بلاگز

محبت ایک کیمیائی عمل ہے

شفیق آحمد شفیق

صدیوں پر محیط انسانی تاریخ ایک بڑے ارتقائی عمل کے بعد عقل کے دور میں داخل ہوئی ہے۔ اور عقل کی سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ یہ اپنی راہ میں حائل ہر پردے کو منطق کی ڈھال سے چاک کردیتی ہے۔ اور یوں ایک حقیقت پسند کو روشنی سے متعارف کرا دیتی ہے۔انسان دنیاکے چند ازلی تصورات میں سے ایک محبت ہے، جس کے متعلق انسانی نمائندوں نے بہت کچھ لکھا اور کہا لیکن چونکہ آج دنیا سائینس کی زبان سے سننےکو ترجیح دیتی ہے لہذا یہ معضموں محبت کو سائینی تناظر میں سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔

ایک شدید اور گہرے پیار کے احساس کو محبت کہتے ہیں۔ جو کہ ماں ، باپ، بھائی ، بہن، بیوی ، وغیرہ کے ساتھ مختلیف شکل اور صورتوں میں ہوسکتی ہے۔ کوئی سے دو افراد ایک دوسرے کی محبت میں کیوں مبتلا ہوتے ہیں۔ سگمنڈ فرائیڈ کا موقف یہ ہے کہ لڑکی اپنے والد کی محبت میں گرفتار ہوتی ہے اور لڑکا اپنی والدہ کی محبت میں۔ فرائیڈ محبت کے جذبے کو انسانی لاشعور میں موجود تشنہ خواہشات سے جوڑتا ہے۔ وہ محبت جس سے بچہ اپنی زندگی کے اوّلین سالوں میں محروم رہتا ہے وہ نوجوانی میں اپنے اردگرد موجود خواتین میں تلاش کرتا ہے۔

سگمنڈ فرائیڈ کے برعکس ایک ماہر امراض و دماغ تھامس لوئس کا نظریہ یہ ہے کہ روحانی محبت کی جڑیں فرد کے بچپن کے تجربات میں ہوتی ہیں۔ ہم جب اپنی ماں کا دودھ پیتے تھے تو کیا محسوس کرتے تھے۔ جب ہم اپنی ماں کے چہرے کو دیکھتے تھے تو ہمیں کیسا لگتا تھا۔ یہ نقوش ہمارے دماغ میں محفوظ ہو جاتے ہیں اور پھر ہم بڑے ہو کر اُن لمحات کو واپس لانا چاہتے ہیں۔ اس نظریے کے مطابق محبت کا تعلق اِس بات سے نہیں ہوتا کہ ہم محبت میں کیا حاصل کریں گے۔ بلکہ اس بات سے ہوتا ہے کہ جو کچھ ماضی میں ہمیں حاصل تھا ہم اُسے دوبارہ پانا چاہتے ہیں۔ یعنی محبت ایک ردعملی جذبہ ہے نا کہ کسی عمل کا آغاز کرنے والا ۔ یہ ہمیں ماضی کی طرف لے جاتا ہے۔ ہمیں صنف مخالف کے کسی فرد میں ماضی میں اپنی کسی قریبی ہستی کی جھلک دکھائی دیتی ہے یا کسی کا لمس ہمیں مانوس معلوم ہوتا ہے اور ماضی کی یادیں ہمارے ذہن میں تازہ ہو جاتی ہیں۔

محبتکو مختلف حوالوں اور سطح پر بیان کیا جاتا ہے۔ مثلاً محبت بطور خاص جنسی جذبے کا اظہار جسے بعض اوقات ہوس سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ محبت بطور رومان، محبت بطور وابستگی اور مرد اور عورت کے درمیان وقتی کشش اور ملاپ۔ ہیلن فیشر ہماری عہد کی ایک نامور سماجی ماہر انسانی ثقافت ہے۔ فیشرنے تقریباً دس سال اس بات پر صرف کیے ہیں کہ وہ ایم۔آر۔آئی مشین کے ذریعے محبت کے جذبے کے زیرِ اثر انسانی دماغ میں ہونے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ کرے۔ فیشر نے دریافت کیا ہے کہ جب محبت کرنے والے ایک دوسرے کی جانب دیکھتے ہیں تو اُن کے دماغ کے وہ حصے متحرک ہو جاتے ہیں جن کا تعلق لذت اور جزا کے ساتھ ہے۔ ان کے نام وینٹرل سیگمنٹل ایریا اور کو ڈیٹ نیو کلیس ہے۔ اِس میں جو بات زیادہ چونکاتی ہے وہ یہ ہے کہ کو ڈیٹ نیو کلیس میں ایک کیمیائی مادہ پایا جاتا ہے جس کا کام دماغ میں عصبی ترسیلات کو بحال رکھنے میں مدد دینا ہے۔ اس عصبی ترسیلی مادے نیورو ٹرانسمیٹر کا نام ڈوپاماین ہے۔ڈوپاماین وہ عصبی ترسیلی مادہ ہے جو دماغ میں بہت زیادہ توانائی پیدا کرتا ہے۔ یہ ہمیں توجہ کو مرتکز کرنے میں مدد دیتا ہے اور زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے اکساتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی فرد نیا نیا محبت میں گرفتار ہوتا ہے تو اُس کا جوش و جذبہ دیدنی ہوتا ہےڈوپاماین وہ عصبی ترسیلی مادہ ہے جو دماغ میں بہت زیادہ توانائی پیدا کرتا ہے۔اور یہ وہ صلا یت بھی ہوتی ہے، جو انسان کو کچھ کرنے پر اکساتی ہے۔

محبت کے جذبے کے حوالے سے یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اس کی شدت سدا ایک سی نہیں رہتی۔ ایک وقت میں ایک شخص آپ کو بہت پیارا ہوتا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ کے جذبات بدلنے لگتے ہیں۔ محبت کی شادی کرنے والے کئی جوڑے چند ماہ یا چند سال بعد ایک دوسرے سے جد اہو کر نئی زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔

عقل غم اور خو شی کے جذبات و احساسات کو تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہے، اور کہتا ہے یہ درد و غم صرف سیروٹنن کی سطح کم ہونے کا نتیجہ ہے۔ اور محبت کرنے والے جوڑے سے بھی یوں مخاطب ہوتاہے کہ محبت کی کوئی حقیقت نہیں یہ صرف ایک جبلی جبر ہے جسے محبت کا جھوٹا نام دے دیا گیا یہ جنسی جذبے کہ سوا کچھ نہیں! مرد میں ٹیسٹوٹورین ہارمون اس کا ذمہ دار ہے اور خواتین میں ایسٹروجن۔۔۔۔ غرض اس زاویہ فکر کی صورت میں یہ سب ہمارے جسم میں کیمایائی تعملات کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button