کالمز
کیا ایسا زمانہ لوٹے گا؟؟؟
آج یکم نومبر جشنِ آزادی گلگت بلتستان ہے۔ صبح سے میں مخمصے کا شکار تھا کہ کسی کو آزادی کی مبارک باد دوں یا نہیں؟ کیونکہ اس آزادی سے ہم نے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا تو بھلا صرف آزادی آزادی کہنے سے کیا اس کا مقصد پورا ہوسکے گا؟ میں ان سوچوں میں مگن تھا میرے ایک فیس بکی فین نعیم الدین کی طرف سے مجھے ان باکس میں ایک مسیج ملا۔ جو کچھ یوں تھا:
’’ہم اپنے آباؤاجداد کو سلام پیش کرتے ہیں جنھوں نے ہمیں آزادی دلایا۔ ہمیں فخر ہے کہ ہمارے جد امجد بہادر تھے۔ مگر ہمارے بچوں کو افسوس ہوگا کیونکہ ہم نے رشوت، بدعنوانی، اقربا پروری اور تعصب جیسے ناسوروں سے سمجھوتہ کیا ہے۔ کبھی اپنے سیاسی، آئینی اور انسانی حقوق کے لیے یکجا آواز نہیں اٹھایا۔‘‘
اس مسیج نے نہ صرف مجھے سوچنے پہ مجبور کیا بلکہ لکھنے پر بھی آمادہ کیا کہ رہنے دے رشوت، بد اعنوانی، اقربا پروری اور تعصب کو ان سے کیا فرق پڑتا ہے زیادہ سے زیادہ ہماری اولاد پہ اثر ہوگا حرام کا لقمہ حرامی ہی جنم دے گا نا باقی کونسی قیامت آئے گی؟؟؟ حرامی پیدا کرنے میں ویسے بھی ہم خودکفیل ہیں۔ رہی بات سیاسی، آئینی اور انسانی حقوق کے لیے یکجا آواز کی تو جناب اس حوالے سے بھی ہم نکمے قوم ہیں۔ ہمارے آباؤاجداد نے لاٹھیوں سے ڈوگروں کو بھگایا۔ ان کے پاس ایمان کی دولت تھی ہمارے پاس چوری شدہ این سی پی گاڑیوں کی دولت ہے۔ وہ یقین سے مالامال تھے ہم بے یقینی کی شاہراہ پر گامزن۔۔۔۔۔۔ حیرت تو اس وقت ہوتی ہے جب باپ اپنے بچوں کو این سی پی گاڑی میں سکول چھوڑ کے یہ توقع کرتا ہے کہ اس کے بچے اچھی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ایماندار بھی بنے۔ ارے بھیا! اچھی تعلیم یا ایمانداری سکول میں نہیں ہوتی اس کے لیے خود باکردار بننا پڑتا ہے۔ ہم میں اور ہمارے آباؤ اجداد میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ڈاکٹر علامہ اقبالؒ نے اپنے جوابِ شکوہ میں ایسے ہی تو نہیں کہا تھا؎
صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا کس نے
نوعِ انساں کو غلامی سے چھڑایا کس نے
میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے
میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو
بس یہی حال ہے ہمارا۔ نہ سمت کا تعین نہ منزل کا شعور؟ اس کی وجہ ایک طرف ہمارا کھوکھلا نظامِ تعلیم ہے تو دوسری طرف تہذیب و تربیت کا فقدان۔ آئیے اس حوالے سے چند یادیں تازہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسی نے بڑا اچھا تجزیہ کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’اُس دور میں ماسٹر اگر بچے کو مارتا تھا تو بچہ گھر آکر اپنے باپ کو نہیں بتاتا تھی اور اگر بتاتا تھا تو باپ اُسے ایک اور تھپڑ رسید کردیتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ”اکیڈمی“ کا کوئی تصور نہ تھا، ٹیوشن پڑھنے والے بچے نکمے شمار ہوتے تھے۔ بڑے بھائیوں کے کپڑے چھوٹے بھائیوں کے استعمال میں آتے تھے اور یہ کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی تھی۔ لڑائی کے موقع پر کوئی ہتھیار نہیں نکالتا تھا، صرف اتنا کہنا کافی ہوتا تھا کہ میں تمہارے اباجی سے شکایت کروں گا۔ یہ سنتے ہی اکثر مخالف فریق کا خون خشک ہوجاتا تھا۔ اُس وقت کے اباجی بھی کمال کے تھے، صبح سویرے فجر کے وقت کڑکدار آواز میں سب کو نماز کے لیے اٹھا دیا کرتے تھے۔ بے طلب عبادتیں ہر گھرکا معمول تھیں۔ کسی گھر میں مہمان آجاتا تو اِردگرد کے ہمسائے حسرت بھری نظروں سے اُس گھر کو دیکھنے لگتے اور فرمائشیں کی جاتیں کہ ”مہمانوں“ کو ہمارے گھر بھی لے کرآئیں۔ جس گھر میں مہمان آتا تھا وہاں پیٹی میں رکھے، عطر کی خوشبو چھڑکے بستر نکالے جاتے خوش آمدید اور شعروں کی کڑھائی والے تکئے رکھے جاتے، مہمان کے لیے دھلا ہوا تولیہ لٹکایا جاتا اورغسل خانے میں نئے صابن کی ٹکیا رکھی جاتی تھی۔ جس دن مہمان نے رخصت ہونا ہوتا تھا، سارے گھر والوں کی آنکھوں میں اُداسی کے آنسو ہوتے تھے، مہمان جاتے ہوئے کسی چھوٹے بچے کو دس روپے کا نوٹ پکڑانے کی کوشش کرتا تو پورا گھر اس پر احتجاج کرتے ہوئے نوٹ واپس کرنےمیں لگ جاتا، تاہم مہمان بہرصورت یہ نوٹ دے کر ہی جاتا۔ شادی بیاہ کی تقریب میں سارا محلہ شریک ہوتا تھا، شادی اور غمی میں آنے جانے کے لیے ایک جوڑا کپڑوں کا علیحدہ سے رکھا جاتا تھا جو اِسی موقع پر استعمال میں لایا جاتا تھا، جس گھر میں شادی ہوتی تھی اُن کے مہمان اکثر محلے کے دیگر گھروں میں ٹھہرائے جاتے تھے، محلے کی جس لڑکی کی شادی ہوتی تھی بعد میں پورا محلہ باری باری میاں بیوی کی دعوت کرتا تھا۔ کبھی کسی نے اپنا عقیدہ کسی پر تھوپنے کی کوشش نہیں کی، کبھی کافر کافر کے نعرے نہیں لگے، سب کا رونا ہنسنا سانجھا تھا، سب کے دُکھ ایک جیسے تھے۔ سب غریب تھے، سب خوشحال تھے، کسی کسی گھر میں بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی ہوتا تھا اور سارے محلے کے بچے وہیں جاکر ڈرامے دیکھتے تھے۔ دوکاندار کو کھوٹا سکا چلا دینا ہی سب سے بڑا فراڈ ہوتا تھا۔‘‘
پھر کیا ہوا کہ ہم نے ترقی کی۔ گھر کے دروازے پر این سی پی گاڑی کھڑی ہوئی۔ پھر جناب ترقی کا ایسا طوفان آیا کہ یہ ساری اقدار مٹتی گئیں۔ بس اگر رہ گئی ہے تو این سی پی۔ اگر یقین نہیں آتا تو شام کے وقت ذرا گلگت بازار کا چکر لگاکر تو دیکھئیے گا۔ آپ کو این سی پی کی چوری شدہ گاڑیوں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آئے گا۔ اب بھلا بندہ اس این سی پی زدہ معاشرے میں آزادی کی مبارک باد دے بھی تو کس کو دے۔
بس ایک آہ نکلتی ہے کہ کاش! پھر وہ دن لوٹ آئیں؟؟؟