بلاگز

جوٹیال گلگت کی شام اور خاکی مرحوم

(یہ تحریر کچھ سال پہلے کی ہے اس کو اسی تناظر میں پڑھا اور محسوس کیا جائے۔)

جوٹیال گلگت کی وہ شام بڑی خوبصورت تھی۔ میں اپنے کسی دوست کے وسیع و عریض صحن میں بیٹھا تاروں بھرے آسمان کو تک رہا تھا۔ چاند کی ابتدائی تاریخیں تھیں یا آخری………… کہیں نظر نہیں آرہا تھا جبکہ ستاروں سے کوئی جگہ خالی نہیں تھی۔ روشنیوں میں نہائی ہوئی وادیِ گلگت ایک خواب ناک منظر پیش کر رہی تھی۔ کچھ دیر پہلے کی ہلکی بارش سے فضا میں قدرے خنکی سی پیدا ہوئی تھی جبکہ مٹی کی سوندھی سوندھی مہک عجیب سرشاری طاری کر رہی تھی۔ میرے سامنے مگ میں پڑی کافی کب کی ٹھنڈی ہوچکی تھی۔ شاید میں تاروں بھرے آسمان میں دیر تک کھو چکا ہوتا لیکن میرے محترم دوست عبدالخالق تاجؔ صاحب کی کال نے میری توجہ اپنی طرف کھینچ لی تھی۔ سلام و دُعا کے بعد تاجؔ صاحب نے حکم صادر کیا کہ ’’کریمی صاحب! چترال کے مرحوم شاعر دوست جناب گل نواز خاکیؔ کی یاد میں ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ صاحب اور اُن کے احباب ’’خاکی نمبر‘‘ شائع کرنے جارہے ہیں۔ آپ جلد از جلد اس حوالے سے اپنی تحریر ڈاکٹر صاحب کو روانہ کردے۔‘‘ تاجؔ صاحب کا حکم سر آنکھوں پر، لیکن میری محترم گل نواز خاکیؔ (مرحوم) سے اُن کی زندگی میں کبھی بلمشافہ ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ یہ اپنی ہمیشہ کی طرح کی کاہلی تھی یا مصروف زندگی کی وہی گہماگہمی کہ چترال کے اپنے دوستوں کی طرف سے کئی دفعہ پُرخلوص دعوت دینے کے باوجود وہاں نہیں جاسکا تھا۔ کئی بار پروگرام طے بھی ہوا مگر عملی جامہ پہننے سے پہلے ہی دَم توڑ گیا۔ زندگی اتنی مصروف ہوچکی ہے کہ ’’اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے‘‘ کے بمصداق ہر لمحہ دوسرے لمحے میں داخل ہوجاتا ہے۔ کسی دِل جلے نے سچ کہا ہے ؂
آنکھ کھولی تو اذاں بند ہوئی جب تو نماز
اتنے وقفے میں بشر کیا کرے اور کیا نہ کرے
سرزمینِ چترال کے بلند پایہ شاعر محترم گل نواز خاکیؔ گیارہ نومبر دوہزار تیرہ کو ہم سب کو داغِ مفارقت دے کر آسودۂ خاک ہوئے۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ آمین!
مختلف اخبارات و رسائل خصوصاً جمہور اِسلام کے ابتدائی شمارے، ماہنامہ شندور، چترال ٹائمز وغیرہ میں مرحوم سے جو علمی و ادبی رشتہ تھا اس کا مختصر خاکہ پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ شاعر و ادیب عام انسانوں سے ذرا ہٹ کے ہوتے ہیں۔ وہ وقت سے آگے کی بات کرتے ہیں۔ جہاں عام انسانوں کی سوچ ختم ہوتی ہے ان کی سوچ وہاں سے آگے شروع ہوتی ہے۔ تب تو بعض دفعہ معاشرے کے سطحی سوچ رکھنے والے ان کو برداشت نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کا شمار زندہ رہ کر بھی مردوں میں ہوتا ہے جبکہ گل نواز خاکیؔ جیسے بلند پایہ شعراء و ادیب مر کر بھی زندہ رہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ روشنی ہمیشہ اپنے ہونے کا احساس دلاتی رہتی ہے۔ روشنی کو کفِ دست میں چھپایا نہیں جاسکتا۔ گل نواز خاکیؔ (مرحوم) کی شخصیت بھی روشنی کی طرح تھی۔
مرحوم کہوار ادب میں ایک معتبر مقام رکھتے تھے۔ انجمن ترقی کہوار کے بانی اراکین میں آپ کا نام سرفہرست تھا۔ کہوار اُردو لغت بھی آپ کا اثرِخامہ ہے۔ کہوار شاعری پر آپ کی کتابیں چترال کے علمی و ادبی حلقوں میں قدر کی نظر سے دیکھی گئی ہیں۔ پشاور سے کہوار پروگرام میں میزبانی بھی کرچکے ہیں۔ بہترین ستار نواز ہونے کے ساتھ ساتھ گلوکاری میں بھی مرحوم اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ پشاور ریڈیو سے ریڈیائی لہروں کے ذریعے آپ کی خوبصورت اور دِل کو چھو لینے والی شاعری ایک عہد کو اپنا گرویدہ بناچکی تھی۔ سرزمینِ غذر اور چترال میں جہاں جہاں کہوار بولنے والے رہتے ہیں ان کے لیے گل نواز خاکیؔ کوئی اجنبی نام نہیں۔ بلکہ اپنی دلآویز شاعری کی وجہ سے مرحوم خاکیؔ ہمیشہ اہالیانِ غذر و چترال کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔
محترم گل نواز خاکیؔ کو مرحوم لکھتے ہوئے گویا میرے قلم کو بریک لگ جاتی ہے۔ مگر امرالٰہی کے سامنے انسان بے بس ہے۔ کیونکہ ہر زی نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ دُنیا کی بے وفائی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا دیا جاسکتا ہے کہ وقت آنے پر یہ دُنیا اور یہاں کی ہر چیز ساتھ چھوڑ جاتی ہے۔ میرے محترم دوست پروفیسر کمالؔ الہامی نے کیا خوب کہا ہے ؂
دُنیائے حادثات کا کیا اِعتبار ہے
اِنسان کی حیات کا کیا اِعتبار ہے
کھلتے ہیں پھول گاتے ہیں بُلبُل بہار میں
لیکن کسی کی بات کا کیا اِعتبار ہے
قدموں کی لغزشوں سے جو ملتی ہے خاک میں
خوشیوں کی اُس بارات کا کیا اِعتبار ہے
دریائے حادثات میں ڈوبے ہیں سارے لوگ
کشتی کی اب نجات کا کیا اِعتبار ہے
ہے اِس کے پاس گاہے، کبھی اُس کے پاس ہے
طغیانئِ فرات کا کیا اِعتبار ہے
نیچے گراتی رہتی ہے دُنیا بلندیاں
پستی میں اونچی ذات کا کیا اِعتبار ہے
ماہِ کمالؔ کا بھی مقدّر ہے جب غروب
تو چودھویں کی رات کا کیا اِعتبار ہے
جب اُس شام میرے ذہن میں یہ خیالات آرہے تھے تو یقین جانیئے جوٹیال گلگت کی وہ خوبصورت شام کہیں پس منظر میں چلی گئی تھی اور میں دِل میں یادوں کا ایک ہجوم لیے پلنگ پہ دراز ہوا تھا۔ کمبخت نیند تھی کہ آنکھوں سے فرار جبکہ بے قراری تھی کہ کوئی راہِ فرار سجھائی نہیں دے پا رہا تھا۔ اس حالت میں گویا ہماری حالت کچھ ایسی تھی ؂
یہ اجنبی سی محفلیں اور رفتگاں کی یاد
تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو!
آنکھوں میں اُڑ رہی ہے لُٹی محفلوں کی دُھول
غیرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو!
بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ میں تاجؔ صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے مجھے اس اہم شخصیت پر لکھنے کے لیے کہا۔ اس کے ساتھ چترال کے اپنے محترم دوست جناب ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ اور اُن کے رفقائے کار کو بھی خراج تحسین پیش کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے کہوار ادب کے اس بے تاج بادشاہ پر اُن کی یاد میں ’’خاکی نمبر‘‘ نکالنے کا فیصلہ کرکے یقیناًکہوار ادب پر احسان کیا ہے۔ یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ ایسی کاوشوں کی حال سے زیادہ مستقبل میں اہمیت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے۔ آمین!

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button