمام دستاویزات محفوظ تھیں۔ انیس سو تئیس میں پیدا ہوئے۔ بیس سال بعد انیس سو تینتالیس میں تعلیم حاصل کرنے کا آغاز کیا اور انیس سو اونچاس میں گلگت سے سکول کی تعلیم مکمل کی۔ مجھے جس چیز نے متاثر کیا وہ انیس سو پچاس میں بحیثیت استاد ڈائمنڈ جوبلی سکول پھنڈر میں ان کا اپائٹمنٹ لیٹر تھا۔ وہ چاہتے تو اس زمانے میں کوئی اچھا انتظامی پوزیشن حاصل کرسکتا تھا کیونکہ اُس زمانے میں میٹرک پاس تو بہت بڑی چیز ہوتی تھی۔ کہتے ہیں ڈی سی غازی جوہر (مرحوم) ریٹائرمنٹ تک مڈل ہی تھے۔ شیرجوان خان بھی چاہتے تو ڈپٹی کمشنر یا اس سے بھی اعلیٰ عہدہ سنبھالتے لیکن انہوں نے ان تمام چیزوں اور آسائیشوں کو پس پشت ڈال کر اپنے گاؤں میں استاد ہونے کو ترجیح دی اور تعلیم کے نور سے گاؤں والوں کو بھی روشناس کرنے کا عہد کیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج نہ صرف پھنڈر بلکہ پورے غذر میں علم کا جو چراغ جلا ہے بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ علم کا جو چراغاں ہوا ہے اس علمی کاوش کے پیچھے شیر جوان خان جیسی عظیم شخصیات کا بڑا حصہ ہے۔
شیر جوان خان (مرحوم) جس کو مرحوم ہوتے ہوئے چند ایام ہی گزرے ہیں لیکن ان کے ساتھ بیتی ہوئی اس رات کی یادیں آج تک ذہن کے نہاں خانوں میں محفوظ ہیں۔ وہ رات اوران کے صاحبزادے ہمارے پیارے دوست عبدالجہان کی طرف سے دیا گیا ڈنر واقعی یاد رکھنے کے قابل ہیں۔ (اللہ نظر بد سے بچائے۔) شیر کی طرح چاق و چوبند اور جوانوں کی طرح عقابی نظر رکھنے والے شیرجوان خان ہمارے ساتھ دسترخوان پہ بیٹھے کھانا کھانے میں مصروف تھا۔ ان کے ایک اشارے پہ پوتے پوتیاں خیر دادا جان کی خدمت پیش پیش تھے ہی۔ خود عبدالجہان صاحب کو جُھک جُھک کر ادب سے اپنے والد محترم کے سامنے کھڑا ہونا پڑتا۔ ’’جی بابا!، حکم کرے، کسی چیز کی ضرورت؟‘‘ گویا باپ کے سامنے فرمانبرداری کی انتہا تھی۔ سچ پوچھئے تو عبدالجہان صاحب کی اس ادا کو دیکھ کر مجھے حسد سی ہونے لگی کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ جتنی عزت میں اپنے ماں باپ کو دینے کی حقیر کوشش کرتا ہوں شاید کوئی اور نہ دے سکے لیکن آج عبدالجہان صاحب کی اپنے باپ کے سامنے اس فرمانبرداری نے مجھے سکھایا کہ دُنیا میں اور بھی بہت سے لوگ ہیں جو مجھ زیادہ اپنے والدین کو عزت دیتے ہیں۔ یقیناً مجھے بہت کچھ سیکھنے کو مل رہا تھا۔
میں اکثر اپنے وعظ اور لیکچر میں کہتا ہوں کہ آج ماشااللہ سے تعلیم تو عام ہوگئی ہے لیکن تہذیب اور ادب سے خالی۔ یہ ادب اور تہذیب سکولوں اور کالجوں میں نہیں گھروں میں سکھائی جاتی ہیں اور جن گھروں میں خوش قسمتی سے شیرجوان خان جیسی ہستیاں ہوں ان کے بچے یقیناً تہذیب و ادب کی آئینہ دار ہوتے ہیں اور جن گھروں میں تربیت نہ ہو وہاں تعلیم یافتہ لوگوں کا ہجوم تو ہوسکتا ہے تہذیب یافتہ اولاد نہیں ہوتی۔
یہی وجہ ہے کہ مرحوم کے صاحبزادے عبدالجہان صاحب اپنے باپ کی طرح علم کی روشنی پھیلانے میں پیش پیش ہیں۔ سچ کہا ہے کسی نے کہ شیروں کے پسر شیر ہی ہوتے ہیں جہاں میں۔ شیرجوان خان (مرحوم) اپنی ان بے پناہ خدمات کی وجہ سے تاریخ میں زندہ رہیں گے۔ یقیناً ان کی موت سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کو پُر ہونے میں ایک عرصہ لگے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث پاک ہے کہ ’’ایک عالم (معلم، استاد) کی موت ایک عالم (دُنیا، جہاں) کی موت ہوتی ہے۔ اللہ رب العزت سے دُعا ہے کہ وہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے ہمارے دوست عبدالجہان اور ان کے پورے خاندان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور مرحوم کو اپنے جوارِ رحمت میں اعلیٰ مقام عنایت فرمائے۔ آمین!