تحریر: فہیم اختر
ملک کے دوردراز علاقوں میں شامل گلگت بلتستان میں اگر وفاق پرست جماعتوں کا انتہائی منفی کردار دیکھنا ہے تو موسم سرما میں رخ کریں۔ گزشتہ تین سالوں سے وفاقی جماعتوں نے سردیوں کے موسم میں اس علاقے کو یکسر نظر انداز کرکے رکھ دیا ہے لیکن پھر درد ہوتا ہے اپنے ہی لوگوں کو ۔ جو کسی نہ کسی شکل میں اس ٹھنڈے اور منفی کے آس پاس رہنے والے درجہ حرارت میں لوگوں کو اکھٹا پہلے حرارت میں اور بعد میں حیرت میں اضافہ کرتے ہیں ۔
گلگت بلتستان میں یہ مسلسل تیسرا سال ہے جب مقامی جماعتیں کسی نہ کسی شکل میں لوگوں کو اکھٹا رکھتی ہے ۔ اس بیٹھک کی ابتداء عوامی ایکشن کمیٹی سے ہوگئی جس میں پھر سوائے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے تقریباً قابل ذکر تمام جماعتیں موجود تھی ۔ اس کے بعد انسداد ٹیکس تحریک تھی جس میں کم و بیش سبھی جماعتوں نے حمایت کرکے ایک صوبائی سطح کی بڑی تحریک چلانے میں کامیاب ہوگئی ۔ عوامی ایکشن کمیٹی کے اسرار و رموز میں مرحوم مرزا حسین اور احسان ایڈوکیٹ پیش پیش تھے ۔ احسان ایڈوکیٹ موجود ہیں جبکہ مرزا حسین سفر آخرت پر روانہ ہوچکے ہیں (اللہ ان کا معاملہ آسان فرمائیں)۔ اس تحریک کے دو رخ تھے ایک قیادت کا دوسرا عوام کا ۔ قیادت میں علاقائی اور مذہبی جماعتیں تھی جبکہ عوام میں پورا گلگت بلتستان تھا ۔ جس نے درجن بھر دن گلگت شہر کے وسط میں گھڑی باغ کے مقام پر تاریخی دھرنا دیا اور لیڈر شپ کی جانب سے دیئے گئے 11مطالبات کی منظوری تک پورے آب و تاب سے دھرنا قائم رکھنے کا اعلان کیا ہوا تھا ۔ اس جلسے کا مرکزی جلسہ گاہ گلگت جبکہ گاہکوچ، سکردو استور اور دیگر علاقوں میں بھی دھرنے جاری تھے ۔ لیڈر شپ نے اس پروگرام کو 3روپے کے بعد کیوں ختم کیا ؟ مذہبی جماعتوں نے کیا کردار ادا کیا ؟ یہ سوالات احسان ایڈوکیٹ سے پوچھے جاسکتے ہیں ۔ بہرحال عوامی ایکشن کمیٹی نے عوام کو سرد ماحول میں ایک بیٹھک فراہم کرکے حرارت میں اضافہ کردیا ۔ اس دوران صوبائی حکومت پیپلزپارٹی بلکہ مہدی شاہ کے پاس تھی ۔
دوسرا اہم معرکہ انسداد ٹیکس تحریک یعنی اینٹی ٹیکس موومنٹ (ATM)کی تھی ۔ جس میں علاقائی تمام جماعتیں اور کم و بیش سبھی سیاسی و مذہبی جماعتیں موجود تھی لیکن مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے ایک بار پھر بے رخی اور سست روی کا مظاہرہ کیا ۔ انسداد ٹیکس تحریک کی قیادت کنٹریکٹرز ایسوسی ایشن گلگت بلتستان المعروف ٹھیکیدار برادری کے پاس تھی ۔ اس تحریک کا ایک نکاتی فارمولہ ٹیکس کو ختم کرنے پر تھا ۔ اس تحریک کی قوت بنیادی طور پر شعبہ تجارت سے منسلک تمام تنظیمیں تھی ۔ جن میں انجمن تاجران ، ہوٹل ایسوسی ایشن ، پٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن ، سمیت دیگر قابل زکر تھے ۔ یہ تحریک بھی اپنے عروج پر تھی ۔ اور تحریک پر عوام کے اعتماد کا یہ عالم تھا کہ جب ’قیادت ‘نے پہیہ جام ہڑتال کی کال دیدی تو پورا شہر ’شٹرڈاؤن ‘ بھی ہوچکا تھا ۔ جلسے جلوسوں میں بات صرف ٹیکس تک ہی نہیں رہی بلکہ 2009کے گورننس آرڈر کو بھی واپس لینے کے مطالبے کئے گئے ۔ اس دورانیہ میں گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت مسلم لیگ ن کے پاس رہی ۔ اس تحریک کے عروج کے دنوں میں اس تحریک کی قیادت بلکہ صدر کنٹریکٹر ز ایسوسی ایشن فردوس احمد اور جنرل سیکریٹری مرتضیٰ علی وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن سے ملاقات کے لئے گئے ۔ اور واپسی پر آکر انہوں نے اخبارات کے لئے ٹھیکوں کے بلات کی ادائیگی پر ’مشکور‘کا اشتہار جاری کردیا۔ کسی تاجر تنظیم ، سیاسی تنظیم ، ہوٹل ایسوسی ایشن ، یا پٹرولیم ڈیلرز کے پاس یہ ہمت نہیں ہوئی کہ کنٹریکٹر ز ایسوسی ایشن سے یہ بات پوچھ سکے کہ تحریک چل پڑی ہے غیر قانونی ٹیکسز کے خلاف ۔ ان کا ٹھیکوں کے بلات کی ادائیگی سے کیا تعلق ہے اور آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہے ؟؟؟ یہ بات یہی پر رک گئی اور انسداد ٹیکس تحریک کی آڑ میں بلات جاری کروائے گئے اور مزید خاموشی اختیار کی گئی ۔ تاہم یہ تحریک بھی ایک سرد موسم میں گرم بیٹھک ثابت ہوئی ۔
عوامی ایکشن کمیٹی اور انسداد ٹیکس تحریک میں تقریباً سبھی باتیں یکساں تھی ۔ لیکن ایک چھوٹی بات ان دونوں کو آپس میں ملنے نہیں دے رہی ۔ عوامی ایکشن کمیٹی نے سیاسی رہنماؤں کو سیاست کے لئے ایک پلیٹ فارم مہیا کرتے ہوئے سیاسی مفادات فراہم کئے ۔ جبکہ انسداد ٹیکس تحریک نے مالی بلکہ ’بنیادی انسانی حق ‘ٹھیکوں کے بلات کو جاری کرایا اور لوگوں کو مالی مفادات فراہم کئے ۔عوامی ایکشن کمیٹی کے 11نکات میں ایک ٹیکس کا نکتہ تھا جبکہ انسداد ٹیکس تحریک صرف یک نکاتی ایجنڈا پر کار فرماں تھی ۔دونوں تحریکوں کو عوام کی مکمل اور کامل حمایت شامل اور موجود تھی ۔جو کسی کام نہ آسکی ۔
اب پھر سردیوں کا موسم شروع ہوچکا ہے لوگوں نے گرم ملبوسات کی طرف رخ کیا ہے تو کیوں نہ ایسے میں ایک گرم بیٹھک ہوجائے ۔ اس دفعہ اس بیٹھک کا اہتمام کیا ہے انجمن تاجران گلگت بلتستان نے ۔ جس کے ساتھ سٹیج سیکریٹری کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں دیگر تاجر تنظیمیں جن میں سابقہ مردہ روح عوامی ایکشن کمیٹی ، مذہبی جماعتیں بالخصوص جماعت اسلامی اور مجلس وحدت المسلمین ۔ اس بیٹھک کے میزبانوں نے ڈیڈلائن سے قبل ہی صوبائی حکومت سے ایک ملاقات میں ابتدائی طور پر ہڑتال کو صرف موخر کیا ہے ۔ بعد کی صورتحال آنے والے دنوں میں واضح ہوجائے گی ۔
یا تنگ نہ کر ، ناصح ناداں ، مجھے اتنا
یا چل کے دکھادے دہن ایسا، کمر ایسی
گلگت بلتستان میں ٹیکس لاگو کرنے کے حوالے سے مقامی سیاسی قیادت بذات خود تذبذب کا شکار ہے ۔ جو لوگ حکومتوں کو دیکھ چکے ہیں یا دیکھ رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ٹیکس کے بغیر ہم اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہوسکتے ہیں۔ ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑے رہنے کے لئے ٹیکس کا کڑوا گونٹھ پینا پڑے گا ۔ اس کڑوے گونٹھ کی عملی تعبیر صوبائی حکومت کے وزراء اور موجودہ اسمبلی کے ممبران کررہے ہیں جن کے تنخواہ سے ہر ماہ باقاعدہ طور پر ٹیکس کاٹا جارہا ہے ۔اور جو لوگ سیاست کے منزل کی طرف بڑھتے ہوئے سیڑھیوں پر اپنی باری کا انتظا ر کررہے ہیں ان کا موقف ہے کہ گلگت بلتستان پاکستان کا آئینی صوبہ یا علاقہ نہیں لہٰذا اس پر ٹیکس عائد کرنا غیر قانونی ہے ۔
اب ایک تجزیہ کی ضرورت ہے ۔ گلگت بلتستان میں ٹیکس کب سے عائد ہے ؟ تحریری اور زبانی دعوے تو گزشتہ چند سالوں سے شروع ہوئے ہیں لیکن اشیاء خوردنوش میں آج تک کوئی ٹیکس چھوٹ نہیں دی جاتی ۔ہم اور ہماری جمہور قیادت پاکستان کے آئینی دائرہ میں شامل ہونا بھی چاہتے ہیں اور ٹیکس کی چھوٹ بھی چاہتے ہیں ۔ اب اگر منزل پاکستان کا آئینی دائرہ ہے تو اس میں پریکٹس کے طور پر چند سال قبل ہی کیوں نہ ٹیکس دیا جائے ۔ یہ انتہائی دوہرا معیار نام نہاد سیاسی قائدین نے اپنایا ہوا ہے ۔ سابقہ صوبائی حکومت ٹیکس لگانے کا فارمولہ پر دستخط کی بات ماننے کو تیار نہیں جبکہ موجودہ حکومت خود کو واضح الفاظ میں ٹیکس کی واپسی پر خود کو بے بس دکھار ہی ہے ۔ سپیکر صاحب خود کو ’بے بس ‘ثابت کرنے سے قبل وزیراعلیٰ کے اسمبلی میں خطاب کے دوران رولنگ دیتے کہ ہم بااختیار کہاں کہاں پر ہیں واضح کیا جائے ؟ لیکن ناشاد صاحب کبھی شاد رہنے والے نہیں ؟
صوبائی حکومت کے ذمہ داران ٹیکس پر اگر عوامی جذبات کو سنجیدگی سے سمجھتے ہیں تو وفاقی حکومت سے ٹیکس کا فارمولہ طے کرکے عوام کے سامنے لے آئیں۔ وزراء ایک عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ ٹیکس کا بیشتر حصہ جی بی کو طریقہ کار کے تحت مل جائے گا لیکن طریقہ کار طے نہیں ہورہا کہ اچانک نئے اور اضافی ٹیکسز بھی لاگو کئے جارہے ہیں ۔ اس صورتحال کو واضح کیا جائے کہ ٹیکس واپسی کا فارمولہ کیسے اور کب طے کیا جارہا ہے ؟ اخباری بیانات میں پہاڑ توڑ نے کی باتوں سے اخبار تو بھرجائے گا لیکن عوام کا پیٹ ان باتوں سے نہیں بھرتا ۔ حکومت اس بات پر غور کریں کہ ٹیکس کا معاملہ مالی کم اور تشویشناک زیادہ ہے ؟ یہ تشویش آئندہ چائینہ پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ سمیت آئینی حقوق کے حوالے سے مزید بڑھ بھی سکتی ہے ؟
شرط سلیقہ ہے ہم اک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہئے