غمِ ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگِ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
آج ہمارا موضوع بدلتی ہوئی دُنیا اور ادب ہے۔ اگر موضوع کی سماجی اور تاریخی پس منظر کو دیکھا جائے تو بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے کیونکہ ادب کا تعلق انسانی جذبات اور احساسات سے ہے۔ جب سے دُنیا وجود میں آئی اور جب سے انسان نے جنم لیا………… جب سے وہ رویا………… جب سے وہ چیخا………… جب اسے تکلیف ہوئی………… جب اس نے پکارا………… جب اس نے بولنا سیکھا اور اپنے درد اور خوشی کو Shareکرنے لگا………… تب سے ادب کی تخلیق ہوئی۔ ہزاروں صدیوں سے ادب معاشروں میں قوموں میں ملکوں اور دُنیا میں ایسا ہی کردار ادا کرتا چلا آرہا ہے جیسے ایک ماں اپنے بچے کی زندگی بنانے اور سدھارنے میں ادا کرتی ہے۔ اس کی نگرانی خطروں سے کرتی ہے، اس کو بُرائیوں سے روکتی ہے، اس کی رہنمائی کرتی ہے اور اس کو نہ صرف زندگی کی حقیقتوں سے خبردار کرتی ہے بلکہ چیلنجوں کا سامنا کرنے کی جرأت سکھاتی ہے۔
ادب نے انسانوں کا مشکل ترین وقتوں میں ساتھ دیا………… رہنمائی کی………… تمام انسانیت کو زوال سے بچانے کی کوشش کی………… اس کی روحانی تربیت کی اور سکون بخشا………… دلوں میں محبت، ایثار، وفا اور حب الوطنی کے جذبوں کو زندہ رکھا اور عوام کو شعوری بیداری دی۔ فکری آگہی سے روشناس کیا۔ مسائل سے نجات کے لیے انصاف کے حصول کی خاطر معاشی برابری کے لیے ظلم و استبداد کے خلاف غربت، جہالت، پسماندگی اور قدامت پرستی و روایت پرستی کے خلاف لڑتا ہوا اس مقام تک پہنچایا کہ عالمی امن اور خوش حالی کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ اور استحصالی قوتوں سے نجات مل گئی۔
ادب بھی انسانوں کی طرح حوادث کا شکار ہوتا رہا ہے۔ بڑے بڑے سیاسی، معاشی، معاشرتی، اصلاحی، صنعتی، ادبی، مذہبی، تاریخی تحریکوں اور انقلابات کی بنیاد میں Intellectual سوچ سے پیدا ہونے والا ادب ہوتا ہے۔ جو زندگی کی ٹھوس حقیقتوں اور بدلتی ہوئی دُنیا کے مسائل انفرادی اور قومی بحرانوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ انسان قدرت اور زمانے میں بدلنے کی زبردست لچک موجود ہے۔ ہر تبدیلی کو قبول کرنا ضروری بھی ہوتا ہے، مجبوری بھی اور فطری بھی۔ اس لیے کہ ہر تبدیلی انسانی ارتقاء اور بقا کی تکمیل کے لیے لازمی ہوتی ہے۔ زندگی کبھی بھی غیر متحرک نہیں رہی۔ نئے تجربے………… نئی حقیقتوں کی تلاش میں انسانی عقل، فکر اور ذہن نئے راستوں کو تلاش کرنے لگتے ہیں اور اسی تلاش میں نئے خیالات کی شمع روشن کرتے ہیں اور آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ اس طرح ادب میں سوچنے سمجھنے کا ڈھنگ بدلتا ہے۔ موضوع بدلتے ہیں، اظہار کے طریقے اور ذریعے بدل جاتے ہیں اور اس سارے عمل میں ایک ادیب، شاعر اور دانشور جو اپنے ماحول سے کبھی غافل نہیں ہوسکتا۔ مصلحت کئے بغیر اپنے جذبات اور احساسات کا جرأت اور بے باکی سے اظہار کرتا ہے۔ وہ جہاں رہے گا اس ماحول کا تابع ہوگا جس طرح ماحول ہوگا جیسا معاشرہ ہوگا ویسا ہی ادب تخلیق ہوگا اور اس معاشرے کی وہ ترجمانی و عکاسی کرے گا۔ وہ جس دُنیا میں رہ رہا ہے اگر اس کے ارد گرد چیخ و پکار………… بھوک و افلاس………… تڑپنا اور سِسکنا ہوگا۔ اس نے وہی لکھنا ہے اگر وہ کسی خوشحال دُنیا کا فرد ہوگا تو پھولوں، خوابوں، خیالوں، محبتوں اور روشنیوں کے نغمے گائے گا۔ بس دونوں حالتوں میں وہ اپنے خیالات و محسوسات جب دوسروں تک پہنچائے گا وہی اس معاشرے کی صحیح تصویر ہوگی اور یوں ادب، شاعر، ادیب اور دانشور کے درمیان موجود مسائل کی وضاحت، ان کو علم دینے، ان کو سمجھنے، سمجھانے اور Educate کرنے کا سمبل ہوگا۔ ادیب عوام کو سمجھاتا ہے۔ اپنی سوچ سے لوگوں کی سمجھنے کی قوت کو تیز کرتا ہے۔ مسائل سے نمٹنے اور نکلنے کی راہ سمجھاتا ہے۔ اس طرح ایک تخلیق کار، ادیب، شاعر اور دانشور عوام کی سوچ، رویوں اور ذہنوں کو لمحوں میں تبدیل کرکے ان پر عمل کرنے کے لیے آسانی سے تیار کر لیتا ہے۔
ان لوگوں کا تعلق معاشرے کے اس حساس طبقے سے ہوتا ہے۔ جو ظلم و جبر اور مصیبتوں کو برداشت نہیں کرسکتے اور نہ مانتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو بُرائی کے خلاف آواز اُٹھاتے ہیں اور حقیقتوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔ وہ بُرے معاشرے میں رہتے ہوئے ان کی بھلائی کی فکر کو مقصد بناتے ہوئے کوئی Compromise تک نہیں کرتے اور یوں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے بھی وہ مطمئن ہوتے ہیں۔ زمانوں سے حکمرانوں سے ٹکراتے ہیں اور اپنی زندگیاں اور جوانیاں گنوا لیتے ہیں۔ فیض احمد فیض اور حبیب جالب اسی قافلے کے فرد ہیں۔ کیونکہ ان کا مقصد عوامی ہوتا ہے۔ انہوں نے دُنیا کو بدلنا ہوتا ہے۔
ادب تخلیق کرتے ہوئے کوئی بھی ادیب مشرق و مغرب، کالے گورے، مذہب، نسل اور زبان کی تفریق سے بالاتر ہوتا ہے۔ اس لیے کہ وہ انسان ہے۔
اس کا مقصد انسان کی خوشحالی اور آسودگی ہوتی ہے کیونکہ خدا نے سارے انسانوں کو ایک جیسا پیدا کیا ہے۔ آج تک کسی مذہب اور کسی ادب میں انسان کی تذلیل، دِل آزاری اور تکلیف کو جائز نہیں سمجھا گیا۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس گلوبلائزیشن میں اور اکیسویں صدی میں ہمارے ادیب کو جن چیلنجوں کا سامنا ہے وہ مشرقی دُنیا کے معاشی و سیاسی مسائل اور غربت و جہالت ہے۔ ان کو ایسا ادب تخلیق کرنا چاہئے جس سے دُنیا کے لوگوں میں Understanding اور نزدیکیت کی فضا قائم ہوسکے۔ کیونکہ Intellectual اگر مغرب کا ہے یا مشرق کا سب کا مقصد دُنیا میں امن، سکون، خوشحالی اور بھائی چارگی دیکھنا ہے۔ اگر مشرقی افریقہ میں کوئی مرتا ہے………… کہیں نسل کُشی ہورہی ہے………… یورپ یا نارتھ امریکہ میں دھماکے ہو رہے ہیں………… عراق میں خون ریزی ہے………… یا افغانستان میں سیاسی عدم استحکام…………. سارے بین الاقوامی گلوبل ویلیج کے مئلے ہیں۔ ان کو ہمدردی سے حل کرنا ضروری ہو گیا ہے۔
ان سب مسائل میں ایک شاعر اور ادیب کا کردار اتنا ہی اہم اور ضروری ہے جتنا کہ ایک سیاسی اور معاشی Expert کا ہے۔
………………………………………………………………
کلیاتِ کریمی کی جلد دوم ’’سسکیاں‘‘ سے عبدالکریم کریمی کی ایک فکر انگیز تحریر