کالمز

بڑھتے ہوئے موٹر سائیکل حادثات

ضلع چترال میں گزشتہ ایک مہینہ کے اندر میرے عزیزوں کے پانچ سے زائد ایسے حادثات ہوئے جن کا سبب موٹر سائیکل کے تیز رفتاری اور لاقانونیت ہے ۔ چترال شہر میں ان دنوں موٹر سائیکلوں کا سیلاب ہے اور اس کے سوار زیادہ تر بچے ہیں ، جو تیز رفتاری سے موٹر سائیکل دوڑاتے پھرتے ہیں ۔ چترال جیسے شہر کیلئے یہ ایک خطرناک رجحان ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب شہر میں ٹریفک قوانین کی پابندی ختم کر دی گئی ہے۔ اور عوام کو ان تیز رفتار قاتلوں کے حوالے کر دیا گیا ہے ۔ پہلے کبھی چترال میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ موٹر سائیکلوں کی آپس میں ٹکر کے نتیجے میں کوئی ہلاک ہو سکتا ہے ۔ اب یہ آئے دن کامعمول ہے ۔ چترال میں ایسے حادثات کا تناسب بڑھ رہا ہے ۔ اب ہر ماہ تقریباََ پانچ سے زائد افراد بالخصوص نوجوان موٹر سائیکل کے حادثے میں ہلاک ہوتے ہیں ، جبکہ زخمی اور معذورین کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔واضح رہے کہ ان حادثا ت کا اصل وجہ ’’ تیز رفتاری‘‘ ہوتا ہے۔موت سے محبت نے زندگی کو ایک شئے Commodityمیں بدل دیا ہے۔ آجکل نوجوان جوانی کے نشے میں مست ہیں ۔ کہتے ہیں کہ جوانی مستانی ہوتی ہے ۔ لہذا نوجوان موٹر سائیکل سوار اکثر مستیاں کرتے ہی دکھائی دیتے ہیں ۔ ان نوجوانوں کو لاکھ سمجھائیں کہ بیٹا ایسا نہ کرو….گر جاؤں گے…… کہتے ہیں نہیں گرتا……. موٹر سائیکل تیز نہیں چلانا حادثہ ہو سکتا ہے … کہتے ہیں نہیں ہوتا میں بریک لگا لوں گا….. نوجوانوں میں دراصل اعتماد کا ایک فطری جذبہ ہوتا ہے جس کی بناء پر وہ ایسے جوابات دیتے ہیں ۔ مگر تیز رفتاری تمام خود اعتمادی یا اندازوں کو غارت کردیتی ہے ۔ ایک دوست نے عید کے دن ہونے والے حادثے کی ویڈیو مجھے واٹس ایپ کی جس میں چند لڑکے ہاتھ چھوڑ کر موٹر سائیکل چلانے کا مظاہرہ کرتے کرتے ہوئے ایک جان لیوا حادثے کا شکار ہوئے ، کیا یہ لڑکے ایسے حادثات کے امکانات سے بے خبر تھے؟ یہی نہیں بلکہ آج کل نوجوانوں میں ایک اور مستی چڑھ گئی ہے کہ لڑکے آپس میں شرط لگاکر ون ویلنگ کرتے ہیں ، اور اپنی اور دوسروں کی جان خطرے میں ڈالتے ہیں۔ ان نوجوانوں کے ذہن کے کسی گوشے میں اپنی موت کا احتمال نہ ہوتا ہوگا؟ اور اپنے سے یہ سوال بھی کیا ہوگا کہ آخر جان کی قیمت پر اس عجلت کا کیا جواز ہے؟آج کل سائیکل کی جگہ موٹر سائیکل کی سواری عام ہوگئی ہے ، اور کم عمر بے شعور بچے موٹر سائیکل سوار نظر آتے ہیں چونکہ یہ عمر کھلنڈرے پن سے عبارت ہے ، اس لئے ان بچوں کو نہ ٹریفک کے آداب سے واقفیت ہوتی ہے اور نہ ہی انہیں ڈرائیونگ کے اصول معلوم ہیں اور نتیجہ حادثات کی شکل میں نکلتا ہے۔

ان حادثات میں نوجوان یا تو جانوں سے چلے جاتے ہیں یا پھر ہاتھ پیروں سے معذور ہو جاتے ہیں۔ چند منٹوں کا انتظار نہ کرنا انھیں عمر بھر کی محتاجی دے دیتا ہے۔ ہسپتالوں میں زیادہ تر روڈ ایکسیڈنٹ کے زخمیوں کی تعداد اپنی غفلت کی وجہ سے اس حالت پر پہنچتی ہے ۔ بائیک چلانے کوئی فن نہیں ۔ مگر جب یہ سواری کم عمر سواری کے ہاتھ لگ جاتی ہے تو وہ خود کو دنیا کا تیز ترین انسان سمجھنے لگتا ہے اور پھر تیز رفتاری کے نشے میں شور یہ سوار کسی بھی رفتار کی حد کو عبور کرنے میں فخر محسوس کرتا یا پھر حادثہ کر بیٹھتا ہے۔ موٹر سائیکل سوار ریس کی خواہش میں زندگی ہار دیتے ہیں اور پھر اپنے پیچھے پیاروں کو روتا چھوڑ جاتے ہیں۔

میرے نزدیک ان حادثا ت کی ایک اہم وجہ ٹریفک قانون کی عملداری میں ناکامی اور لوگوں کو ان قوانین سے نا واقفیت ہے۔ اگر حکومت اور ٹریفک پولیس کے اعلی حکام ٹریفک حادثات کی شرح کو کم کرنا یا ختم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ٹریفک قوانین پر سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنانا ہوگا، ساتھ ہی ہر سطح پر عوام میں ان قوانین سے آگاہی میں اضافہ کرنا ہوگا ، تاکہ تیز رفتار اور غیر محتاط ڈرائیونگ بے شمار زندگیاں ختم کرنے کا سبب نہ بنے ۔ اس سلسلے میں ٹریفک کے اندر ایسے افسران کو متعین کرنا چاہیئے جن کی شہر ت بے داغ ، دیانت اور غیر مشتبہ اور اہلیت قابل قدر ہو۔ اسکے ساتھ ساتھ لوگوں کے اندر ٹریفک کے آداب کا صحیح شعور بھی پیدا کرنا چاہئے۔ اس کے لئے ذرائع ابلاغ کو بھی بھرپور حصہ لینا چاہئے ۔ ٹریفک پولیس کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی اپنے فرائض کا احساس کرنا چاہئے ۔ انسانی لہو بہرحال ایک مقدس امانت ہے ۔ سڑکوں پر اس کی رسوائی انسانیت کیلئے ایک عظیم چیلنج ہے ، جب تک ہم سب مل جل کر اس چیلنج کو قبول نہیں کریں گے اور اپنااپنا فرض دیانتداری اور مستعدی سے ادا نہیں کریں گے ، اس وقت تک حادثات بدستور روح فرسا رہیں گے ۔جب تک عوام میں آداب سفر کا صحیح ذوق پیدا نہیں ہوگا ، ٹرانسپورٹ مالکان کے اندر خدا کا خوف نہیں ابھرے گا ، ڈرائیور تربیت یافتہ اور انسان دوست نہیں ہونگے اور جانچ پڑتال کرنے والے ارکان دیانتدار نہیں ہونگے اس وقت تک ٹریفک حادثات سے بچنا مشکل ہے اور نہ انسانی لہو کو سڑکوں پر بہنے سے روکا جا سکتا ہے ۔

تحریر کو ختم کرنے سے پہلے میں نئے تعینات ہونے والے ڈپٹی کمشنر ارشاد سدھیر کو خوش آمدید کہتا ہوں اور یہ امید کرتا ہوں کہ وہ اس امر پر خصوصی توجہ دیں گے اور متعلقہ افسران سے کام لینے کو بھی یقینی بنائیں گے۔ ڈپٹی کمشنر سے گزارش ہے کہ چترال میں ایک ’’ٹرانسپورٹ ٹیکنیکل سکول ‘‘کا قیام کریں جہاں شہری ٹریفک قوانین سیکھ سکے اور پھر انھیں ادارے کی جانب سے سرٹیفیکٹ دیا جائے جس کی بنیاد پر انہیں ڈرائیونگ لائسنس ملے۔ جب تک ڈرائیونگ لائسنس کا نظام کڑا اور سخت نہیں ہوگا حادثات کی روک تھا م ممکن نہیں۔ا ب دیکھنا یہ ہے کہ نئے تعینات ہونے والے ڈپٹی کمشنر چترال میں ٹریفک کا نظام بہتر بنانے میں کیا کردار ادا کرتے ہیں؟یا پھر شہر کی صورتحال پچھلے کی طرح ہی چلتی رہے گی ۔ فیصلہ وقت کرے گا۔

قلم ایں جارسید وسر بشکست…..!!

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button