کالمز

میری سرحد کے رکھوالوں کو لالک جان کہتے ہیں

 تحریر: ایمان شاہ

یہی ہیرے جواہر ہیں میرے ذاتی خزانے کے
کچھ اپنے دکھ ہیں ’’یارو‘‘ اور تھوڑے سے زمانے کے

گلگت بلتستان کے عوام کودرپیش مسائل ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں ارباب اختیار تک پہنچانے کی کوشش کررہا ہوں۔۔۔۔۔۔ میرے ساتھ ذاتی تعلق رکھنے والے میرے دوست احباب اس بات کی گواہی دیں گے کہ میری تحریریں میرے لہجے جو میں روز مرہ گفتگو میں استعمال کرتا ہوں کی عکاسی کرتی ہیں۔۔۔ لگی لپٹی رکھے بغیر بات کرتا ہوں۔۔۔۔ رات کو اپنے دوستوں کے ساتھ گلگت بلتستان کے عوام کو درپیش مسائل پر گھپ شپ لگی رہتی ہے۔۔۔۔ عام فہم زبان میں اور پورے دلائل کے ساتھ میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتاہوں کہ بنیادی عوامی ضروریات کو اولین ترجیح دے کر ہی عوام کے دل جیتے جاسکتے ہیں۔۔۔۔۔اس بات سے کوئی عقل سے عاری ہی انکار کرے گا کہ جس گھر میں فاقے ہوں، علاج معالجے کیلئے پیسے نہ ہوں۔۔۔۔۔ بچوں کی تعلیم کیلئے مالی مشکلات کا سامنا ہو اور ہر روز امراء کا ایک مخصوص ٹولہ روز اخبارات میں بیانات دینے کا سلسلہ شروع کرے کہ گلگت بلتستان کے عوام کو آئینی حقوق دینے کیلئے کمیٹیوں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے یا اپوزیشن روز کہنا شروع کردے کہ گلگت بلتستان کے عوام کو آئینی حقوق دیئے جائیں تو اس غریب آدمی پر کیا گزرے گی جو روز مرتا ہے اور روز جیتا ہے، گھر میں فاقے ہیں، بیٹے، بیٹی، بیوی، بہن ، باپ یا ماں کی علاج کیلئے وسائل نہیں ہیں، بچے یا بچوں کی فیسوں نے کمر توڑ دی ہے، بیٹے یا بیٹی کو محنت مزدوری کرکے، اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر اعلیٰ تعلیم دلوائی ہے لیکن روزگار میسر نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو میرٹ کا نام و نشان نہیں ہے۔

اس تمام تر صورتحال کے تناظر میں کوئی سقراط، بقراط مجھے سمجھائے کہ سیاسی اداروں کو مضبوط بنانے سے بے روزگاروں کو روزگار مل جائے گا؟ علاج معالجے کی سہولتوں میں بہتری آئے گی؟ صفائی کا نظام اچانک بہتر ہوجائے گا؟ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی حالت بہتر ہوجائے گی؟ پینے کیلئے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے کام کی رفتار میں تیزی لائی جائے گی وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔ نہیں ایسا نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔

سیاسی نظام میں بہتری لائے جانے کا سلسلہ ذوالفقار علی بھٹوکے دور میں ایف سی آر کے خاتمے کے ساتھ شروع ہوا۔۔۔۔۔

1994ء میں جماعتی بنیادوں پر انتخابات کے ذریعے سیاسی اصلاحات کے عمل میں تیزی لائی گئی اور نادرن ایریاز کونسل اس وقت قانون ساز اسمبلی کا روپ دھار چکی ہے، نادرن ایریاز کونسل سے قانون ساز اسمبلی تک کی کہانی1994ء تا2016ء کا جائزہ لیا جائے تو ایک بات واضح ہے کہ چند ہزار لوگوں کے گردن میں سریا آگیا، انہی چند ہزارلوگوں نے سرکاری وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا، معاشرتی مسائل نے جنم لیا، گلگت بلتستان کے آئیڈیل معاشرے میں تفریق آگئی،شہر کچروں کے ڈھیر میں تبدل ہوگئے، سرکاری ہسپتالو ں میں دو نمبر ادویات کا کاروبار عروج پر پہنچ گیا، تعلیم کے شعبے کو تباہ و برباد کرکے نظام تعلیم کا ستیاناس کردیا گیا، سرکاری اداروں میں لاکھوں روپے لے کر نوکریاں تقسیم کرنے کا عمل شروع ہوا، تمام سرکاری محکموں میں تقرریاں اور تبادلے اہلیت اور قابلیت کی بجائے فرقہ وارانہ بنیادوں پر کرنے کی بنیاد رکھی گئی۔۔۔۔۔۔۔

میں اس سیاسی نظام کی کن کن فضیلتوں کا ذکر کروں۔۔۔۔ سیاسی اصلاحات، گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر2009ء کی مدح سرائی کرنے والے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ1994ء سے قبل کے نظام سے گلگت بلتستان کے لوگ زیادہ خوش، مطمئن اور سکھی نہیں تھے؟ کیا شہروں میں اتنی گندگی تھی؟ پانی اور بجلی کی صورتحال بہتر نہیں تھی؟ لوگوں میں اس سے بہتر ہم آہنگی دیکھنے کو نہیں مل رہی تھی؟ سرکاری اداروں میں اتنی لوٹ مار تھی؟ پیسے لے کر نوکریاں بانٹنے کے عمل سے لوگ آشناء تھے؟ جعلی ادویات کی فراہمی کا کوئی سوچ بھی سکتا تھا؟میرے خیال میں نہیں۔۔۔۔۔ اور اگر آج کی تاریخ میں ان تمام سوالوں کا جواب دینا پڑجائے تو یقیناًان تمام سوالوں کا جواب ہوگا ۔

’’ہاں‘‘ تو پھر جمہوریت بہترین نظام ہے، عوام سے انتقام لینے کا۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر اٹھتا ہے مغرب سے اٹھے ،طوفان کہتے ہیں

مسلمانوں کا دنیا میں نہیں فقدان کہتے ہیں

کہیں غلطی سے بھی دشمن نہ میلی آنکھ سے دیکھے

میری سرحد کے رکھوالوں کو لالک جان کہتے ہیں

میرا کردار ان ساروں کو رسواء کرکے چھوڑے گا

جو اس ملت کی وحدت کا نہیں امکان کہتے ہیں

بظاہر قوم پہنچی ہے دکھی بام ترقی پر

مگر اہل نظر سارے اسے بے جان کہتے ہیں

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button